جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل رحیم یار خان کے سرد موسم کی طرح یہاں کی سیاست بھی خاصی سرد ہے. جس طرح سے اکثر جگہوں پر دھند اور پالے سے پالا پڑا ہوا ہے.اسی طرح ہماری مقامی سیاست پر بھی دھند چھائی ہوئی اور اوپر سے پڑنے والا پالا بھی اپنے اثرات دکھا رہا ہے.موسمی پالے سے کسان اپنی فصلات اور چھوٹے چھوٹے پودوں کو بچانے کے لیے اپنے اپنے طریقوں سے کج یعنی ڈھانپے ہوئے ہیں. قومی سطح پر غیر یقینی کی صورت حال کی وجہ سے چاروں طرف چھائی ہوئی دھند سے بہت سارے سیاستدانوں کو کچھ سجھائی بجھائی نہیں دے رہا. کچھ نے پالے سے ٹالا کرکے اپنے آپ کو چھپائے اور محفوظ کیے ہوئے ہیں.پوہ دا پالا برداشت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے. اسی طرح لاٹھی والی سرکار کی ناراضگی اور سختیاں بھگتنا بھی کوئی خالہ جی کا ویڑھا نہیں ہے.
سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے زندگی میں پہلی بار طویل عرصہ اپوزیشن کے ادوار کو کامیابی سے گزار کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف چھاں کا نہیں دُھپ کا بھی شیر ہے. اپنی ملنساری اور درگرز کی سیاسی سوچ و عمل کی وجہ سے رحیم یار خان کے اس سیاست دان نے عوام کے دلوں میں عزت کا ایک مقام بنایا اور پایا ہے. مخدوم احمد محمود سرائیکی وسیب کا وہ واحد سیاست دان ہے جو ریٹائرڈمنٹ کی عمر سے بھی پہلے انتخابی سیاست سے از خود ریٹائرڈ ہو چکا ہے. اب اپنے بچوں کی سیاسی تربیت اور نگرانی کر رہا ہے. جہاں تک ان کی تنظیمی سیاست کا تعلق ہے وہ اپنے پیش رو سے تو بہتر ہیں مگر توقعات کے مطابق وہ بھی خاطر خواہ رزلٹ نہیں دے سکے. یقینا انہیں اندرونی طور پر کچھ مرئی اور کچھ غیر مرئی رکاوٹوں کا سامنا ہے.کبھی کبھی تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ کہیں یہ شخص پارٹی چھوڑ کر کہیں اور چلا نہ جائے.پیپلز پارٹی کے سرکردہ لیڈرز اور قیادت میری اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہوں گے. الٹرا ساونڈ ماہر کی طرح سیاسی الٹرا ساونڈ ماہرین کے لیے بھی اندرونی کیفیت اور صورت حال کا جائزہ لینا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوتا. پیپلز پارٹی سنٹرل ایگزیٹو کمیٹی کے رکن و سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین شاہ سہروردی اگرچہ خود بوڑھے ہو گئے ہیں مگر ان کی سیاست ابھی بوڑھی نہیں ہوئی.سنجیدہ اور برد بار سیاست دان ہیں. وہ آخری پارلیمانی سیاست کا چانس لینے کے مکمل موڈ میں ہیں. صاحبزادہ مخدوم طاہر رشید الدین کو اپنے کزنز کے ساتھ معاملات طے کرکے آئندہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں میدان میں اتارنے کی پلاننگ بھی کر رہے ہیں. سابق سینئر صوبائی وزیر مخدوم الطاف احمد شہید کے صاحبزادے سابق ایم پی اے مخدوم محمد ارتضیٰ ہاشمی کی سیاست کو بھی آجکل ٹھنڈ لگی ہوئی.اپنے دادا مخدوم سلطان احمد شاہ کی طرح اپنے سماجی تعلق کو نبھانا اس گھرانے کا طرہ امتیاز ہے. رہی بات میانوالی قریشیاں سے تعلق رکھنے والے وزراء بھائیوں کی تو یہ صاحبان وزارتوں کو خوب انجوائے کر رہے ہیں. گویا یہ اپنی زمینوں میں شوگر ملیں اور سیاسی آموں کا باغ لگا کر لاہور اسلام آباد میں سیاسی بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں. ہاں البتہ ان کی نظر میں ایک لکڑ پھکڑ قسم کا رحیم یار خان کا نوجوان ان کے آرام میں خلل کا باعث بنا ہوا ہے. ہائی کورٹ، الیکشن کمیشن اور نیب تک جگہ جگہ پیچھے پڑا ہوا ہے. میری مراد ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والا رئیس احسن عابد ایڈوؤکیٹ ہے. کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ عام گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان طاقت ور ترین مخادیم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور استقامت کا پہاڑ کیسے بن گیا ہے. ضرور اس کی پشت پر پہاڑوں اور چٹانوں کا کوئی بڑا سلسلہ ہے. مخادیم پر بظاہر تو نہیں لیکن اندرونی طور پر نیب کیسز کا ڈر اور خوف موجود ہے.پاکستان کی سیاست، سیاست کے رنگوں اور پتنگوں کو کچھ نہ کچھ تو آخر یہ بھی ضرور جانتے ہیں. ایسے نہیں اتنے عروج پر پہنچ گئے.
گڑھی خدا بخش لاڑکانہ جاتے ہوئے مریم نواز شریف نے موٹر وے ایم 5 نظام آباد رحیم یار خان انٹر چینج پر متوالوں کو براہ راست جھلک دکھانے اور خطاب سے نوازنے کی نیت سے موٹر وے سے نیچے اتریں مگر دیدار اور خطاب سننے کی غرض سے آنے والے پیاسوں کو ترستا ہوا چھوڑ کر پھر آگے چلی گئی. وجوہات کیا تھیں یہ تو متعلقہ صاحبان سردار اظہر خان لغاری سابق ایم این اے میاں امتیاز احمد،ارشد خان لغاری، محمود چیمہ یا بی بی متوالی خالدہ پروین صاحبہ ہی بہتر بتا سکتی ہیں ہمیں فی الوقت زیادہ کھرچنے کی ضرورت نہیں ہے. لاڑکانہ سے واپسی پر رحیم یار آباد میں محترمہ مریم نواز شریف کے پروگرام کو کس نے اور کیسے سبوثاژ کیا. یہ اندرونی کہانی بھی جلد منظر عام پر آ جائے گی. بقول ہمارے صحافی دوست غفار مھر، سردار محمد اظہر خان لغاری نے کھانے کا بڑا زبردست انتظام کیا ہوا تھا. مریم نواز اس دعوت اور کھانے کو چھوڑ کر سکھر سے سیدھی لاہور واپسی چلی گئی. یوں ن لیگیوں کی پالے کو ہٹانے، مچ مچانے اور بھنگڑے دھمیں ڈالنے کی تمامتر کوششیں رائیگاں چلی گئیں. گجراتی منڈا کہوں یا اسلام آبادی بابو وہ اور اس کی ٹیم اس سارے منظر میں نہ جانے کہاں تھی. پیپلز پارٹی لاڑکانہ میں ہوتی ہے ظاہر ہے برسی کے موقع پر وہاں ہی ہونے تھی. لگتا ہے کہ اس سال ضلع رحیم یار خان سے کم قافلے گئے ہیں.بی بی بے نظیر شہید کی قبر پر سرائیکی اجرک ڈال کر دعا مانگنے والے راشد عزیز بھٹہ کی تو کہانی ہی بالکل علیحدہ ہے.
محسن آباد کے مخدوم ایم این اے مخدوم مبین عالم نے مخدوم احمد محمود سیکرٹریٹ رحیم یار خان کی طرح لیاقت پور میں اپنا پبلک سیکرٹریٹ قائم کیا ہے. شہر میں صرف سیکرٹریٹ قائم کرکے کوئی شہر کی سیاست کو فتح نہیں کر لیتا. اس کی بہت ساری سیاسی و سماجی ضروریات اور تقاضے ہوتے ہیں جنھیں پورا کرنا پڑتا ہے.سابق ایم این اے قطب فرید کوریجہ اگر پیپلز پارٹی اور مخدوم احمد محمود کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا تو یقینا خزان کے بعد بہار ضرور آئے گی. البتہ خانبیلہ میں انہیں تبدیلی پر ضرور غور کرنا ہوگا. اپنے پیارے دوست ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی ایک پرعزم اور صاحب بصیرت دانشور انسان ہیں. تحریک انصاف اور قائدین نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے میرا خیال ہے کہ یہ جرات مند شخص بہت جلد تبدیلی اور دب تیلی بارے سب کچھ خود ہی بتائے گا. خان پور کے وارث کون?. سچ پوچھیں تو خود خان پور کے لوگوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ خان پور کے وارث کون ہیں.ایم پی اے میاں شفیع محمد لاڑ نے پہلے کی طرح اس دور میں بھی اپنے آپ کو کسان دوست ایم پی اے ثابت کیا ہے.کسانوں کے حوالے سے ان کی غیر اعلانیہ اجتماعی کوششیں یقینا قابل تعریف ہیں.ن لیگی ایم این اے شیخ فیاض الدین اور ایم پی اے چودھری ارشد جاوید بھی ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں. رحیم یار خان کا بابا اور کا کا اقتدار کو دن رات انجوائے کر رہے ہیں. وہ کیسے یہ ہرگز نہ پوچھیں.ایم این اے چودھری جاوید اقبال وڑائچ کا بڑا بھائی چودھری محمد فاروق وڑائچ بھی رحیم یار خان کا پہلا خوش نصیب انسان ہے جو قبل از الیکشن بلدیہ کا میئر بننے سے بھی پہلے میئر بنا پھرتا ہے. فارن میں زیادہ زندگی گزار کر آنے والا چودھری فاروق وڑائچ مثبت سوچ کا حامل ہے. لیکن انہیں یہ پوری طرح پتہ نہیں ہے کہ پاکستان میں آخری موقع پر کس طرح کسی کا پتہ کاٹا جاتا ہے. اگر میئر کے الیکشن براہ راست عوامی ووٹوں سے ہوئے تو میاں اعجاز عامر جیسے امیدوار کا مقابلہ کرنا بھی خاصا اوکھا کام ہوگا.اگر کسی کو یاد ہو تو تحصیل ناظم رحیم یار خان کے لیے مخدوم محمد ادریس ہاشمی کی جگہ میاں اعجاز عامر کس موقع پر اور کیسے آئے تھے?.تحریک انصاف کے نوجوان سیاست دان مخدوم معاذ محمد ہاشمی کے بارے میں ان کے سیاسی کوآرڈینیٹرز کے سوا کسی کو پتہ نہیں ہے کہ موصوف آجکل کہاں ہیں.قصہ مختصر ضلع رحیم یار خان کی سیاست آجکل سردی میں گرم کمروں کے اندر کمبل اوڑھے لیٹی پڑی ہے.کہاں، کون اوپر اور کون نیچے ہے اس کا ہمیں کوئی پتہ نہیں. سیاست میں اوپر نیچے کے سلسلے تو چلتے ہی آ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر