نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بدلتے ماہ و سال کی کہانی۔۔۔ رسول بخش رئیس

ہر انسان نظری طور پر اپنا مقصدِ حیات خود منتخب کرتا ہے‘ مگر ایسا کرنے میں اس کے ارد گرد کا ماحول‘ خاندانی پس نظر‘ تعلیم‘ تہذیبی رویے اور ملکی ترقی کا معیار بہت اثر رکھتے ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‘وقت کا دھارا نہ کبھی رکا ہے‘ نہ رکے گا‘ یہ تو بڑی باتوں میں سے ایک بات ہے۔ نئی بات یہ ہے کہ اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے کہ زندگی کی دوڑ دھوپ میں گزشتہ چند دہائیوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نئی نئی ایجادات‘ جدید مشینوں کا استعمال اور صنعتی ترقی کا مقصد انسان کے لئے وقت اور مشقت میں کمی لانا تھا‘ الٹا وہ دنیا کے ہر کونے میں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔

پہلے کی نسبت زندگی کا معیار بہتر ہے۔ حدِ عمر میں اضافہ ہو چکا ہے۔ کھانے پینے کے لئے سب کچھ ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں انقلاب در انقلاب آ رہے ہیں۔ شہروں کی رونقیں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ گویا سب کچھ ہے‘ مگر وقت اور زندگی کا لطف اٹھانے کے لئے مہلت نہیں‘ بلکہ صورتحال یہ ہو چکی کہ آج کے جدید دور میں ہماری فکرمندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی لوگ ہر جگہ پریشان پریشان سے پھرتے ہیں۔ نفسیاتی بیماریاں عروج پر ہیں۔ دل کے دورے عام ہو چکے ہیں۔ ہر ملک میں آبادی کا بہت بڑا حصہ اعصابی دبائو کا شکار ہے۔

وجہ یہ ہے کہ دنیا مسابقت میں پڑ گئی ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے دورے ہمیں پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ آپ رک گئے یا رفتار سست رہی تو دوسرے آگے نکل جائیں گے‘ جو سبک رفتار ہوں گے‘ دولت‘ عزت‘ طاقت اور اثر ان کا رہے گا۔ سائنسی ایجادات ہوں یا صنعتی تنوع کا مقابلہ‘ سب کی کوشش ہے کہ آگے نکلیں اور جو مقابلے میں ہیں‘ ان کو پیچھے چھوڑ دیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اس مسابقت کی نظریاتی روح کا درجہ رکھتا ہے۔

ہر سرمایہ دار اس کھوج میں رہتا ہے کہ پیسہ کہاں لگایا جائے‘ جہاں سے اسے نسبتاً زیادہ منافع حاصل ہو۔ وہ بہتر سے بہتر کارکنوں‘ انتظامیہ اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینے کو تیار رہتا ہے۔ بڑی بڑی‘ نئی اور پُرانی کمپنیوں کی کامیابی کا راز یہی ہے۔ یہ صرف صنعتوں کی بات نہیں‘ جدید معیشت کے ہر شعبے میں‘ چاہے وہ تعلیمی ادارے‘ شفاخانے یا تحقیقی سائنسی کارگاہیں ہوں‘ بہتر سے بہتر افرادی قوت کی تلاش جاری رہتی ہے۔

جو لوگ وہاں کام کرتے ہیں‘ وہ بھاری بھرکم مشاہروں کا جواز پیدا کرنے‘ اور آجر کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے اپنی زندگی کا بہترین ان کی نذر کرتے ہیں۔ انہیں صلے کے طورپر بہت کچھ مادی فوائد کی صورت میں مل جاتا ہے‘ مگر کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں‘ جو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خاندان کے مابین مناسب توازن قائم رکھ سکیں۔

ہر انسان نظری طور پر اپنا مقصدِ حیات خود منتخب کرتا ہے‘ مگر ایسا کرنے میں اس کے ارد گرد کا ماحول‘ خاندانی پس نظر‘ تعلیم‘ تہذیبی رویے اور ملکی ترقی کا معیار بہت اثر رکھتے ہیں۔ مغرب کی ترقی خیرہ کن ہے۔ ہر سال ہر میدان میں نئی نئی دریافتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔

سائنسی اور صنعتی میدانوں میں جو ترقی گزشتہ پچاس برسوں میں دیکھنے میں آئی‘ اس سے پہلے ایک سو سال سے کہیں زیادہ ہے‘ اور گزشتہ ایک صدی کی ترقی‘ کئی صدیوں کے مقابلے میں کئی گنا ہے۔ ترقی کی رفتار میں اضافہ اب ہر دہائی میں دگنا ہونے کا امکان ہے۔

کچھ مستقبل شناسوں کا خیال ہے کہ یہ رفتار چار گنا بھی ہوسکتی ہے۔ صنعتی ممالک میں جس طرح روایتی ایندھن سے چلنے والے گاڑیاں ختم کی جا رہی ہیں‘ آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں صرف ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں ہی دیکھی جائیں گی۔ حکمران لوٹ کھسوٹ اور بے ایمانیوں سے پسماندہ رکھنے کی جتنی بھی کوشش کریں‘ ترقی کی روشنی قدغنوں کے بلند حصاروں میں دراڑیں ڈال کر پہنچ ہی جاتی ہے۔

رفتار سست ہوگی تو پیچھے پیچھے ہی چلیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس رفتار سے سبز ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ہورہی ہے روس‘ ایران اور عربوں کے تیل کے کنویں ”کالا سونا‘‘ اگلنا بندکر دیں گے۔ وہی میدان میں رہیں گے‘ جو مسابقت کیلئے تیار ہیں‘ جو ذات اور انسانیت کیلئے بہتر مستقبل کے خواب بُن رہے ہیں اور اپنی کاوشیں تبدیلیٔ مسلسل پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔

اگر آپ میں سے کوئی یورپ کے کسی ملک کا حال ہی میں دورہ کرکے آیا ہو اور اس نے وہاں گلی‘ محلوں میں گھومنے کی فرست ملی ہو تو سڑکوں کے کنارے اور کونوں میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو طاقت بھرتے ضرور دیکھا ہوگا۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے مخصوص نشانات اور رنگوں کے ساتھ سوئچ بورڈ لگا رکھے ہیں۔

آتے جاتے جب چاہیں اپنا کارڈ ڈال کر گاڑی ریچارج کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو انقلاب آسکتا ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں ہوں تو شمسی توانائی سے ہر گھر خود کفیل ہوسکتا ہے۔

مجھے اپنے ہرنوع اور ہردور کے حکمرانوں سے امید نظر نہیں آتی‘ جو میدان میں اتارے گئے اور ان کے اعلیٰ سرپرست‘ جو میدان میں رہے ہیں‘ سب کو دیکھ لیا ہے۔ اب کپتان کی بیٹنگ جاری ہے۔ دیکھتے ہیں ان سے کس حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔ سوچ‘ ذاتی کردار‘ نظریے اورجو سمت مقررکی ہے‘ اس پر مجھے ابھی تک اعتماد ہے۔ مسئلہ رفتار کا ہے کہ زور پکڑے گی اور منشور کے مطابق تبدیلیوں کا عمل آگے بڑھے گا یا وقت لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجائے گا۔

حکمرانوں کوتو چھوڑئیے‘ مجھے اپنے پاکستانی عوام سے بہت توقعات ہیں کہ انہیں موقع ملے تو ترقی کی دوڑ میں سرپٹ بھاگنا شروع کر دیں۔ میں جہاں رہتا ہوں‘وہاں اردگرد چار ہمسایوں نے شمسی توانائی کا سیٹ اپ چھتوں پر نصب کروا رکھا ہے۔

ایسے سیٹ اپس کی تعداد ہمارے ملک میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اسی توانائی سے آب پاشی کیلئے سینکڑوں نئے ٹیوب ویل ملک کے کونے کونے میں لگائے جا رہے ہیں۔ اب تو یہ ذکر کرنا بھی فرسودہ لگتا ہے کہ کون ہے جس کے پاس فون کی سہولت موجود نہیں۔ یہ تو میں بالکل بھول گیا کہ ترقی کی برکات کا صرف استعمال ہمیں صارف بناتا ہے‘ مال دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا کوئی سرمایہ کار یا بڑی بڑی کمپنیاں بناتی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں ہم بھی جدید پیداوار اور اشیا متعارف کرائیں‘ تبھی درآمدات اور برآمدات میں توازن ہوگا۔ کپتان نے یہ بالکل درست کہا‘ ”کپاس اور آم‘‘ بیچ کرتو دنیا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے روایتی صنعت کاروں کو جدید صنعتوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ صنعتی ممالک نے ماحولیات کو نظرانداز کرنے کی جو غلطیاں کی تھیں‘ وہ ہم نہ کریں۔

دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند ہو رہے ہیں اور ہم نے درآمدی کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر ساہی وال میں تعمیر کر ڈالا۔ نعرے بھی کیا خوب تراشے جاتے ہیں کہ ملک کو ”اندھیروں‘‘ سے نکالا‘ ان سے پہلے والوں نے ایسے معاہدے کئے جن کی وجہ سے ہم سہولتیں ہونے کے باوجود بجلی پیدا نہیں کر سکتے۔ سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔

بات کہیں سے کہیں نکل گئی‘ کیا کریں کہ ”دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت‘‘ نصف صدی برباد ہوگئی‘ اور اب دوبارہ راستے پر آنا سہل نہیں ہو سکتا۔ راستہ بھی سب کو معلوم ہے‘ چلنا کس رفتار سے ہوگا‘ اس کا بھی علم ہے‘ ارادہ‘ صلاحیت اور رہبر ملیں تو بات بنے۔

آئندہ ہر سال ہماری داخلی کشمکش اور طالع آزما سیاست بازوں کی شعبدہ بازیوں کے باعث مشکل سے مشکل تر ہوسکتا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے‘ وسائل سکڑرہے ہیں‘ سرمایہ کاری کی رفتار سست ہے۔

ہم عوام ریاست کے محتاج ہیں کہ اس کا بگاڑ اور اس کو چلانے والوں کا بگاڑ وہی کچھ کرسکتا ہے جو ہم مشرق وسطیٰ میں‘ افغانستان اور افریقی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ کل سے سال اور تاریخ‘ دونوں تبدیل ہو جائیں گے‘ کہ ہمارا ان پر کوئی بس نہیں‘ مگر دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے اپنی قومی طاقت‘ خود مختاری اور آزادی ترقی کی رفتار پر منحصر ہے۔

وہ معکوس یا کمزور رہی توسب کچھ کمزور رہے گا‘ مایوسی میں اضافہ ہوگا‘ بے چینی مزید پھیلے گی‘ اور سیاست میدانِ جنگ کا بھیانک منظر پیش کرے گی۔ ترقی‘ انصاف اور خوشحالی سے استحکام پیدا ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے برسوں اور حالات کا یہی تو قصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author