اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوری ثقافت میں جنسی آزادی کا کردار || وجاہت مسعود

جمہوریت انسانوں میں رتبے کی مساوات اور حقوق کی برابری کی جدوجہد ہے۔ انسانوں کی آزادی ان کے دائرہ اختیار کی حد بندی بیان کرنا ہے۔ آزادی کے ان دائروں میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ قبل ایک قابل احترام خاتون استاد نے سوال کیا کہ “ہم سب” میں نہایت سنجیدہ علمی مباحث کے عین بیچ میں جنسی موضوعات کیوں در آتے ہیں؟ سوال میں اس قدر اخلاص تھا کہ مختصر طور پر یہی عرض کی کہ آپ کا سوال بے حد سنجیدہ ہے۔ میں اپنا نقطہ نظر لکھ کر پیش کروں گا۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات میری دانست میں قابل بحث ہیں۔

کیا جنس ایک غیر سنجیدہ موضوع ہے؟ کیا جنس سنجیدہ بحث مباحثے کا مناسب موضوع ہے؟

کیا ادب اور فنون عالیہ سے جنس کو خارج کر دینا چاہیے؟

انسانی زندگی میں جنسی موضوعات کے لیے کیا جگہ ہے؟

فحاشی کیا ہے؟ فحاشی اور عریانی میں کیا فرق ہے؟

کیا مستور ثقافت اخفا اور اغماض کے پردے میں دو عملی اور منافقت کا راستہ کھولتی ہے؟

کیا انسانی جسم باعث شرم ہے؟

شرم اور ننگ کی حدود کیا ہیں؟

کیا جنسی پیچیدگیاں انسانی زندگی کا حصہ ہیں؟

کیا مکالمے اور تحقیق کے بغیر انسانی زندگی کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں؟

بیان، اغماض، تسلیم اور تردید کے زاویے تصویر میں کیسے بٹھائے جائیں کہ زندگی کا جو مختصر وقفہ ہمارے نصیب میں آیا ہے اس میں معنی بھرا جا سکے؟

ان سب سوالات میں بظاہر گم شدہ سوال یہ ہے کہ جنسی آزادی کی حدود کا جمہوری معاشرے کی دیگر آزادیوں کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔

ہم معاشرے میں کسی بھی آزادی پر بات شروع کرتے ہیں تو فوری رد عمل یہ ملتا ہے کہ مادر پدر آزادی تو کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ آزادی کی حدود تو بہرحال طے کرنا ہوں گی۔ نیز یہ کہ فرض حقوق کے ساتھ بندھا ہے۔ ذمہ داری قبول کیے بغیر حق کیسے مانگا جا سکتا ہے۔ یہ بحث کسی حد تک کچھ بنیادی اصطلاحات کو غلط ملط کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ آزادی فی الحقیقت ایک دائرہ کھینچتی ہے۔ اس دائرے کے اندر انسان انتخاب کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس دائرے کی حدود دراصل اس سرحد کو ظاہر کرتی ہیں جہاں اس آزادی سے تجاوز دوسروں کی آزادی میں مزاحم ہوتا ہے۔ جنسی آزادی کے ضمن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ ہمیں اپنے جسم پر اختیار ہے، باہم رضامندی سے جسم کی لذت کشید کرنا ایک مثبت قدر ہے۔ انسانی جسم جائز بھی ہے، حقیقت بھی ہے اور کائنات کے مجموعی حسن کا حصہ بھی ہے۔ جنس کا تقاضا جسم سے بندھا ہے۔ جسم کا احترام کیا جائے گا تو جنس کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ احترام اور چیز ہے، انکار ایک بالکل مختلف بات ہے۔ اور اس حقیقت کو دوسروں کی ذات پر اختیار اور جبر کا ذریعہ بنانا سرے سے الگ معاملہ ہے۔

انسان خوبصورت ہے۔ انسان بدصورت نہیں ہوتے۔ انسانی جسم قد، کاٹھ، جلد کے رنگ، بالوں کی بناوٹ اور اعضا کے انفرادی اختلاف سے قطع نظر ایک حسین چیز ہے۔ انسانوں کے حسن کا تعلق ان کے عورت یا مرد ہونے سے نہیں۔ حسن کو مرد یا عورت سے منسوب کرنا جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر اخلاقیات کی اقدار استوار کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جنس کو مرد یا عورت کے نقطہ نظر سے دیکھنا بھی بنیادی انسانی احترام کے منافی ہے۔ جنس ایک غیر ضروری سرگرمی نہیں بلکہ بھوک، پیاس، علاج، تحفظ کی طرح ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ جنس سے انکار اور جنس پر ناجائز پابندیاں معاشرے میں ہر طرح کے استحصال اور نا انصافی کا راستہ کھولتی ہیں۔

انسان کی ذات کا احترام انسان کے جسم کے احترام سے بندھا ہوا ہے۔ فرد کے احترام کا تقاضا ہے کہ فرد کے جسم کا بھی احترام کیا جائے۔ انسانی جسم بازار کی جنس نہیں ہے۔ انسان غلامی کے عہد سے آگے نکل آیا ہے۔ سب انسان رتبے، حقوق اور صلاحیت میں برابر ہیں۔ سب انسان جنسی ضروریات رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نقصان نہ پہنچائے تو اسے اپنے جسم سے خوشی پانے کا مکمل حق ہے۔ معاشرے کا اختیار صرف اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی شخص اپنی جنسی ضرورت کے لئے کسی دوسرے انسان کو نقصان نہ پہنچائے، اس کے احترام کو پامال نہ کرے، اس کی آزادی میں مداخلت نہ کرے۔

انسانی جسم اپنے تقاضے رکھتا ہے لیکن ہم ان تقاضوں کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ہم اگر تشدد کے ذریعے اپنی جنسی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں تو یہ آزادی سے آگے نکل کر جرم کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ تشدد سے مراد کیا ہے؟ دوسرے کو مجبور کرنا۔ دوسرے انسانوں کو جسمانی تکلیف پہنچا کر بھی کسی امر پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کی جائز ضروریات کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا بھی تشدد میں شمار کی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی افسر کا اپنے ماتحت کو لالچ دینا کہ جنسی مراعات کے نتیجے میں پیشہ ورانہ ترقی دی جائے گی یا دوسری صورت میں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ یہ تشدد ہے۔ خوراک، لباس، سر پہ چھت، سب انسانوں کی ضرورت ہے۔ ان ضروریات کے بدلے میں کسی سے جنسی فائدہ اٹھانا استحصال ہے۔

ایک ماں کو یہ دھمکی دینا کہ اسے جنسی استحصال سے انکار کرنے پر اپنے بچوں سے دور کر دیا جائے گا، جنسی تشدد کی ایک صورت ہے۔ ایسا جنسی تعلق جو خوف، لالچ، دھمکی یا مجبوری کے تحت قائم کیا جائے وہ دو انسانوں کے درمیان برابری، احترام اور باہم محبت پر استوار نہیں ہوتا۔ ایسا ہر تعلق جنسی آزادی کے نام پر حیوانیت کا اظہار ہے۔ مجبوری، خوف اور لالچ کے تحت قائم کیے جانے والے جنسی تعلق سے انسانی زندگی میں خوشی کے بجائے بے بسی، بے گانگی، خوف اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہماری دنیا میں جنسی تعلق کی کون سی صورتیں استحصال پر مبنی ہیں اور ان کے نتیجے میں کتنی خوشیاں برباد ہوتی ہیں اور کون سے دکھ پیدا ہوتے ہیں۔

کچھ افراد کا موقف ہے (اور میں اس موقف سے اتفاق رکھتا ہوں ) کہ جنسی تفصیلات سے لاعلمی بذات خود جنسی استحصال کا راستہ کھولتی ہے۔ یہ مفروضہ خوش فہمیوں کا بے بنیاد قلعہ ہے کہ سب انسان جبلی طور پر جنسی معاملات کو سمجھتے ہیں۔ ہر علمی موضوع کی طرح جنس بھی ایک نیم تاریک، نیم روشن اور مزید تحقیق و دریافت کے لیے کھلا منطقہ ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے انسان بدن میں دل کا بنیادی منصب یعنی صاف خون کو جسم کے دوسرے حصوں تک بھیجنا تک تو ہم نہیں جانتے تھے۔ خون کے مختلف گروپوں سے آگاہ نہیں تھے۔ ہوا میں موجود آکسیجن اور خون میں موجود ہیموگلوبن کا رشتہ نہیں جانتے تھے لیکن یہ کہ جنس کے بارے میں سب حقائق انسانوں کو معلوم تھے، نیز یہ کہ وہ یہ فیصلہ بھی کر سکتے تھے کہ انہیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو جنس کے بارے میں کیا معلوم ہونا چاہیے اور کن معاملات سے بے خبر رہنا ہی بہتر ہے۔ یہ سوچ بذات خود علم کو ایک جامد اور مستقل مظہر کے طور پہ فرض کرتی ہے۔ یعنی ہم گلی کوچوں میں گندے پانی کے نکاس کا بندوبست تبدیل کر سکتے ہیں، دم توڑتے ہوئے انسان کو مصنوعی طور پر آکسیجن اور خون لگا کر جان بچانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، لیکن انسانوں کے دل و دماغ میں جنس کے بارے میں چھائی دھند پر غور و فکر کرنے سے ہماری سوچ میں گندگی در آتی ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم گندگی کے مفہوم ہی کو پورا نہیں سمجھتے؟

صرف چند دہائیاں پہلے تک انسان دماغی امراض کے وجود سے بھی ناآشنا تھے۔ دماغی خلل یا عوارض کو شیطان کی کارستانی قرار دیتے تھے۔ 1974 تک خود لذتی کو طب کی کتابوں میں ایک مرض کے طور پہ پیش کیا جاتا تھا۔ ان گنت زندگیاں ہم نے احساس گناہ میں مبتلا کر دیں۔ انسانی تاریخ میں عقلمند لوگوں نے کبھی جنسی امور پر غور و فکر کو غلط نہیں سمجھا۔ زیادہ دور نہ جائیے، لاکھوں اور کروڑوں برس کی تاریخ ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ صرف اڑھائی ہزار برس پہلے کا یونان دیکھ لیجیے۔ یونان کے ادب، فلسفے اور تاریخ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ قدیم عربی شاعری پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا مفید ہو گا۔ ہندوستان کی تہذیب میں ایلورا اور اجنتا کے شاہ پاروں پر توجہ دیجیے۔ مولانا رومی کی مثنوی پڑھ لیجیے، شیخ سعدی کی تصانیف پڑھ لیجیے، افریقہ کے رقص، موسیقی اور رسم و رواج پر غور کیجیے، چین کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے۔

کیا انسانی تاریخ کا کوئی حصہ ایسا ہے جس میں انسانوں نے جنسی تلذذ میں گہری دلچسپی نہ لی ہو۔ جنسی سرگرمی کو طاقت، اختیار اور اجارے کے زاویوں سے نہ دیکھا ہو؟ کیا قدیم ترین انسانی تاریخ میں جنسی تلذذ کو طبی تحقیق کا مرکز نہیں بنایا گیا؟ کیا جائیداد کی نسل در نسل منتقلی کے عمل سے جنسی اقدار کشید نہیں کی گئیں۔ کیا جنسی لذت پر کچھ گروہوں کا اجارہ قائم نہیں کیا گیا۔ مشرق بعید کے وسیع منطقوں میں عورتوں کے پاؤں زبردستی چھوٹے کرنے کی رسم کیا جنس کی بنیاد پر غلامی کی ایک شکل نہیں تھی۔ کیا ستی کی رسم معاشی بالادستی کا شاخسانہ نہیں تھی؟ کیا انسانوں کو زبردستی جنسی خصوصیات سے محروم کرنا اور آختہ کرنا جنسی خوشی پر اجارے کی ایک صورت نہیں تھا۔ کیا افریقہ کے وسیع علاقوں میں عورتوں کے جنسی اعضا زبردستی کاٹنے کی رسم جنسی خوشی کو کچھ انسانوں تک محدود کرنے کی سازش نہیں تھی۔ جنس انسانی زندگی میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ عصمت فروشی جنسی لذت پر اجارے کی ایک صورت ہے۔ جمہوری خطوط پر تمام انسانوں کے لئے صنف اور معاشی حیثیت کی تفریق کے بغیر جنسی آزادی کا مطالبہ انسانی مساوات کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

انسانی تاریخ میں سیاسی اور معاشرتی اختیار جسمانی قوت کے اصول پر قائم رہا ہے۔ جنگ میں بھاری بھر کم ہتھیار اور زراعت میں جسمانی طاقت کی ضرورت نے عورتوں کو فیصلہ سازی سے بے دخل کیا۔ مشین کی آمد سے جسمانی قوت کا سوال ختم ہو گیا ہے۔ اب معاشی صلاحیت جسمانی قوت پر انحصار نہیں کرتی۔ اسی طرح جنسی فعل کا حمل اور جائیداد کی آئندہ نسلوں کو منتقلی کے معاملات سے گہرا تعلق رہا ہے۔ علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کے باعث انسانی آبادی صرف 75 برس کی مدت میں دو ارب سے ساڑھے سات ارب تک جا پہنچی ہے۔ جنسی سرگرمی اور نسل انسانی کی بقا میں رشتہ غیر اہم ہو چکا ہے۔ اب جنسی فعل کا تولیدی عمل سے تعلق ناگزیر مجبوری کی بجائے انفرادی اختیار کے منطقے میں داخل ہو چکا ہے۔ جنسی فعل اور تولید میں لازم و ملزوم کا رشتہ معاشی اور معاشرتی اسباب کی بنا پر تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمیں جنسی سرگرمی کو ایک بنیادی، لاینفک اور قابل احترام انفرادی انسانی آزادی کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔

انسانی تاریخ میں مطلق العنان بادشاہت اور لامحدود جنسی تلذذ میں کیا تعلق رہا ہے؟ بادشاہ سلامت ہماری بہو بیٹیوں کی عزت کے درپے کیوں رہتے تھے؟ ہمیں کیا تکلیف تھی کہ جاگیر دار، منصب دار، سرمایہ دار اور حاکم وقت ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بلا روک ٹوک جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں کیا مسئلہ تھا کہ ہم جنسی فعل پر اجازت نامے کی شرط عائد کرتے تھے۔ اس میں سادہ اصول یہ ہے کہ جوابدہی سے بالا اختیار کی موجودگی میں فرد کی رضامندی بے معنی تھی۔ ایسی رضامندی کے بغیر دو طرفہ خوشی ممکن نہیں۔ ایسا جنسی تعلق انسانی احترام سے متصادم ہے۔ حاکم اپنی خواہش اور جسمانی ضروریات کو دوسرے انسانوں کی ذات خواہش ضروریات اور حقوق سے ماورا سمجھتا تھا۔ یہ تقسیم ماننے میں ہماری توہین تھی۔ ہمیں جنسی تعلق کے حقیقی اور ناگزیر ہونے سے انکار نہیں تھا لیکن ہم اپنی جھونپڑی میں اپنی مرضی سے جو تعلق قائم کرتے تھے اس میں ہماری خوشی کا سامان تھا۔ اس میں دو طرفہ مساوات کا امکان تھا۔ اس میں ہم بے اختیار نہیں تھے۔ ہم کسی کی دھمکی، جبر اور دھونس کے ماتحت نہیں تھے۔ جنسی سرگرمی کو جبر، دھونس، خوف اور مجبوری سے آزاد کیے بغیر جنسی فعل میں مسرت کا امکان پیدا نہیں ہوتا۔

جنسی فعل کو شرمناک قرار دینے سے انسان اپنے جسم اور اس کی ضروریات پر شرمندگی، خجالت اور اور احساس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انسان ناگزیر تقاضے کے تحت جنسی فعل ادا کرتے ہیں لیکن اس فعل کو شعوری طور پر برا تصور کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ انہیں اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے۔ اپنی ذات پر سے ان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ وہ دوہری شخصیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسان جانتے ہیں کہ دوسرے افراد بھی انہی کی طرح جنسی افعال میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس پر بات نہیں کرتے۔ یوں معاشرے پر اخفا، اندھیرے اور منافقت کی چادر تن جاتی ہے۔ اپنی انفرادی اور انتہائی نجی زندگی کا راز اٹھائے پھرنے سے تمام انسانی تعلقات میں دو رخی کا زہر گھل جاتا ہے۔ معاشرے میں اچھائی کا معیار یہ قرار پاتا ہے کہ اچھے انسان کو جنس سے لینا دینا نہیں۔ چنانچہ مذہب، سیاست، ثقافت اور فنون سے جنس کو خارج کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ یہ ایک ناکام اور لاحاصل مہم ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں دربار، فنون اور معبد کبھی جنسی امور سے خالی نہیں رہے۔

جہاں دربار کی بنیاد رکھی گئی، وہیں حرم سرا کا بندوبست بھی کیا گیا۔ جہاں فنون کی سرپرستی کی گئی، وہاں جنس ایک زیریں رو کی طرح موجود رہی۔ جہاں عبادت گاہیں استوار کی گئیں، وہاں جنس ایک سائے کی طرح رینگتی رہی۔ انسانی تاریخ میں جنگ پیداواری عمل کی طرح سے معیشت کا ذریعہ رہی ہے۔ جنگ کے ساتھ ریپ کا تصور بندھا ہے۔ جنگ ہارنے والوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو مال غنیمت بنا لیا جاتا تھا۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ اپنے ارد گرد نظر ڈال کر مشاہدہ کر لیں۔ قلعے کی فصیل کے عین بالمقابل ایک عبادت گاہ ایستادہ ہے۔ اور چند قدم کے فاصلے پر عصمت فروشی کے آثار بھی مل جائیں گے۔ اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کہ دربار، مذہبی پیشواؤں اور جنگ کے دیوتاؤں نے جنس کو کبھی شفاف طور پر تسلیم نہیں کیا۔ فنون میں البتہ یہ بحث ہمیشہ موجود رہی ہے۔ جنس کو تسلیم جائے تو اس پر سب انسانوں کے لئے مساوی حق کی دلیل پیدا ہوتی ہے۔ اقتدار، طاقت اور اختیار کی آڑ میں کچھ افراد کے لئے لامحدود جنسی لذت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسی جنسی سرگرمی بذات خود معنویت سے خالی ہوتی ہے۔ معنویت تو دو چراغ جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بھیتر کی روشنی چھینی نہیں جاتی۔ اجارے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو خوشی اور مسرت سے محروم کر دیا جائے۔

جمہوریت انسانوں میں رتبے کی مساوات اور حقوق کی برابری کی جدوجہد ہے۔ انسانوں کی آزادی ان کے دائرہ اختیار کی حد بندی بیان کرنا ہے۔ آزادی کے ان دائروں میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں۔ خارجی مداخلت سے تحفظ ہی انسان کے احترام کی ضمانت ہے۔ یہ احترام انسانوں کی عزت نفس سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ان کے جسم پر ناجائز اختیار کی ممانعت بھی کرتا ہے۔ انسان کی ذات کا احترام اس کے جسم سے منفک نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سے عریانی اور فحاشی میں فرق کی بحث شروع ہوتی ہے۔ یہ بحث آئندہ نشست میں کریں گے۔ سردست پندرہویں صدی کے ایک اطالوی مصور کا ذکر کرتے ہیں۔

فلی پینو لیپی (Filippino Lippi)  1406ء میں فلورنس شہر میں پیدا ہوا۔ چھوٹی سی عمر میں یتیم ہو گیا۔ بھوکے پیاسے لپی کو چرچ میں داخل کر لیا گیا۔ یہاں اسے لاطینی پڑھائی جاتی تھی۔ روح کی اہمیت بیان کی جاتی تھی۔ آخرت سے ڈرایا جاتا تھا۔ گناہ سے نفرت سکھائی جاتی تھی۔ نیکی کا درس دیا جاتا تھا۔ لپی نے محرومی اور بے کسی کے دنوں میں دنیا کا گہرا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ تقدس مآب لبادوں میں لپٹی منافقت دیکھ چکا تھا۔ اس نے امرا کے کاشانوں میں موجود حرص، نا انصافی اور استحصال کا مشاہدہ کر رکھا تھا۔ وہ جسم سے بے گانگی کا قائل نہیں تھا۔ اسے دیوی دیوتاؤں اور نیک لوگوں کی شبیہیں مصور کرنے کا کام سونپا جاتا تھا تو وہ انسانی جسم کی خوصورتی سے لگاوٹ کو لکیروں اور رنگوں میں ڈھال دیا تھا۔ اس پر کلیسا کے پیشوا پیر پٹختے تھے کہ تم انسانوں کا جسم دکھا رہے ہو۔ خوبصورتی کیوں دکھاتے ہو؟ ایسا کرنے سے دنیا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں کی توجہ آخرت کے امتحان کی طرف دلاؤ۔

ایک روز پادری فلی پینو لیپی نے رہبانیت ترک کر دی۔ وہ اپنے موقلم کے راستے جسم کے فلسفے تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے انسانی محبت میں احترام کا زاویہ دریافت کر لیا تھا۔ فلی پینو لیپی کا انتقال 469 ء میں ہوا۔ گویا فلی پینو لیپی انگریزی کے اولین اہم شاعر جیفری چاسر سے ایک صدی بعد گزرا۔ چاسر کی کتاب کینٹر بری ٹیلز (Canterbury Tales) میں وائف آف باتھ  (Wife of Bath)  کی کہانی پڑھیے گا۔ باتھ قصبے کی اس بیگم صاحبہ نے پانچ شادیاں تو چرچ میں کی تھیں۔ زندگی سے لطف اٹھانے کے دیگر دروازے بھی کھلے رکھے تھے۔ یہ کہانی مقدس مقامات کے زیارت کے لئے جاتے ہوئے بیگم صاحبہ نے اپنے ہم سفروں کو سنائی تھی۔ یہ کہانی آپ خود سے پڑھ لیجیے گا۔ میرے قلم کو ایسی تاب کہاں۔ جیفری چاسر سے ٹھیک پانچ سو برس بعد رابرٹ براؤننگ (Robert Browning) نے وکٹورین عہد کی منافقت بیان کرنے کے لئے فلی پینو لیپی کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ Fra Lippo Lippi کے عنوان سے یہ نظم فن، حسن اور محبت کے بارے میں پادریوں اور مصور کی بحث کا احاطہ کرتی ہے۔ اس نظم میں کچھ ٹکڑے پادری کے ہدایت نامے سے سن لیجیے۔

Faces, arms, legs, and bodies like the true

As much as pea and pea! it’s devil’ s-game!

٭٭٭ ٭٭٭

Give us no more of body than shows soul!

٭٭٭ ٭٭٭

Paint the soul, never mind the legs and arms!

٭٭٭ ٭٭٭

Oh, that white smallish female with the breasts,

She’s just my niece…

اور اب سنیئے کہ مصور فلی پینو لپی اپنے فن کا دفاع کیسے کرتا ہے۔

Suppose I’ve made her eyes all right and blue,

Can’t I take breath and try to add life’s flash,

And then add soul and heighten them three-fold?

Or say there’s beauty with no soul at all.

٭٭٭ ٭٭٭

If you get simple beauty and nought else,

You get about the best thing God invents:

٭٭٭ ٭٭٭

As it is,

You tell too many lies and hurt yourself:

You don’t like what you only like too much,

You do like what, if given you at your word,

You find abundantly detestable.

٭٭٭ ٭٭٭

I always see the garden and God there

A-making man’s wife: and, my lesson learned,

The value and significance of flesh,

I can’t unlearn ten minutes afterwards.

٭٭٭ ٭٭٭

۔ The beauty and the wonder and the power,

The shapes of things, their colours, lights and shades,

Changes, surprises, ۔ and God made it all!

٭٭٭ ٭٭٭

This world ‘s no blot for us,

Nor blank; it means intensely, and means good:

To find its meaning is my meat and drink.

بشکریہ ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

%d bloggers like this: