عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بار باریہ خیال ستاتا ہے کہ ٹریڈ یونین کے زوال اور شاگرد یونینوں پر پابندی نے ہماری سیاست میں نئے اور توانا خون کی آمد کا سلسلے کو بند کردیا ہے۔ اور اب ہماری سیاست بڑی سرمایہ داری اور درمیانی سرمایہ داری کے مفادات ( بورژوازی اور پیٹی بورژوازی) کے درمیان کشاکش اور سمجھوتے بازیوں کا عکس بنی ہوئی ہے۔ سینٹ کے انتخابات کے لیے پاکستان کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے جن لوگوں کو نامزد کیا ہے ان کا پروفائل بورژوازی اور پیٹی بورژوازی پس منظر کا حامل ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو شہری اور دیہی ورکنگ کلاس کی نمائندگی کرتا ہو۔
جب سے سینٹ کی 48 نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے امیدواروں کی لسٹ سامنے آئی ہے تب سے بحث زیادہ تر یہ ہورہی ہے کہ فلاں پارٹی کا آدمی ہے اور فلاں پیرا شوٹر ہے۔ اور جس پیراشوٹر پہ زیادہ تنقید ہو اس کی جگہ پارٹی کا کوئی دوسرا آدمی آجاتا ہے لیکن اس کے سماجی طبقاتی حثیت کو بنیادی چیز کے طور پر زیر بحث نہیں لایا جارہا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں زیادہ تر ایک بورژوازی(بڑی سرمایہ داری) کے نمائندے کی جگہ یا تو دوسرا نمائندہ آجاتا ہے یا تھوڑا دباؤ زیادہ ہو تو پیٹی بورژوازی/درمیانی سرمایہ داری کا نمائندہ آجاتا ہے اور اگر بہت ہی زیادہ دباؤ آئے تو پیٹی بورژوازی کی نچلی پرت(زیادہ تر جنھیں سفید پوش کہا جاسکتا ہے) کا نمائندہ آجاتا ہے یا پھر بہت ہی ریڈیکل فضا ہو غریب کسانوں یا غریب شہری ورکنگ کلاس سے کوئی ایک یا دو یا تین افراد چن لیے جاتے ہیں اور ایسے کردار اپنے آخری تجزیے میں محض شو پیس ہی ہوتے ہیں اور وہ ایوان میں اپنے طبقے کے مفادات اور ایشوز پر زوردار طریفے سے اپنا مقدمہ پیش کرنے کی بجائے زیادہ تر اپنی نامزدگی کرنے والی قیادت کے گن گانے میں وقت ضایع کردیتے ہیں اور یہ کردار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی جماعتوں کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے مقابلے میں شہری اور دیہی غریبوں کے حق میں لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ اکثر و بیشتر حالات میں اپنی پارٹی کے اندر وہ لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر کرنے والے منجھے ہوئے تربیت یافتہ کارکنوں کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
سینٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے پاس آسان راستا ہوتا ہے وہ اپنی پارٹی کے محنت کشوں اور غریب کسانوں کے حقیقی نمائندہ کارکنوں کو محفوظ نشستوں پر منتخب کروالیں اور ایسے نمائندہ کارکن پارلیمنٹ میں اپنے طبقات کے عوام کا مقدمہ بہترین انداز میں پیش کرسکتے ہیں یا اگر پارٹی کا کوئی ڈائی ہارڈ کارکن لائم لائٹ میں نہ ہو جو منظم و غیر منظم محنت کشوں اور غریب کسانوں کے اندر مقبول نہ ہو جبکہ پارٹی کا کوئی ہمدرد جو غریب محنت کشوں اور کسانوں میں مقبول ہو اور جڑیں رکھتا ہو اس دانشور ایکٹوسٹ کو منتخب کرالیا جائے۔ لیکن ہم کم از کم 1993ء کے بعد سے اس روش کا مکمل خاتمہ دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے شاگرد ونگ ہوں یا لیبر ونگ ان کا حال بہت پتلا ہے اور جن بڑے پبلک سیکٹرز میں ان جماعتوں کی یونین منظم ہیں وہاں ان کی قیادت خود عملی طور پر اشرافیہ میں بدل چکی ہے اور ان کو دیہاڑی باز کے طور پہ جانا جاتا ہے اور پاکستان کے سروسز سیکٹر میں جہاں ورکنگ کلاس کی سب سے بڑی تعداد ہے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں جو ورکنگ کلاس کے حقیقی رہنما لیڈر ہیں اور انھوں نے کئی بار حکومتوں کی نیولبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں اور فیصلوں کو شکست دی ہے ان کو سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے اور محفوظ نشستوں سے منتخب کرانے کا سوال ہی خارج از امکان نظر آتا ہے۔ سروسز سیکٹر، مینوفیکچرنگ سیکٹرز کے منظم محنت کش اور ان کی یونینز اور فیڈریشنز قریب قریب ہر حکومت سے سروس سٹرکچرز، پے اسکیلز اور دیگر ایشوز پر ٹکراؤ میں آتے ہیں اور ان کو وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں دھرنے دینے پڑتے ہیں، لڑنا پڑتا ہے اور پہلے پہلے ان کو ریاستی مشینری سے دبانے کی کوشش ہوتی ہے اور جب یہ کوشش ناکام ہو تب ان کو لولی پاپ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ اور یہ تجربات محنت کشوں کی منظم ٹریڈ یونین اور فیڈریشنز کے اراکین اور ان کی قیادت کو سیاسی جماعتوں سے دور کرتے ہیں اور وہ جو پوٹنشل ان میں وفاقی اور صوبائی پارلیمانی اداروں میں اپنے طبقے کی نمائندگی کا ہوتا ہے وہ عملی صورت اختیار ہی نہیں کرپاتا۔
اگر آپ اس وقت پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں سرگرم ان جماعتوں پر نظر دوڑائیں جو اپنے آپ کو عوام کے ووٹ کی عزت اور احترام کا علمبردار، جمہوری منتخب سویلین بالاستی کا گھنٹا گھر کہتی ہیں اور جب ان کے دعوؤں کو آپ ان کی طرف سے سامنے آنےوالے پارلیمنٹرین کے انتخاب کو سماجی طبقاتی مفاد میں ٹرانسلیٹ کرتے ہیں شہری ورکنگ کلاس اور دیہی غریب کسانوں کی نمائندگی کے اعتبار سے تو یہ سب جھوٹ نکلتے ہیں۔
پاکستان میں جو لبرل سوچ کے علمبردار تجزیہ نگار ہیں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں اور ادیب و دانشور ہیں ان کے ہاں معروضی حقائق سے ہٹ کر محض بیانیوں کی بنیاد پر کچھ فکری مغالطوں کی تعمیر کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے لبرل عام طور پر ہمیں سیاسی جماعتوں میں کچھ ایسے کرداروں کا نام لیکر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ویسے کردار اگر سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ ہوں تو عوامی حقوق زیادہ محفوظ ہوجائیں گے- جیسے مسلم لیگ نواز میں پرویز رشید ، خواجہ سعد رفیق، صابر شاہ،ظفر اقبال جھگڑا، مریم اورنگ زیب، پی پی پی میں شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، تاج حیدر، سعید غنی،مرتضی وہاب، قمر زماں کائرہ، چوہدری منظور(تین سفید پوش سینٹرز بھی شامل کرلیں)، اعتزاز احسن، اے این پی میں میاں افتخار،افراسیاف خٹک اور ایسے ہی بلوچستان سے ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر عبدالحئی وغیرہ لیکن جب ہم ان سب لوگوں کی پروفائل دیکھتے ہیں ایک تو یہ پیٹی بورژوازی کی تعلیم یافتہ شہری پرت کے نمائندے نکلتے ہیں اور دوسرا ان کافوکس قریب قریب وہی ہوتا ہے جو ایک بورژوا سوسائٹی کی سول سوسائٹی کے ممبران کا ہوا کرتا ہے اور وہ ایک حد سے آگے نہیں جاپاتے اور دیکھا جائے تو یہ سرے اپنے سماج کے شہری اور دیہی پرولتاریہ(محنت کشوں) کی نمائندگی نہیں کرتے اور یہ تو معروف معنوں سوشل ڈیموکریٹ بھی نہیں ہوتے ان کو ہم لبرل ڈیموکریٹ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے ملٹری کیپٹل کے پھیلاؤ اور ملٹری بورژوازی کے خلاف تو بلند آہنگ ہوکر بولتے ہوں لیکن کارپوریٹ سویلین بورژوازی کے خلاف ان کی آواز نکلتی ہی نہیں ہے اور اپنی پارٹیوں کے اندر بڑی اور درمیانہ سرمایہ داری کے محنت کشوں اور کسان طبقات سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور ہمدردوں کو منظم کرنے اور ان کے اجتماعی دباؤ کو پیدا کرنے میں بھی ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ یہ محنت کشوں اور کسانوں کے احتجاج اور تحریکوں میں سیلبریٹی کے طور پر نمائشی حاضریاں لگانے والے اور ترقی پسندی کی طبقاتی لائن کو فیشن ایبل جملوں تک ہی محدود رکھتے ہیں اور آخری تجزیے میں یہ اپنی پارٹی کی بڑی اور درمیانی سرمایہ دار طاقتوں کے مینجرز ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی جمہوریت پسندی اتنی بھی طاقتور نہیں ہے کہ یہ اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی اور شفاف انتخابات کی روایت کے نہ ہونے پر صدائے احتجاج بلند کرسکیں۔ اور تو اور ان سیاسی جماعتوں میں جو نیا خون ہے اور نیا کیڈر ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ پارٹیوں میں اپنی پوزیشن اور مقام وہی چاہتا ہے جو ان اشراف نامور لبرل کا ہے۔
ان تمام سیاسی جماعتوں پر بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے رجحانات غالب ہیں اور بدقسمتی سے ان دونوں رجحانات کے خلاف ان سیاسی جماعتوں ميں اندر مزاحمت انتہائی کمزور ہے۔ ان جماعتوں کے پاس اس وقت جو پارلیمانی کیڈر ہے وہ حکومتوں کی طرف سے بچے کچھے پبلک سیکٹر میں پرائیویٹائزیشن کے خلاف عوام میں کسی تحریک کے قیام میں مسلسل ناکام ہے اور ان سیاسی جماعتوں کے شہری تعلیم یافتہ پیٹی بورژوازی پرت سٹیل ملز، ہیوی الکٹرک کامپلیکس، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے خلاف کوئی تحریک اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو پاکستان میں شہری اور دیہی محنت کشوں کی سیاست کی نمائندگی موجود ہی نہیں ہے بلکہ ان کے نام پر سیاست بھی بورژوا اور پیٹی بورژوا کررہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر