عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے گھر پہ آہستہ آہستہ کرکے پانچ کلو واٹ کا سولر سسٹم تعمیر کرلیا اور گھر میں آلات زیادہ تر بجلی کی فراہمی اسی سسٹم سے ہوتی ہے- لیکن میپکو کا بجلی کے میٹر کے خرابی کی وجہ سے میٹر پہ ڈیفیکشن کوڈ لگادیا گیا اور تبدیلی میٹر کی درخواست کے باوجود مجھے مسلسل دو ماہ 1400 یونٹ کی ڈیڈکشن ڈال دی گئی اور 34 ہزار روپے کے دو بل جمع کرانا پڑے-
جس نے مجھ جیسے قلم مزدور کو ایک دم سے خالی کردیا –
ایس ڈی او فرسٹ ڈویژن خانیوال میپکو نے بل پہ میٹر ری پلیس کرنے کے آڈر کیے لیکن لائن سپرینڈنٹ – ایل ایس کہتے ہیں کہ اُن کے پاس لسٹ میں ابھی میرے گھر پہ لگے میٹ کی تبدیلی کی باری نہیں آئی ہے اور یہ باری ممکن ہے اگلے دو ماہ بھی نہ آئے-
یہ تو سرکاری موقف ہوا، میں نے جب تھوڑی انوسٹی گیشن کی تو مجھے پتا چلا کہ ایل ایس اگر چاہے تو یہ میٹر ایک گھنٹے کے نوٹس میں بھی بدلا جاسکتا تھا- اور پہلے مہینے جب ڈیفیک کوڈ لگا تو اسے بھی اسی ماہ تبدیل کرکے معمولی سی ڈیڈکشن ڈال کر مسئلہ حل ہوسکتا تھا لیکن یہ دروازہ کیسے کھلتا ہے، اس کا مجھے تو علم ہی نہیں تھا-
میرے شہر میں بھی طاقتور پریشر گروپوں سے تعلق رکھنے والے دھڑلے سے بجلی چوری کرتے ہیں، اور سکون سے ہیں لیکن جو "چور دروازے” استعمال نہیں کرتے اُن کے لیے اتنے مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں کہ بے بسی سے وہ اپنے ہی بال نوچنے پہ مجبور کردیے جاتے ہیں –
ہم جیسے قلم مزدور جو نہ تو آمدنی کے کالے زرایع رکھتے ہیں، نہ ہی انھیں خوشامد اور چاپلوسی کرنے کی ضمیر اجازت دیتا ہے، نہ سرکاری ملازمین اور بلیک دھندے سے دولت و اثاثے بنانے والوں کو بلیک میل کرکے آنے والی منتھلیوں میں حصہ لیتے ہیں، نہ وہ سیاست دانوں، بیوروکریٹس سمیت اپنی طاقتور پی آر کا سہارا لینے کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور تو اور وہ اپنی قلم مزدوری سے سینت سینت کر سماج میں تبدیلی کے پرچارک ادب کے پھیلاؤ اور اشاعت میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں پہ مسیکنت مسلط کرتے ہیں، وہ اس صورت حال سے گزرتے ہیں تو ایک تو معاشی تنگ دستی کے عذاب کا سامنا کرتے ہیں دوسرا اس سے دل و دماغ پہ جو چرکے احساس زیاں کی صورت لگتے ہیں، اُن کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے-
گزشتہ ایک ہفتے سے ایک سے دوسرے دفتر کے دھکے کھارہا ہوں اور اس دوران یہ اندیشہ الگ سر پہ سوار ہے کہ اگلے ماہ بھی یہ ڈیفیک کوڈ کے تحت پھر 700 یونٹ کا ٹیکہ لگا تو کہاں جاؤں گا؟
ویسے وہاں ایک بیوہ عورت تھی جس کو ڈیفکٹ کوڈ کے تحت 40 ہزار روپے کا بل بھیجا گیا تھا، ایک سیکورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والا تھا جسے اسی طرح کے کیس میں 20 ہزار کا بل آیا تھا اور کل ملا کر پہلے روز میں نے 15 افراد اسی طرح کی مشکل میں گرفتار دیکھے اور سب نہایت غریب لوگ تھے اور کسی کے گھر متبادل سولر سسٹم بھی نہیں تھا …. اور ایل ایس کو اونچا بولنے والے غریبوں سے نہایت ہی تکلیف ہورہی تھی –
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر