عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روندی یار نوں ناں لے کے بھراواں دا
طالبانِ عیش سے کہہ دوں تو اُڑ جائیں حواس
کس قدر رویا ہوں میں اک مُسکرانے کے لیے
جوش ملیح آبادی
پنجابی میں ایک کہاوت ہے جو ہوتی تو اکثر مذموم معنی میں ہے لیکن مجھے تو اس میں وفا کے معنی کی جھلک نظر آتی ہے
روندی یار نوں ناں لے کے بھراواں دے
(بھائیوں کا نام لیکر اپنے یار سے جدائی کا غم مناکر روتی ہے)
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم جب کبھی اپنے اردگرد کسی کی المناک موت پر آنسو بہاتے ہیں، اظہار غم کرتے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں ہمارے اس اپنے کا غم لازم شامل ہوتا ہے جو ہمیں سب سے پیارا تھا بلکہ اُس وقت بھی ہوتا ہے؟
انھی راستوں پہ گامزن تھے دونوں
مجھے روک روک پوچھا تیرا ہمسفر کہاں ہے
گزشتہ کئی دن سے علی سد پارہ کے کے ٹو پہاڑ کو سر کرنے کی مہم کے دوران گمشدگی کا غم منایا جارہا ہے اور ایک گیت کا یہ مصرعہ بار بار لکھا جارہا ہے : تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم
ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم
تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم
مر ہی جائیں گے فرقت میں ہم
تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم
کیا ستم ظریفی ہے کہ فروری کا پہلا ہفتہ تھا جب "ساری” نے کہا تھا کہ اُسے قے کے دوران خون آیا ہے، اور وہ میرے ساتھ آغاخان ہسپتال چلی آئی تھی، وہاں پہ ڈاکٹر نے اُس ست تفصیل سے بات کی اور اس دوران اُس نے مکمل بلڈ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ سٹول ٹیسٹ نام کا ایک اور ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا، ساری اور میں نے پوچھا مگر ڈاکٹر نے کہا پہلے آپ ٹیسٹ کروالیں پھر بات ہوگی اور دونوں ٹیسٹ ہوئے اور پھر اُن کے رزلٹ آئے تو مزید نمونے ساری کے لیے گئے اور ساری نے وہ امریکہ بھجوادیے جہاں اُس کے ماں باپ اور ایک بھائی سیٹل ہوگئے تھے – پھر وہاں سے رپورٹس کے رزلٹ ہی نہیں آئے بلکہ ساری کا سارا خاندان آگیا- پتا چلا کہ اُسے آخری سٹیج کا بلڈ کینسر ہے اور اُس کے پاس وقت بہت کم ہے- ساری کے گھر والے اُسے امریکہ لیجانا چاہتے تھے لیکن ساری نے صاف انکار کردیا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ جب اُسے مرنا ہی ہے تو پھر وہ یہیں کراچی میں کیوں نہ آخری سانس لے- فروری سے 21 مارچ تک کے دن بہت ہی تکلیف اور رنج و غم کے تھے- اس دوران مجھے سخت بے بسی کا احساس ہوتا تھا اور یہ احساس میرے اندر بے انتہا غصہ اور بغاوت پیدا کررہا تھا اور میں عجیب و غریب حالت سے گزر رہا تھا- دوسری طرف ساری تھی جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اُس کی تکلیف کی شدت بڑھتی جاتی اور مسکن ادویات و انجکشن تک بے اثر ہونے لگے تھے وہ تکلیف سے تشنج کی سی کفیت کا شکار یوتی لیکن میں اُس کے سختی سے بند ہونٹوں پہ ہمہ وقت سجی مسکان دیکھ کر حیران ہوجاتا تھا اور کہتی
‘عامی! ہر شئے نے ہلاک ہوجانا ہے، ہر شئے کی تقدیر فنا ہے اور ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اگر نفس عبدیت کا مظہر تھا تو اُسے لازمی دعوت ملے گی اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف راضی برضا لوٹ آ اور میرے عباد میں داخل ہوکر خلد نشین ہوجا’ اُس کے بعد وہ نہج البلاغہ سے جنابِ علی المرتضٰی علیہ السلام کے کلمات قصار سے ایسے کلمات کا انتخاب کرتی جس سے زندگی کی بے ثباتی ظاہر ہوتی اور آدمی کے اصل ٹھکانے کی نشاندہی ہوتی اور اپنی تکلیف اور مصیبت پر وہ اپنے صابر رہنے، مشیت سے راضی ہونے کا زکر کرنے کے لیے ایک دعا پڑھتی (مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ دعا تو وہ کلمات صبر تھے جو امام حسین علیہ السلام میدان کربلا میں ادا کرتے رہے تھے)………..
ایسے وقت میں، میرے چہرے پہ شاید انتہائی تذبذب کے آثار ہوا کرتے تھے اور میری آنکھیں تشکیک سے بھری ہوتی تھی اور میری بدن بولی اور میرے اعضا کی حرکات و سکنات سے جو اضطرار جھلکتا تھا وہ شاید اسے باور کرادیتا تھا کہ اس کی مابعدالطبعیاتی کیفیات کے مدمقابل پوری طاقت سے وہ جدلیاتی مادیت پرستی کا درس آکر کھڑا ہوگیا ہے جو اسے یہ باور کرارہا ہے کہ ان سب باتوں سے اُس کی ساری اپنی حالت موجود سے فرار کا سامان کررہی ہے –
وہ جسے اس کے گھر والے وجدانی کیفیت کہا کرتے تھے اور اس کی والدہ وقفے وقفے سے صحیفہ سجادیہ سے کچھ منتخب دعائیں پڑھ کر پھونکتی رہتیں تھیں اور والد تو جب سے آئے تھے بس ٹکٹکی باندھے بیٹی کو تکتے رہتے تھے اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے رہتے بس ایک مرتبہ اُن کی آواز مجھے سنائی دی جب ساری پہ وقت نزع تھا اور وہ کہہ رہے تھے "یا سجاد، یا سید الساجدین والعابدین”…… ساری نے مجھے 21 مارچ کی صبح آخری سانس لینے سے پہلے خلاف معمول عامی کہہ کر بلانے کی بجائے کہا،
"My Hussain!”… I hope one day will come when you will be able to see things through my eyes…. "
وہ ہونٹوں پہ مسکان سجائے گزرگئی اور مجھ سمیت اُس کے سب جاننے والے اُس کی راہ تکتے ہیں حالانکہ وہ نہ تو لاپتا ہوئی تھی، نہ ہی اُس کی موت کے گرد کوئی شک و شبہ کا جالا بنا ہوا تھا-
میں اپنے حوالے سے اُس کے ارجاء(امید پرستی) پہ آج تک حیران و پریشان ہوں – میرے پاس اُس کی لکھی نوٹس بُک محفوظ ہیں – ایک ایک نوٹ آئیڈیل ازم…… خیال پرستی سے بھرا ہوا ہے اور میں اُس کے حافظے پہ حیران ہوں کہ اُس نے جس متن کی بھی جو عبارت لکھی بطور حوالہ زکر کی وہ بالکل درست ہے اور حوالہ صفحہ بھی درست ہے-
ابھی کل کی بات ہے کہ ایک جگہ اُس نے کارل مارکس کی کتاب "جرمن آئیڈیا لوجی” کا ایک حوالہ نوٹ بک میں لکھا ہوا تھا اور بریکٹ میں لکھا تھا کہ (کبھی عامی کا جنون اس کا اردو ترجمہ کرنے پہ اُسے مجبور کرے گا تو ایسے میں اگر اُس نے میرا کہا مان کر فارسی پہ عبور کرلیا ہوگا تو اسے اس کتاب کے فارسی ترجمے سے بڑی مدد مل جائے گی لیکن لگتا نہیں وہ فارسی پہ مکمل عبور پالے گا…..واہ رے میرے ‘کامریڈ’……) وہ لفظ کامریڈ کو تھوڑا بگاڑ دیا کرتی تھی اور مجھے چڑانے کے لیے "کم ریٹ” کہا کرتی تھی…… وہ کہا کرتی تھی کارل مارکس کے فلسفہ انقلاب کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں یہ زیادہ تر خواہشات کے جہنم میں جلنے والی "پیٹی بورژوازی” کے ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اُس کی کتابوں پہ قارون بن کر بیٹھ گئے ہیں اور اکثر کا انجام لبرل ازم کی کھائی میں گرجانا ہے…….. ( آج میں اُس کی یہ بات مجسم ہوکر دیکھ رہا ہوں)
خیالات مجھے کہاں سے کہاں لے آئے، میں تو بس یہ کہنا چاہ رہا تھا ‘علی سد پارہ’ کیس میں میرا حال "روندی یار نوں ناں لے کے بھراواں دا” والا ہوگیا ہے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر