نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوہ پیمائی کا شوق اور ہم ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

ہمیں تو کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ لوگ اچھے بھلے گھر بیٹھے نجانے کیوں پہاڑوں کی طرف چل پڑھتے ہیں، جن میں کوہ پیمائی کا حوصلہ یا ہنر نہیں ہوتا، وہ ٹریکنگ کا رخ کرتا ہے

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھیں صاحب ہمیں کوہ پیمائی سے ذرا برابر دلچسپی نہیں۔ پہاڑ تو خیر دور ، ہم نے کبھی لاہور پریس کلب میں واقع شملہ پہاڑی سر کرنے کا بھی نہیں سوچا۔ میرا خیال ہے کہ زندگی میں دو بار ہی کسی چھوٹے موٹے پتھریلے پہاڑ بلکہ کہہ لیں ٹیلے پر چڑھا ہوں گا۔ ایک بار سانگلہ ہل گئے تو وہاں دوستوں کے ساتھ ہمت کر کے اس نام نہاد ہل پر چلے گئے، بعد میں سمجھ نہ آئے کہ اترنا کیسے ہے۔ دوسری بار باغ جناح کی ننھی سی پہاڑی پر ہانپتے کانپتے چڑھے اور زندگی بھر کے لئے صدق دل سے توبہ کی کہ آئندہ یہ غلطی نہیں کرنی۔
ہمیں تو کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ لوگ اچھے بھلے گھر بیٹھے نجانے کیوں پہاڑوں کی طرف چل پڑھتے ہیں، جن میں کوہ پیمائی کا حوصلہ یا ہنر نہیں ہوتا، وہ ٹریکنگ کا رخ کرتا ہے ، بیس کیمپ بنا کر فلاں ٹریک سے فلاں ٹریک تک۔ ہمیں تو سچی بات ہے کبھی اس کی افادیت سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی ان لوگوں کی کھینچی گئی ’’گمراہ کن‘‘تصاویر سے متاثر ہوئے ۔ ہمیشہ یہی سوچا کہ گوگل سے اس کی زیادہ بہتر تصویر نکالی جا سکتی ہے۔
فیس بک پر کئی ایسے شیر جوان ہماری فرینڈز لسٹ میں ہیں جو معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت موٹر سائیکل پر دشوار گزار ٹریک عبور کرنے میں لگے رہتے ہیں، ایک دوست تو ملک بھر کا چکر لگا آئے اور پھر اپنی پوسٹوں سے فیس بکیوں کو ورغلانے میں لگے رہے، ہم نے ایسی پوسٹوں کو کبھی غور سے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی اور ان کے حق میں ہدایت کی دعا کے بعد آگے بڑھ گئے۔
پہاڑوں سے ہمیں نفور نہیں۔ اللہ نے بنائے ہیں، ضرور ان کی کچھ نہ کچھ افادیت ہوگی، یہ نہ ہوتے تو کیسے برف کے گلیشیر بنتے اور برف پگھل کر دریاوں میں آتی ، وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ساتھ متھا لگانا کیوں ضروری ہے ، یہ ہم نہیں سمجھ پائے۔ مری، ایوبیہ جیسے پہاڑی سٹیشنوں پرجانے میں ہمیں کوئی عار نہیں، اگر وہاں احباب بار بار ٹریکنگ اور واکنگ پر نہ اکسائیں۔
ہمارے نزدیک پہاڑ دور سے تکنے اور داد دینے کی چیز ہیں۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ پرفضا پہاڑی مقام پر مزے سے کمبل میں دبک کر کوئ ناول پڑھا جائے، گرم گرم چائے یا کافی کا کپ پاس دھرا ہو، نمکین پستے، کاجو اور بھنے باداموں کی پلیٹ ساتھ دھری ہو، کسی وقت گرما گرم پکوڑے تلے جا رہے ہوں، دن میں تین چار بار لذت کام ودہن کا ساماں فراہم کیا جائے، دو چار گھنٹے دوستوں کے ساتھ مل کر کارڈز(رنگ) کھیلے جائیں، خوب گپیں لگیں، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا حسین نظارہ دیکھا جائے، کچھ دیر کے لئے مراقبہ فرمانے میں بھی ہمیں کوئی مضائقہ نظر نہیں آیا۔ بزرگوں نے اس کی بھی افادیت بتائی ہے، بس یہ مراقبہ کھلی فضا کے بجائے کھڑکی سے لگی کرسی پر بیٹھ کر کیا جائے ۔ بس ہمارا پہاڑ کا سفر یہیں تک محدود ہے۔
چند سال پہلے دوستوں کے ساتھ ایوبیہ ٹھیرے ہوئے تھے، صبح ، دوپہر ، شام کو کھانے کے لئے باہر نکلتے تو احباب واک کرنے پر اکساتے، ایک چار کلومیٹر کا ٹریک تھا، جو نجانے کس ترنگ میں آ کر ہم نے بھی نمٹا ڈالا۔ اس کے بعد یہ طے کیا کہ اگلے بیس برسوں کی واک کا کوٹہ پورا ہوچکا۔
اسی ٹرپ پر ایک دوست کی ٹریک پر جانے کی تکرار پر ہم نے وہ فقرہ کہا جو پچھلے کئی برسوں سےدوستوں کی اس محفل میں بار بار سنایا جاتا ہے اور وضع دار دوست زیرلب جبکہ بعض گستاخ تو منہ پھاڑ کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی معصومیت اور سادگی سے صرف اتنا کہا تھا،’’ پہاڑی سٹیشن پر آنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی شرفا کی طرح چہل قدمی کے بجائے ہر کچھ دیر بعد پہاڑی بکرے کی طرح ٹریک پر چل پڑے۔ ‘‘
صاحبو یہ پہاڑوں کے بارے میں ہمارے ذاتی وچار ہیں۔ ہمیں اسے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ کسی کو اسے طنزیہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اتنا ہی حق ہم سےمختلف رائے رکھنے والوں کو بھی حاصل ہے۔ ایسے دوستوں کی بڑی تعداد ہے جو ٹریک پر چلنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، خود برادرم آصف محمود اسلام آباد میں رہ کر کئی ایسے ٹریک دریافت کر چکے، وہاں کی سینکڑوں بار تصاویر بھی پوسٹ کر چکے، یہ اور بات کہ ہم نے استقامت دکھاتے ہوئے ان پوسٹوں پر کمنٹ یا لائک سے گریز ہی فرمایا۔
جو لوگ پہاڑوں پر جانے، مشکل، انوکھے، اچھوتے ٹریک پر چلنے کا ذوق رکھتے ہیں، ہم ان کے اس شوق کا احترام کرتے ہیں۔ جو شیردل اس سے بڑھ کر پہاڑوں کو سر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، ان کے ہم خیال نہ ہونے کے باوجود ان کے حوصلے اور بے جگری کی ہم ستائش کرتے ہیں۔
جو کوہ پیما مشکل اور آسانی سے سر نہ ہونے والی چوٹیاں سر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہ مزید تعریف، داد کے مستحق ہیں۔ بھائی ہمارے جیسے خیالات والے لوگوں کے لئے تو ہزار سال تک مائونٹ ایورسٹ سر نہ ہو ، کوئی فرق نہیں پڑے گا، مگر بہرحال دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے کی خواہش اور اس ضمن میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کٹھن ترین آزمائشوں سے گزر کر فاتح بننے کی کوشش ہی قابل صد ستائش ہے۔ خوفناک موسموں میں، آکسیجن کے بغیر صرف اپنے حوصلوں، دلیری اور ہمت کے زور پر کے ٹو جیسی چوٹی سر کرنے کی کوشش بھی غیر معمولی اور حیران کن ہے۔ پاکستان کے کئی کوہ پیمائوں نے اس حوالے سے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی ہے، ایک خاتون نے بھی یہ کمال کر دکھایا۔ محمد علی صدپارہ اور ان کا صاحبزادے نے انہونی کو ہونی کر دکھانے کی سعی کی۔ وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اللہ کرے کوئی معجزہ ہوجائے اور محمد علی صدپارہ سلامت واپس لوٹ آئیں۔ اگر سانحہ مقدر ہے، تب بھی ان پر تنقید کی کوئی وجہ نہیں۔
دنیا بھر میں ایسے جانبازوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے جو نارمل لوگوں سے ہٹ کر انوکھے، انہونے ٹاسک پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں، جو پہاڑوں سے مرعوب نہیں ہوتے، انہیں اپنے پیروں تلے روندنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایکسٹراآرڈیینری ہیں، سپر نارمل ہیں۔ ہم جیسے نارمل لوگ چونکہ ویسا نہیں کر سکتے، ویسا نہیں سوچتے، صرف اس بنا پر ان جانبازوں کو ہدف تنقید نہیں بنا سکتے۔ اس کا ہمیں حق حاصل نہیں۔
محمد علی صدپارہ جیسے لوگ ہمارے ہیروز ہیں، ان کی تکریم کریں، عزت کریں، انہیں گلوریفائی کریں۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنی زبانیں ہی خاموش کر لیں۔ کبھی خاموش رہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

About The Author