نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست مدینہ ثانی کا انا پرست حاکم۔۔۔ملک سراج احمد

خوابوں کی تکمیل کے لیے ریاست مدینہ ثانی کے احیا کے دعویدار کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔قانون کی بالادستی، معاشی اور سماجی انصاف کے نظام کے رائج ہونے کی توقعات آسمان کو چھونے لگیں۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاست مدینہ (جدید) پر آج بھی کربلا کا سایہ ہے ۔آج بھی کلمہ گو ناحق قتل ہورہے ہیں اور ستم یہ کہ قاتل کی زباں پر بھی کلمہ کا ورد جاری ہے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔کربلا میں عددی اعتبار سے ایک مختصر قافلہ حاکم وقت کی طاقت ، رعونت اور انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔مرد شہید کردئیے گئے اور خواتین کو گرفتار کرلیا گیا۔درباریوں ، مصاحبین نے شاہ کو عظیم فتح کا مژدہ سنا کر انعام میں عہدے سمیٹے۔باغیوں کو پابہ زنجیر دربار میں پیش کیا گیا۔یہی نہیں بلکہ یقینی فتح کی دلیل کے طور پرسالار قافلہ کا سر مبارک بھی تھال میں رکھ کر پیش کیا گیا اور یوں شاہ کی فتح مکمل ہوئی۔شاہ اصولی موقف کی بلیک میلنگ سے بچ گیا، بیعت سے انکار کی بلیک میلنگ سے بھی بچ گیا۔زمینی حقائق کے مطابق شاہ جیت گیا اور بغاوتوں کو کچل دیا مگر وقت نے اپنا فیصلہ دیا اور شام کے دربار کے مفتوح کو فاتح اور تخت نشین فاتح کو قیامت تک شکست خوردہ قرار دے دیا۔
تخت نشین شاہوں کے مزاج کبھی نہیں بدلے۔تاریخ کا بغور جائزہ لیں ہر تخت نشین کا لب ولہجہ کم وبیش ایک جیسا ہی رہا ہے۔عادات واطوار ، انداز گفتگو اور انداز فکر ایک جیسا ہی رہا ہے۔اور پھر کم وبیش انجام بھی ایک سا ہی رہا ہے۔ہر حاکم کو عمر بن عبدالعزیز جیسی شہرت ، عظمت تھوڑی نصیب ہوتی ہے۔وراثت میں تخت ملا مگر یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس منصب کے اہل نہیں ہوں۔اہل علاقہ جمع ہوئے اور اصرار کیا کہ آپ ہی اہل ہیں۔خاندانی نسبت سے سلیکشن منظور نہیں کی تاہم اہل علاقہ کی اکثریتی رائے کے بعد عہدہ قبول کیا۔شاہانہ طرز زندگی سادگی میں بدل گئی۔زمہ داریاں ملیں تو کہا کہ اگر دجلہ کنارے کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کا زمہ دار میں ہوں گا
یہی نہیں بلکہ اس عہد سے کچھ پیچھے چلے جائیں۔حاکم وقت کو رات کو خبرہوئی کہ اس کی رعایا میں ایک گھر کے مکین بھوکے ہیں۔رات کو راشن اپنے کندھے پراٹھا کر اس گھر لے گئے اور ان کی حاجت پوری کی۔ایک بھری محفل میں عام شہری نے حاکم وقت سے سوال کردیا کہ مال غنیمت سے ملنے والے کپڑے سے میری قمیض تو نہیں بن سکی توپھر اے امیر آپ کی قمیض کیسے بن گئی۔یہ حقیقی ریاست مدینہ تھی جہاں حاکم پابند تھا کہ کیئے گئے ہر سوال کا جواب دے گا۔لہذا انا آڑے نہیں آئی اور جواب دیا گیا بلکہ مطمئن کیا گیا۔ جواب دینے والا یہ کوئی معمولی حاکم نہیں تھا بلکہ اُس ریاست مدینہ کا حاکم تھا جو اپنے عہد کا ایک ایمپائر تھی۔لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی اس ریاست مدینہ کے حاکم سے متعلق خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تووہ عمربن خطاب ہوتے۔
اسی ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل بیان کرکے سیاست کرنے والے موجودہ حاکم نے وطن عزیز کو ریاست مدینہ ثانی بنانے کا جب اعلان کیا تو اس کی شہرت بام عروج کو پہنچ گئی۔حالات کے مارے ہوے لوگوں کو گویا کوئی مسیحا مل گیا۔ان کروڑوں پریشان حال لوگوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آنے لگی ۔ان کو لگا کہ شائد ان کی دعائیں باب قبولیت کی دہلیز پار کرچکی ہیں۔اب وہ عہد شروع ہونے والا ہے جس میں کسی گورے کو کالے پر برتری نہیں ہوگی۔قانون سب کے لیے برابر ہوگا۔کسی کو فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔جہاں حاکم راتوں کو رعایا کی خبر گیری کے لیے نکلے گا اور ریاست شیر خوار بچوں کی خوراک کی فراہمی کی زمہ دار ہوگی۔ریاست کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے ہر شہری کے جان ومال کا تحفظ ریاست کا زمہ ہوگا۔
خوابوں کی تکمیل کے لیے ریاست مدینہ ثانی کے احیا کے دعویدار کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔قانون کی بالادستی، معاشی اور سماجی انصاف کے نظام کے رائج ہونے کی توقعات آسمان کو چھونے لگیں۔سابقہ ادوار کو ملوکیت کا درجہ دے کر ان کی ہرنشانی کے مٹنے کے منتظرعوام کو کہا گیا کہ نصاب نہیں بدلے گا۔نا ہی کسی چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور نا ہی قانون سب کے لیے برابر ہوگا۔اور یہ بھی لازم نہیں کہ حاکم ہر سوال کا جواب دے۔ ریاست مدینہ ثانی قائم کرنے کے دعویدار سے امیدیں پھر بھی ختم نا ہوئیں اور خواب پھر بھی نا ٹوٹے۔خواہشات نے مکروہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اور سانحہ مچھ کے شہدا کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کر ان کے ورثا حاکم وقت کی آمد کے منتظر رہے
کہ شائد حاکم وقت آ کر روتے بلکتے بد نصیبوں کو کوئی ڈھارس بندھائے۔گلے کٹے بھائی کی لاش پر بین کرتی بہنوں کے سرپر دست شفقت رکھ دے۔نوجوان بیٹے کے تابوت سے سر کو ٹکائے بوڑھے باپ کو گلے سے لگا کر کہے کہ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں۔انتظار گھنٹوں سے دنوں میں تبدیل ہوتا گیا اور انتظار کی طوالت سے ہر امید ختم ہوئی ، مان ٹوٹ گیا ۔اشکبارآنکھیں بالآخر خشک ہوگئیں۔ان خشک ہوتی آنکھوں میں پھر سے نمی اس وقت آئی جب حاکم نے کہا کہ شہدا کی لاشیں دکھا کر اسے بلیک میل نا کیا جائے۔لواحقین شہدا کی تدفین کردیں تو میں ملنے کے لیے آ جاوں گا
شہدا کی لاشیں حاکم کی انا کے سامنے ہار گئیں۔تخت نشین کی انا مقدم ٹھہری اور لواحقین نے شہدا کی تدفین کا فیصلہ کرلیا۔آج ہزارہ کے بدنصیب لوگ محض اپنے پیاروں کو ہی سپرد خاک نہیں کریں گے بلکہ اپنے ریاست مدینہ ثانی کے خواب کی بھی تدفین کریں گے۔انصاف پر مبنی نظام کے خواب کی بھی تدفین ہوگی۔آج بہت سی خواہشات بھی دفن ہوجائیں گی۔معاشی خوشحالی اور بہتر سماجی زندگی کے خواب کو بھی منوں مٹی تلے دفن کردیا جائے گا۔خیر یہ چیزیں تومٹی میں دفن ہونے کے قابل تھیں سو ہوجائیں گی صد شکر کے میرے حاکم کی انا سلامت رہی۔اس سوگ کی فضا میں یہ اطمینان کیا کم ہے کہ کہیں کمزور نہیں پڑا اور نا ہی شہدا کی لاشوں کو دیکھ کر بلیک میل ہوا۔ویسے ہزارہ والو تمہارا حاکم مدینہ کا خلیفہ نہیں شام کا حکمران ثابت ہوا
تحریر: ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author