حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزل کے لئے رکشہ والے سےبھاو تاو کے بعد رکشہ میں سوار ہوا تو ڈرائیور نے پوچھا، آپ کیا کرتے ہیں؟
عرض کیا ایک اخبار میں مزدوری کرتا ہوں۔
اب اُس نے مہنگائی سے بات شروع کی۔ پہلی بات یہ تھی، آپ نے خوب بھائو تائو کیا، اخبار میں کام کرتے ہیں یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ پٹرول اور گیس بہت مہنگے ہیں۔ اب ان کرایوں میں گزارا نہیں ہوتا۔
فقیر راحموں نے لقمہ دیا، مہنگائی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ جن کو ’’چور‘‘ کہتے تھے ان کے دور میں تو حالات یہ نہیں تھے۔
جواب ملا یہ سب ہمارے اعمالوں کا نتیجہ ہے۔
عرض کیا اعمالوں پر ملبہ کیوں۔ جو سامنے کی حقیقت ہے اسے تسلیم کرنا چاہیے،۔
اس نے کہا عمران خان کام کرنا تو چاہتا ہے کوشش بھی کررہاہے کہ مہنگائی ختم ہو لیکن ساتھ بیٹھے لوگ کام کرتے ہیں نہ کرتے دیتے ہیں وہ (وزیراعظم) تو اعتراف کررہاہے مہنگائی ہے۔
مجھے ہنسی بھی آئی پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، وزیراعظم نے کرکٹ کلبوں، کرکٹ بورڈ اور میچوں میں عمر بسر کی سب تام جھام دوسروں کے ذمے تھے اسے کیا معلوم مہنگائی کیاہوتی ہے۔
جواب آیا، مخلص بندہ ہے اکیلا وہ کیا کرے لوٹ کے کھاگئے نون لیگ اور پیپلزپارٹی والے۔
اتنی دیر میں رکشہ ایک فلائی اوور کی طرف بڑھا۔ میں نے کہا یہ تو مرشد گیلانی نے بنائے ہیں ان کے دور میں ملتان میں بڑے کام ہوئے۔
ہاں جی ہوئے لیکن کھایا انہوں نے بھی بہت۔
وہ کیسے؟ رکشہ والا بولا میں پہلے جہانگیر آباد میں رہتا تھا احمد حسین ڈیہڑ کے پاس گیلانی کے دور میں فنڈ اور اختیارات تھے لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔بس سب اپنے نام کے لئے سیاست کرتے ہیں۔
باو جی، یہ دونوں پارٹیاں چور ہیں، لیکن تمہارے عمران خان نے دونوں چور پارٹیوں کے لٹیرے اور ڈاکو اپنی جماعت میں بھرتی کیوں کئے۔ اپنے ورکروں پر اعتبار کرتا۔
بس جی ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ نا نماز پھر ایسا تو ہوگا۔
بس یہی جی بہلانے کی باتیں ہیں ہمارے پاس اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کی زحمت کی بجائے اعمالوں پر ملبہ ڈال دیں۔
نہ جی یہ بات نہیں دونوں پارٹیوں نے رج کے لوٹا ہے اس ملک کو۔ نوازشریف کے خاندان کے پاس کیا تھا پاکستان بننے کے وقت اور وہ زرداری تووہ سینما میں ٹکٹیں بلیک کرتا تھا۔
تم نے کبھی زرداری سے بلیک کی ٹکٹ خریدی ہے، کیا تم جانتے ہو کہ ایک بلڈنگ بمبینو پلازہ میں موجود تینوں سینما زرداری کی ملکیت تھے اور یہ اسکے والد نے 1950ء کی دہائی میں بنائے تھے؟
رکشہ والے نے مڑ کر مجھے ایسے دیکھا جیسے میرے سر پر سینگ ہوں۔ عرض کیا آگے دیکھ کر رکشہ چلاو میرا مرنے کا ارادہ بالکل نہیں۔
تمہید طویل ہوگئی۔
پروپیگنڈہ یہ ہوتاہے اب آپ اسے سیاسی شعور کہیں تو کہیں میرے نزدیک یہ وہ زہر بھرا پروپیگنڈہے جو پچھلے کم از کم 30برسوں کے دوران تواتر کے ساتھ کیا گیا۔
پانامہ میں بلاکر اقامہ میں سزا دیں یا کسی کو الزام ثابت کئے بغیر گیارہ برس تک جیل میں رکھیں ان پر لگے الزامات آسمانی کلام ہیں ایمان لے آئیں ورنہ حب الوطنی اور ایمان دونوں مشکوک ہوسکتے ہیں۔
چلیں میں مان لیتا ہوں دونوں پارٹیاں چور ہیں (نون لیگ اور پی پی پی) یہ بتایئے سادھو سنت کون ہے۔
ڈاکووں کی بات تو کوئی نہیں کرتا نہ کوئی یہ بتاتا ہے کہ جو انقلاب خان صاحب لانے نکلے تھے اس انقلاب کے کنٹینر پر فواد چودھری، بابر اعوان، خسرو بختیار، غلام سرور خان، فردوس عاشق اعوان (یہ چند نام ہیں)اور درجنوں دوسرے لوگ سوار کیسے ہوئے یہ تو سارے ٗضد انقلاب تھے 2008ء سے 2018ء کے درمیان۔یقیناً کرپشن ہوئی اور کرپشن مسئلہ بھی ہے
مگر معاف کیجئے گا نہ تو میں صرف سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتاہوں نہ ہی کرپشن کو نمبرون مسئلہ۔
کرپشن کی گنگا میں سب نہائے اور خوب ’’سن باتھ‘‘ بھی لیا۔
ہماری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے آفتاب پھانسی چڑھاتے ہیں اور چاندنی سڑکوں پر مارے دیتے ہیں، اچھا پھانسی کون چڑھاتا ہے اور مارتا کون ہے؟
سوال بہت سادہ ہے لیکن میری معذرت قبول کیجئے کیونکہ میں خاصا بزدل آدمی ہوں اور اوکھلی میں سر میں ہی کیوں دوں۔
تیس سال سے چور، لٹیرے، ملک دشمن سکیورٹی رسک سن سن کر تھک گئے ہیں یوں کہہ لیجئے کہ کان پک گئے اب تو یہ سن سن کر یہ کہنے والے سیاسی عمل میں شریک تھے مگر کہلوایا کس نے؟
سیاستدانوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ’’دوسروں‘‘ کی بات اپنے منہ سے کہی سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا۔ اب بھگتیں بھی وہی۔
چلیں میں آپ کو ایک قصہ سناتاہوں۔ 1988ء کے انتخابات کے دوران نوازشریف کی ماڈل ٹائون ایچ بلاک والی رہائش گاہ پر حسین حقانی کی سربراہی میں میڈیا سیل قائم تھا اس میڈیا سیل نے پاکستانی سیاست میں پہلی بار کمینگی متعارف کرائی۔
آئی جے آئی نے محترمہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی بیہودہ تصاویر تقسیم کروائیں۔ مجھ سمیت جو سارے جمہوریت پسند اس میڈیا سیل کی بدتمیزیوں پر نوازشریف کو کوستے ہیں کیا مجال کہ کبھی یہ پھوٹ دیں کہ حسین حقانی کے ساتھ جو ’’اُن‘‘ کا بندہ اس میڈیا سیل میں بیٹھتا تھا وہ کون تھا؟
ایک بار مجھ قلم مزدور نے جنرل حمید گل (مرحوم) سے سوال کیا تھا۔ جنرل صاحب! آخر کیوں آپ نے فیصلہ کیا آئی جے آئی بنوائی اور پھر غلیظ پروپیگنڈہ کروایا؟
جواب ملا
’’ہمیں خدشہ تھا بینظیر کو اقتدار مل گیا تو وہ فوج سے اپنے والد کا بدلہ لے گی‘‘۔
اس جواب میں پوری کہانی ہے پس منظر سمیت بس تھوڑا سا ذہن پر زور دیجئے اور سمجھ لیجئے کہ ہم ابھی 1988ء میں ہی کھڑے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر