ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اظہراور ڈاکٹر علیزہ کی بے وقت موت دکھ میں تو مبتلا کرتی ہے لیکن بہت سے سوالوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ ان سوالات کا منبع وہ گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں جو کوچہ وبازار میں ناچ رہی ہیں۔ ایک کہانی کا سرا باپ کی دوسری شادی کی خواہش اور بیٹی کی مزاحمت سے جڑتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سچ کیا ہے لیکن ہم نے ایسے بہت سے ادھیڑ عمر مرد دیکھ رکھے ہیں جو یہ آرزو حرز جاں بنائے بیٹھے ہیں۔
مانا یہ جاتا ہے کہ مرد دوسری شادی کا حق رکھتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ دوسری شادی کا ارادہ باندھنے والے کی پہلی بیوی کیا کیا حق رکھتی ہے؟
اگر اسے شوہر کی دوسری بیوی کے ساتھ ساجھے داری پسند نہیں تو اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا؟ یا وہ کیا کر سکتی ہے؟
مزاحمت کرنے والی بیوی کا علاج شوہروں کی برادری نے ڈھونڈھ رکھا ہے، کان سے پکڑو، تین حرف بولو اور گھر سے کسی بھی وقت نکال باہر کرو!
لیجیے وہ عورت جو گزشتہ تیس یا چالیس برس سے بالی عمریا میں مرد کے آنگن میں دلہن بن کے اتری تھی، اب مضمحل چہرے اور ڈھلکے ہوئے عمر رسیدہ جسم کے ساتھ سڑک پہ اکیلی کھڑی سوچتی ہے کہاں جاؤں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤں؟
جنم دینے والے والدین یا تو اگلے جہان سدھار چکے یا ضیعفی کے عالم میں کسی بیٹے کے گھر موجود مدد کرنے سے عاری ہیں۔ بہن بھائی اپنے اپنے کھونٹے سے بندھے اپنی زندگی کا پرچہ امتحان حل کرنے میں مصروف!
تو اس عمر میں گھر سے بے گھر کی گئی عورت کا ٹھکانہ کونسا اور کہاں؟
بچپن میں تعلیم دلوائی نہیں گئی کہ لڑکیوں کو پڑھانا کہاں کا دستور ہے؟ ہنر ہاتھ میں ہے نہیں کہ اس کا انتظام بھی نہیں کیا گیا، لڑکی پر سرمایہ خرچ کرنے کی زحمت کون کرے؟ مالی خودمختاری کے نام سے ابرو چڑھا کے کہہ دیا جاتا ہے ” نہ نہ ، یہ نوکری ووکری ہمارے خاندان کا دستور نہیں کہ لڑکیاں گھروں سے نکلیں”
سوچیے دل پہ ہاتھ رکھ کے کہ پیدا کرنے والے والدین نے سولہ یا اٹھارہ یا بیس برس کی بیٹی بیاہتے وقت سوچا کیا ہے آخر؟
کیا صرف یہی کہ بچی بلوغت کی عمر کو پہنچ گئی اب ایک اور مرد کی ذمہ داری بنا دی جائے۔ اکیسویں صدی کے مزے لوٹنے والے ازمنہ قدیم کی مثالیں دیتے اور احکام سناتے تھکتے نہیں کہ کم عمری کی شادی میں بہتری کے کیا کیا رموز پنہاں ہیں؟
لیکن بینائی رکھنے والے یہ بے بصیرت ماں باپ ایک بات فراموش کر دیتے ہیں کہ بیوگی یا طلاق کی صورت میں بیٹی کا مستقبل کیا ہو گا؟ کون اس کا ہاتھ تھامے گا؟ کون اس کی اور اس کے بچوں کی مالی ذمہ داریاں پوری کرے گا؟
بیٹی کے فرض سے جلد ازجلد فراغت ان کو سب کچھ نظرانداز کر کے یہ کہنے پہ مجبور کر دیتی ہے،
“جاؤ بیٹی، حوالے کیا تمہیں اس کے، جیسے رکھے رہ لینا، اف نہ کرنا کہ اچھی بیٹیاں ماں باپ کے نام کو بٹہ نہیں لگایا کرتیں”
“جو روکھی سوکھی کھلائے، صبرو شکر کرنا”
“جس کھونٹے سے باندھے بندھی رہنا”
“جتنی رسی ڈھیلی کرے، بس اسی دائرے میں رہنا”
“اس کے گھر والوں کی خوشنودی کے لئے اپنے لب سی لینا”
“بستر پہ بلائے تو آمنا و صدقنا کہنا، نہ بلائے تو راضی برضا رہنا”
“مزاج برہم ہو تو لاتیں گھونسے کھا کے حرف شکایت زبان پہ مت لانا”
“بے وفائی کرے تو کچھ غم نہیں کہ مرد بچہ ہے”
اس حکم نامے کے باوجود اگر کسی عورت کے وجود میں مزاحمت کی کوئی رمق موجود ہو تو پھر کیا حکم ہے اور وہ شوہر کی دوسری شادی کو تسلیم نہ کرے تو تب ایسی عورت کا کیا کیا جائے۔
کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا!
آئیے آپ کو تاریخ کے اوراق پلٹ کے ایک سچی داستان سنائیں۔
مدھیہ پردیش اندور کی رہنے والی سولہ برس کی شاہ بانو کا بیاہ مشہور و معروف ایڈوکیٹ محمد احمد خاں سے انیس سو بتیس میں ہوا۔ اگلے چودہ برسوں میں شاہ بانو پانچ بچوں کی ماں بن گئیں۔ پانچ بچوں کی ماں سے جی اوبھ ہو گیا تو محمد احمد خان ایک نوجوان لڑکی کو بیاہ لائے۔ شاہ بانو مزاحمت کیے بغیر ایک چھت کے نیچے رہتی رہیں مگر ابھی تقدیر کے ترکش میں کئی تیر باقی تھے۔ انیس سو اٹھتر میں باسٹھ برس کی عمر میں شاہ بانو کو احمد خان نے طلاق دے کر گھر کی چھت سے محروم کر دیا۔ طلاق کے کچھ عرصہ بعد تک ڈھائی سو روپے بچوں کے اخراجات کے لئے ملتے رہے اور پھر بند ہو گئے۔ شاہ بانو نے اپنے اور بچوں کے اخرجات کے لئے کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا جس کا جواب احمد خان نے کچھ اس طرح سے دیا کہ شاہ بانو اب ان کی ذمہ داری نہیں رہیں سو وہ ان کا خرچہ کیوں اٹھائیں؟
مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ طلاق یافتہ کو مالی مدد فراہم کرنا سابق شوہر کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ مالی طور پہ خود مختار نہیں۔ محمد خان نے اس فیصلے کے خلاف یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی کہ طلاق یافتہ کی ذمہ داری عدت کے بعد شوہر کے کندھوں سے ہٹ جاتی ہے۔
سپریم کورٹ میں جب مقدمہ چلنا شروع ہوا تو جمعیت علمائے ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی اس میں محمد خان کی حمایت کرنا شروع کی۔ تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا شاہ بانو کے حق میں کیے گئے فیصلے کو قائم رکھا اور محمد خان کی اپیل یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ ایسی مسلمان طلاق یافتہ عورت جو مالی طور پہ خود مختار نہ ہو، کے سابق شوہر پہ لازم ہے کہ اسے ماہانہ خرچہ ادا کرے۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا. ہر طرف سے مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے کہ یہ فیصلہ مذہب کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ان جلوسوں کی قیادت معروف بریلوی عالم عبیداللہ خان اعظمی اور سید قاضی نے خوب جوش و خروش سے کی۔
اس احتجاج کے نتیجے میں کانگریس نے مطالبات مانتے ہوئے 1986ء میں قانون پاس کیا کہ صرف عدت کی مدت کی ذمہ داری شوہر کو دی جائے گی۔
اس قانون پہ سخت تنقید کرتے ہوئے آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوی ایشن کی طرف سے مسلمان عورتوں نے احتجاجی تحریک چلائی کہ انہیں سپریم کورٹ کے عطاکردہ حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس پہ تنقید کرتے ہوئے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی اتھارٹی کی خلاف ورزی کے زمرے میں ڈال دیا۔ مسلم ویمن ایکٹ ایک ایسا قانون بن گیا جو غیر مسلم عورتوں کو تو طلاق کے بعد بنیادی ضروریات سابق شوہر سے وصول کرنے کا حق دیتا ہے لیکن مسلمان عورت طلاق کے بعد مالی طور پہ لاچار ہوتے ہوئے بھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتی۔
تاریخ کا ورق آپ نے پڑھ لیا۔ یہاں کچھ بہت ہی دلخراش سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
