حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سئیں ظہور احمد دھریجہ سرائیکی وسوں کے ان فعال لوگوں میں سے ہیں جو وسیب زادوں کا کٹھ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لگ بھگ نصف صدی سے وسیب کی قوم پرست سیاست اور علم و ادب کے میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
ہفتہ کی دوپہر انہوں نے ملک جاوید چنڑ ایڈووکیٹ اوررشید خان لاشاری کے تعاون سے پچھلے دنوں میں ایک میڈیا ہاوس کے مشاعرے کا بائیکاٹ کرنے والے شعراء کے اعزاز میں ملتان پریس کلب میں ’’پگ دا پُرب‘‘ کے عنوان سے تقریب کا اہتمام کیا۔
وسیب کے اہل علم و دانش قوم پرست جماعتوں کے قائدین شعرائے کرام اور نامور فنکاروں کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی اور بائیکاٹ کی اپیل پر میڈیا ہائوس کے مشاعرے میں نہ جانے والے شعراء کو خراج تحسین پیش کیا۔
تین سال اُدھر جب اُس میڈیا ہاوس کے ملتان سے شائع ہونے والے اخبار نے سرائیکی قومی جدوجہد کے خلاف ایک منظم مہم شروع کرتے ہوئے الزام لگایا تھاکہ سرائیکی قوم پرستوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ فنڈز فراہم کرتی ہے تو اس پر وسیب بھر میں مکالمہ ہوا اور پھر اس میڈیا ہاوس کے بائیکاٹ کے لئے اپیل کی گئی۔
بائیکاٹ کے لئے اپیل کرنے والوں میں (ابتداء میں) میں انٹرنیشنل سرائیکی کانگریس کے سربراہ عبید خواجہ، معروف دانشور احمد کامران مگسی اور متعدد دوسرے دوست شامل تھے۔
بائیکاٹ کے خوف سے ہی دو تین سال یہ مشاعرہ نہ ہوسکا۔ گزشتہ برسوں میں موسم کو بہانہ بنایا گیا۔ اب مشاعرہ تو منعقد ہوا لیکن بائیکاٹ کی منظم مہم نے اسے کسی حد تک ناکامی سے دوچار کردیا۔
سرائیکی وسیب کے نامور شعراء اور اہل دانش نے وسیب کی اپیل پر مشاعرہ کا بائیکاٹ کیا۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں سئیں عاشق بزدار، عزیز شاہد، اصغر گورمانی، جہانگیر مخلص، امان اللہ ارشد، مخمور قلندری اور عاشق صدقانی شامل تھے۔ وسیب کے اہل علم و دانش اور باشعور لوگ اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ جس مشاعرہ کا یہ نامور شعراء اور اہل دانش وسیب سے یکجہتی کے لئے بائیکاٹ کردیں اس کی کتنی پذیرائی ہوئی ہوگی۔
یہ بجا ہے کہ جناب اقبال سوکڑی سمیت بہت سارے لوگوں نے بائیکاٹ کے فیصلے کا ساتھ نہیں دیا اور اس میڈیا ہاوس کے مشاعرے میں شریک ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بائیکاٹ کی اپیل اخلاقی اور سماجی اقدار پر مبنی تھی کوئی زور زبردستی ہرگز نہیں نہ ہی یہ ہے کہ بائیکاٹ نہ کرنے والوں کے خلاف لاٹھیاں اٹھالی جائیں یا گالم گلوچ کی جائے۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ان بزرگوں اور دوستوں کو بھی آج نہیں تو کل یہ احساس ہوجائے گا کہ وسیب سے کٹ کر ایک کاروباری ادارے کے ساتھ کھڑا ہونے کی بدولت ان کی توقیر میں اضافہ نہیں ہوا۔
البتہ ان بزرگوں اور دوستوں کی تکریم ہم سب پر واجب ہے اور وہ اسرائیل یا افغانستان سے نہیں اترے۔ وسیب زادے ہیں عین ممکن ہے کہ وہ میڈیا ہاوس کے کاروباری مفادات اور قومی شعور کے تقاضوں کے فرق کو نہ سمجھ پائے ہوں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خوش گمانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے نہ کہ تنگ نظری کا۔
ہفتہ کی دوپہر ملتان پریس کلب میں ’’پگ دا پُرب‘‘ کے عنوان سے ہونے والے کٹھ میں برادرِ عزیز انجینئر شاہنواز خان مشوری کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ’’ہم جسے سرائیکی قومی تحریک میں میڈیا ہاوس کا شعوری کردار سمجھتے تھے وہ درحقیقت کاروباری مفادات سے عبارت تھا یہی وجہ ہے کہ بالآخر بلی تھیلے سے باہر آئی اور سرائیکی تحریک پر اس میڈیا ہاوس کے مالک اور کارندوں کے علاوہ کرائے کے سپاہیوں نے رکیک حملے شروع کردیئے۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے جن صاحب کو چند سال قبل کچھ لوگوں کی طرف سے محسن سرائیکی کہا جاتا تھا انہوں نے اس الزام کو اچھالا اور اچھلوایا کہ سرائیکی تحریک کو بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ فنڈز فراہم کررہی ہے۔
حسنِ اتفاق سے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میں نے اسی اخبار کی یکم فروری 2017ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے کالم
’’نئے نویلے محب وطنوں کی خدمت میں ایک درخواست‘‘ میں بھی عرٗض کیا تھا کہ جس جس کے پاس سرائیکی قوم پرستوں کے بھارت سے فنڈ لینے کا ثبوت ہے وہ خوشی سے عدالت جائے ہم تیار ہیں۔
ہفتہ کی دوپہر ملتان پریس کلب میں بھی یہی عرض کیا کہ الزام لگانے کی بجائے عدالت جائیں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ کل تک آپ بھی ہمارے ساتھ بھارت سے پیسے لیتے تھے۔ اب غیرت کا تقاٗضہ یہ ہے کہ جو رقم آپ نے لی وہ بھی عدالت میں جمع کروائیں تاکہ سچ سامنے آئے۔
برادرِ عزیز شاہنواز مشوری سوشل میڈیا پر بدزبانیوں کے ملاکھڑے سے دلبرداشتہ تھے۔ میں نے اس موقع پر سئیں عاشق بزدار کو متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم وسیب زادے وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں اور خصوصاً پیپلزپارٹی کا احترام کرتے ہیں ایسا ہی احترام ہمارے دلوں میں سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور اہل دانش کے لئے ہے
جناب عاشق بزدار پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین کو سمجھائیں کہ قوم پرستو ں کے بزرگوں اور اہل دانش پر تبرا بازی کا فائدہ وسیب کے دشمن اٹھائیں گے۔
یہ بھی عرض کیا کہ الزام تراشی کے ملاکھڑے کا کسی (اس میں ایک میڈیا ہاوس کے مالک اور کرائے کے سپاہی بھی شامل ہیں) کو شوق ہے تو بسم اللہ مگر زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ ثبوت عدالت میں لے جائیں۔
شاہنواز خان مشوری اور میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایک قومی رہبری کمیٹی بنائی جائے جو فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہو اور کسی مرحلہ پر یہ رہبری کمیٹی کوئی بھی فیصلہ کرے تو تمام وسیب زادے اس کا احترام کریں۔
’’پگ دا پُرب‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اس کٹھ کے حوالے سے مزید معروضات آئندہ کالم میں عرض کروں گا کیونکہ کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ہے البتہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سرائیکی قوم پرستوں کی نظریاتی طور پر سیاسی حلیف پیپلزپارٹی ہی ہوسکتی ہے اس لئے پیپلزپارٹی کے دوستوں کو قوم پرستوں اور اہل دانش پر چاند ماری کی بجائے وسیب میں قومی شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر