نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریڈ مولانا ۔۔۔عامر حسینی

مولانا بھاشانی نے 1920ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس میں شرکت اختیار کی اور وہ آسام اور مشرقی بنگال میں تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون  کےچند بااثر ترین سیاسی رہنماؤں میں  شمار ہونے لگے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے شہر میں آج کل کا جیلے (جمیل کی بگڑی شکل) چائے والے ہوٹل کی بڑی شہرت ہے۔ اس سے پہلے شہر میں لیاقت بھیاری مرحوم کا پرانی سبزی منڈی روڈ پر بنے چائے ہوٹل کی شہرت تھی- اب ان دونوں میں مقابلہ اور موازانہ کیا جارہا ہے۔ شہر سے تھوڑا دور بستی کھوکھر آباد کے قریب وارث چائے والے کے ہوٹل کو آپ چائے کے لیے مشہور تیسرا بڑا ہوٹل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد دو ہوٹل کوئٹہ کے پٹھانوں نے آکر کھولے ہیں جن کی چائے کی بڑی مشہوری ہے۔

ہمارا ایک دوست ہے انتظار حسین قریشی عرف منّا جو بلدیہ کا ملازم ہے وہ خانیوال میں چائے کے ہوٹلوں کی چائے کے معیار کے مطابق درجہ بندی کرنے کا ماہر ہے اور چائے کا ہماری طرح رسیا بھی بہت ہے۔ وہ ویسے پاکستان بھر کے بڑے چھوٹے شہروں میں بہتر اور گھٹیا چائے فراہم کرنے والوں کی فہرست زبانی یاد رکھے ہوئے ہے۔ منّا قریشی ویسے ہمارے شہر کی دائی بھی ہے اور شہر میں جو کچھ بھی غیر معمولی طور پر رونما ہو اس کو اس کی خبر رہتی ہے اور وہ اس معاملے میں”مصدقہ زریعہ” خیال کیا جاتا ہے۔ انتظار حسین عرف منّا قریشی ویسے تو الیکٹریشن ڈپلومہ ہولڈر ہے لیکن اس کے ذوق ادب اور شاعری بھی ہے اور ساتھ ساتھ موسیقی بھی ہے۔

سیاست سے بھی اسے دلچسپی ہے- میں نے یہ اتنی بڑی تمہید اس لیے باندھی کہ کل وہ اور میں اور ہمارا ایک اور دوست راشد علی رحمانی جیلے چائے والے کے ہوٹل پر چائے پینے جا پہنچے اور وہاں جن کرسیوں پر ہم بیٹھے تو ہمارے نزدیک بہت سارے لوگ بیٹھے تھے جن میں نوجوان بھی تھے۔ منّا قریشی کہنے لگا،”حسینی بھائی! یہ کونسی کتاب آپ نے پکڑی ہوئی ہے؟ (میں نے ایک کتاب ہاتھ میں لی ہوئی تھی اور جہاں سے ہم چلے تھے وہاں سے لیکر ہوٹل پہنچنے تک منّا قریشی اسے وقفے وقفے سے دیکھے جارہا تھا، جب رہا نہ گیا تو پوچھ لیا) میں نے اسے بتایا کہ ایک بنگالی ادیبہ کا لکھا ہوا ناول ہے جس کا نام ہے ” دا ریڈ مولانا اینڈ امپرر آف دا چائنا – سرخ مولانا اور چین کا شہنشاہ” ۔ منّا قریشی کو نجانے کیا بات سوجھی اس نے عنوان سن کر زور سے قہقہ لگایا۔ میں نے کہا کہ "ہنس کیوں رہے ہو؟” کہنے لگا،

"سرخ مولانا” سن کر ہنسی آگئی- میں تھوڑا سا سنجیدہ ہوا اور اسے بتایا کہ "ریڈ مولانا” پاکستان کے ایک بہت بڑے انقلابی سیاست دان کا لقب تھا اور ان کا نام تھا مولانا عبدالحمید خان بھاشانی- منّا قریشی یہ سن کر تھوڑا چوکنا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کون سا سیاست دان ہے جس کا نام ہی آج میں پہلی بار سن رہا ہوں۔ ہمارے سامنے کچھ نوجوان بیٹھے تھے ان میں سے ایک شاید ہماری بات سن رہا تھا وہ بھی درمیان میں بول پڑا، ہاں جی یہ کون سا سیاست دان تھا جو انقلابی تھا اور ریڈ مولانا کے نام سے مشہور تھا۔

مجھے ایک دم سے یہ احساس ہوا کہ ہمارے اجتماعی شعور تاریخ سے کیسے کیسے اہم نام کھرچ کر مٹادیے گئے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد تحریک پاکستان سے ہٹ کر انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے کئی بڑے کرداروں اور کئی تحریکوں کا تذکرہ نصابی تاریخ اور پریس سے غائب ہوا اور جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو مشرقی بنگال پھر مشرقی پاکستان کے کئی ایک سیاست دانوں اور سیاسی تحریکوں کو گوشہ فراموشی میں پھینک دیا گیا۔ میں نے منّا قریشی اور ديگر دوستوں کو بتانے لگا:

ریڈ مولانا کا اصل نام عبدالحمید بھاشانی تھا- وہ 12 دسمبر 1888ء کو آج کے بنگلہ دیش کے ضلع سراج گنج کے گاؤں ڈھانگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام چودھری شرافت علی تھا جو نچلے متوسط طبقے کے زمیندار تھے۔ انہوں نے درس نظامی کی تعلیم ایک مقامی مدرسے حاصل کی اور پھر وہ 1907ء میں دارالعلوم دیوبند انڈیا چلے گئے اور وہاں وہ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی پرنسپل دارالعلوم دیوبند کے زیر اثر آئے جن کی انگریز دشمنی معروف تھی اور وہ انگریز سامراج سے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔

1909ء میں مولانا بھاشانی واپس آئے اور ڈھاکہ ڈویژن میں ٹنگیل میں موجود ایک پرائمری اسکول میں پڑھانے لگے۔ وہ اسکول میں پڑھانے کے ساتھ مشرقی بنگال میں جاگیرداری نظام کے خلاف کسانوں اور کھیت مزدوروں کی جدوجہد سے بھی جڑتے چلے گئے۔ 1912ء میں انہوں نے بنگال کی معروف آزادی پسند قوم پرست پارٹی سوراج پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جس کے سربراہ چتررنجن داس تھے جنھیں پورا بنگال دیش بندھو کے نام سے یاد کرتا تھا۔ یہ پارٹی بنگال اور آسام میں چھوٹے کسانوں، بے زمین کسانوں اور کھیت مزدوروں کے حقوق کی بازیابی، جاگیرداری کے خاتمے اور انگریز سامراج سے بنگال کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی بڑی مقبول جماعت تھی۔ 1920ء کے آتے آتے بنگال اور آسام میں خاص طور پر غریب کسانوں اور کھیت مزدوروں کی تحریک زور پکڑ گئی اور مولانا بھاشانی اس تحریک کے چند ایک معروف رہنماؤں میں سے ایک تھے۔

اس تحریک کو کچلنے کے لیے انگریز سامراج نے جب سیکورٹی مشینری کو استعمال کرنا شروع کیا تو لیڈروں کی گرفتاری بلکہ ان کو قتل کرنے کے حوالے سے شکنجہ کسا جانے لگا تو مولانا بھاشانی مشرقی بنگال کے ساتھ لگنے والی آسام کی سرحد کو عبور کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے قصبے چاربھاشان میں آگئے اور یہاں پر اپنا ہٹ تعمیر کرلیا اور یہیں سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور مولانا چار بھاشان کی نسبت سے بعد ازاں ساری عمر مولانا بھاشانی کہلائے۔

مولانا بھاشانی نے 1920ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس میں شرکت اختیار کی اور وہ آسام اور مشرقی بنگال میں تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون  کےچند بااثر ترین سیاسی رہنماؤں میں  شمار ہونے لگے۔40ء کی دہائی میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور 1944ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ آسام کے صدر منتخب ہوگئے۔ اے کے فضل حق شیر بنگال اور مولانا بھاشانی کی آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت نے مسلم لیگ کو مشرقی بنگال اور آسام کے غریب کسانوں میں مقبول کردیا۔ مولانا بھاشانی کو جب آل انڈیا مسلم لیگ آسام کا صدر بنایا گیا تو انہوں نے اس موقعہ پر بھی مذہبی منافرت کو رد کیا اور کسانوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے بلا لحاظ مذہب جاگیرداروں کی مذمت کی۔

1944ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ نے عدم تعاون کی تحریک چلائی تو اس وقت بھی مولانا بھاشانی نے مذہب کی بنیاد پر بنگال کے کسانوں کو باہم تقسیم کرنے والے ڈسکورس کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور 1947ء میں تقسیم ہند کا پلان انگریز سامراج نے دیا تو انہوں نے اس موقعہ پر وہ  مشرقی اور مغربی  بنگال پر مشتمل ایک آزاد و خودمختار ریاست کی تجویز پیش کی اور تحریک بھی چلائي۔ اس معاملے میں وہ اور چیف منسٹر بنگال حسین شہید سہروردی دوںوں ہی ایک تھے۔

مولانا بھاشانی جب آسام منتقل ہوئے تھے تو اس وقت انھوں نے کسانوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے طبقے میں بھی کام کرنے کا آغاز کیا۔ مولانا بھاشانی نے تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان میں 1950ء میں ایسٹرن پاکستان ریلوے ٹریڈ یونین منظم کی اور وہ اس کے پہلے صدر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے پٹ سن کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کو بھی ایک یونین میں منظم کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مشرقی بنگال میں ماہی گیروں کو بھی یونین میں منظم کرنا شروع کردیا۔

مولانا بھاشانی نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ ملکر 1949ء میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا اور پاکستان مسلم لیگ جو اس وقت جاگیرداروں ، سرمایہ داروں کے چنگل میں تھی اور وہ ریاست کی وردی بے وردی نوکر شاہی کو پاکستان کو جاگیردارانہ و گماشتہ سرمایہ دارانہ ریاست میں بدلنے میں کوشاں تھی جس میں کسانوں، مزدوروں کا کوئی کردار اس کے سوا نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنی محنت کی لوٹ کھسوٹ ہوتے دیکھتے رہیں- پاکستان بے آئین سرزمین بنا رہے-

انھوں نے پاکستان مسلم لیگ کی بجائے پاکستان عوامی مسلم لیگ کا قیام کیا- مولانا بھاشانی اور حسین شہید سہروردی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس نظریے میں پختہ ہوتے جاتے تھے کہ پاکستان کی عوام کی نجات کا راستا ایک ہی ہے کہ کمیونل ایشو کو حل کرلیا جائے اور پاکستان میں عوامی سیاست کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ تئیس اکتوبر 1953ء کو مولانا بھاشانی کے مشورے سے پاکستان عوامی مسلم لیگ کا نام عوامی مسلم لیگ رکھ دیا گیا اور 1955ء میں مولانا بھاشانی نے کامگری کانفرنس میں واضح طور پر پاکستان کی سیاست کی سیکولرائزیشن کو ہی پاکستان میں کمیونل ایشو کا واحد حل قرار دیا-

جب حسین شہید سہروردی نے وزیراعظم بننے کے بعد عوامی لیگ کے بنیادی منشور سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان کو سیٹو و سینٹو جیسے امریکی سامراج نواز معاہدوں سے باہر نکالنے سے انکار کیا اور پاکستان میں زرعی اصلاحات سے انحراف کیا اور ون مین ون ووٹ کے مطالبے کو نظر انداز کردیا تو مولانا بھاشانی نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کی اور مغربی پاکستان کی قوم پرست اور بائیں بازو کے گروپوں کے ساتھ مل کر 1958ء میں نیشنل عوامی پارٹی –نیپ کی تشکیل کی- نیپ بلاشبہ اس وقت کی پاکستان کی سب سے بڑی سیکولر ترقی پسند جمہوری پارٹی کے طور پر سامنے آئی لیکن ایوب خان کے مارشل لاء میں اس پہ پابندی لگ گئي۔

1964ء میں جب ایوب خان نے سیاسی جماعتوں سے پابندی اٹھائی تو نیپ نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن لڑایا جو ایوب خان کی دھاندلی کے سبب وہ جیت نہ سکیں- اس الیکشن کے دوران ہی مولانا بھاشانی پر مغربی پاکستان سے نیپ میں شامل سیاسی جماعتوں نے ایوب کی حمایت کرنے اور بھٹو سے رشوت وصول کرنے کا الزام لگایا۔ اور یوں 1967ء میں نیپ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی – نیپ بھاشانی کے صدر مولانا بھاشانی بنے جس کا زیادہ اثر مشرقی پاکستان میں تھا۔ مولانا بھاشانی 1967ء سے 1970ء تک اسلامی سوشلزم کی تحریک چلاتے رہے اور انھوں نے پہلے ایوب خان کے خلاف زبردست تحریک چلائی-

اور پھر یحیی خان کے خلاف تحریک چلائی۔ مولانا بھاشانی نے 70ء کے الیکشن میں حصّہ نہ لیا اور بندوق کی گولی کے زریعے سے سوشلسٹ انقلاب کی بات کی۔ جب پاکستانی فوج نے 25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو انہوں نے مشرقی پاکستان کو آزاد بنگلہ دیش بنانے کی حمایت کردی- وہ اس وقت انڈیا میں تھے جہاں ہندوستانی فوج نے انھیں بنگلہ دیش بن جانے تک روکے رکھا۔بنگلہ دیش بنا توانہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک ترقی پسند حزب اختلاف کی پارٹی بنائی اور اس پلیٹ فارم سے ان کی سب سے بڑی سرگرمی 1976ء میں ہندوستان کی جانب سے دریائے گنگا پر ایک بیراج بنانے کے منصوبے کے خلاف لاکھوں افراد کا لانگ مارچ تھا۔17 نومبر 1976ء کو 96 سال کی عمر میں مولانا بھاشانی ڈھاکہ میں انتقال کرگئے اور ان کو ڈھاکہ ڈويژن کے ضلع ٹنگیل کے قصبے سنتوش میں دفن کیا گیا۔ یوں برصغیر کی سیاست میں 64 سال تک ہنگامہ خیز کردار ادا کرنے والا سورج غروب ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

About The Author