جس عورت نے تمام عمر ایک مرد کے سائے میں گزارتے ہوئے اس کی اولاد پیدا کی، اور مرد کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہی، عمر کی ڈھلتی شام میں جب وہ گھر سے نکالی جائے کیا نکالنے والا سوچتا ہے کہ عورت کہاں جائے گی، کس چھت کا آسرا لے؟ کس سے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کی بھیک مانگے؟
یہ عورت جو کم عمری سے مرد کی سرد و گرم کی ساتھی بن کے سختیاں جھیلتی رہی، اپنی عمر جس مرد کو دان کر چکی، کیا اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی سوچا کہ اس نے پلک جھپکتے میں ایک نہتی کمزور عورت کے پاؤں کے نیچے سے زمیں اور سر کے اوپر سے آسمان چھین لیا ہے۔
علماء دوسری شادی، طلاق اور مرد کے تمام حقوق و اختیار پہ تو تفصیلاً روشنی ڈالتے ہیں لیکن طلاق یافتہ اور بے سہارا عورت کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ کوئی نہیں بتاتا، بلکہ بتانا بھی نہیں چاہتا۔
کم بخت عورت نہ ہوئی، دنیا کے بازار میں کھوٹا سکہ ہوئی جسے بچپن میں پیدا کرنے والوں نے کسی قابل نہ بنایا اور گھر میں بسانے والے نے کوڑیوں کے بھاؤ خریدا اور بھیڑ بکریوں کی طرح باڑے میں باندھا۔ افزائش نسل کے لئے استعمال کیا، خدمت گزاری کروائی اور عمر ڈھل جانے کے بعد تین لفظوں کا سہارا لے کر چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے نئے مال کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
دنیا کی منڈی میں عورت نامی خام مال کا ڈھیر اسی کام تو آتا ہے۔
عورت کے مستقبل کا فیصلہ کل بھی انہی نام نہاد مفتیان کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی وہ یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے. دیکھیے مفتی طارق مسعود کیا کہتے ہیں،
” ہم اللہ سے پوچھتے ہیں اگر اتنی بیٹیاں ہو جائیں گی تو ان کا خرچہ کون اٹھائے گا؟ ہم اگر ان کو تعلیم دیں گے تو فائدہ کون اٹھائے گا؟ سسرال!
تو اللہ کہتے ہیں تمہارے ذمے اس کی تعلیم نہیں ہے۔ اس پہ خرچ وہ کرے گا جو اسے بیوی بنا کے لے کر جائے گا۔ اسی وجہ سے اللہ نے نابالغ بچی کی شادی کی بھی اجازت دے دی ہے۔ بیٹی تمہارے پیدا ہوئی ہے، امانت کسی اور کی ہے تو یہ امانت بچپن میں بھی کسی کے حوالے کی جا سکتی ہے تو اسلام میں نابالغ بچی کی شادی بھی جائز ہے “
کیا سن کے ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ مفتی طارق بھیڑ بکریوں کے متعلق بات کر رہے ہیں،
“بھئی جب بکری بہت سے میمنے دے دے تو اس کا خرچہ کیسے اٹھایا جائے؟ اب ہم گرمی سردی میں خیال رکھیں، چارہ ڈالیں اور جب دودھ دوہنے کا وقت آئے تو کوئی اور دوہ لے۔ فائدہ تو اس کو ہوا نا!
تو کیا ہی اچھا ہو کہ ان میمنیوں کو وقت پیدائش ہی خریدار کے حوالے کر دیا جائے۔ بھئی جس نے دوددھ دوہنا ہے، وہی اس پہ خرچ بھی کرے”
منبر پہ بیٹھے ان مردوں کی عورت کے متعلق لاف زنی سنتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نہ جانے ان جھوٹے دیوتاؤں کے پاس دل ہے بھی کہ نہیں جو عورت کو صرف فائدہ اٹھانے کی بے زبان مخلوق سمجھ کر اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی ترغیب معاشرے میں عام کرتے ہیں اور سامنے بیٹھے جاہل حواری من و عن ایمان لے آتے ہیں۔
خدارا کچھ سوچیے! عورت بھی انسان ہے، آپ جیسی انسان!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر