جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام،، اگر وطن عزیز میں جرائم کی تحقیق اور مجرموں کی تفتیش قانون، حقائق اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاتفریق، دیانت داری اور یکسوئی کے ساتھ کی جائے. کسی بھی قسم کی لالچ، خوف اور مرئی و غیر مرئی سیاسی دباؤ نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ مجرموں کو سزا نہ ہو اور جرائم پر کنٹرول نہ کیا جا سکے. دراصل بروقت اور بلاتفریق انصاف کا نہ ملنا ہی سب سے بڑی خرابی بلکہ ہمارا قومی المیہ ہے. مزید بات کرنے سے قبل میں آپ کے ساتھ ایک خبر شیئر کرنا چاہتا ہوں جو گذشتہ چار پانچ روز سے خان پور رحیم یار خان سے سوشل میڈیا پر خاصی گردش کر رہی ہے. ملاحظہ فرمائیں
ُ ُدہشت گردی کورٹ بہاول پور نے شہید سب انسپکٹر ارشد چٹھہ اور کانسٹیبل صادق حسین کے قاتلوں کو سزائے موت سنا دی، مقدمہ کی تفتیش انسپکٹر سیف اللہ خان کورائی نے کی تھی۔
تفصیل کے مطابق تھانہ شیدانی کی پولیس چوکی بنگلی کے انچارج سب انسپکٹر ارشد چٹھہ کانسٹیبل صادق حسین و دیگر اہلکاروں کے ہمراہ ایک رٹ پٹیشن پر ایک بچی کی بازیابی کے لیے علاقہ میں گئے راستہ دریا سے گزرتا تھا اس لیے کشتی کا استعمال کیا مدعی مقدمہ بھی ہمراہ تھا جب ضابطہ کارروائی کے بعد بذریعہ کشتی پولیس پارٹی واپس دریائے سندھ میں روانہ ہوئی تو ملزمان کشتی پر اسلحہ آتشیں سے فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں سب انسپکٹر ارشد چٹھہ اور کانسٹیبل صادق حسین شہید ہوگئے اور مدعی مقدمہ فائرنگ کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گیا۔
جس پر تھانہ ظاہر پیر میں اس وقوعہ کا مقدمہ نمبر 139/19 درج رجسٹر ہوا جس کی تفتیش انسپکٹر سیف اللہ خان کورائی نے بطور ایس ایچ او سیون اے ٹے آے کے تحت درج مقدمہ کی تفتیش کی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مقدمہ کی تفتیش اس طور کی کہ کوئی سقم نہ چھوڑا جس کے بعد دہشت گردی کورٹ بہاولپور میں یہ مقدمہ ٹرائل ہوا بہترین پیروی، وکیلوں کے دلائل اور انسپکٹر سیف اللہ خان کی تفتیش سے اتفاق کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کورٹ بہاولپور کے جج ناصر حیسن نے سب انسپکٹر ارشد چٹھہ اور کانسٹیبل صادق حسین شہید کے ملزمان مصطفی اور عبداللہ جھورن کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت سنا دی ہے۔،ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، سب سے پہلی بات کہ بلاشبہ رحیم یار خان پولیس میں سیف اللہ خان کورائی کا شمار ایک ملنسار، لوگوں کی عزت نفس کا خیال کرنے والے، محنتی اور دیانتدار پولیس آفیسروں میں ہوتا ہے. سیف اللہ کورائی بھی اسی معاشرے میں رہنے والا انسان ہے جہاں سب کچھ ہو رہا ہے. مگر بات خاندانی تربیت و کردار، ماحول اور اپنی اپنی سوچ کی ہوتی ہے. یہ بھی کافی کیسز میں سیاسی دباؤ یا کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوتا ہوگا. کیونکہ فرشتہ نہیں انسان ہے. قصہ مختصر سیف اللہ کورائی جیسے پولیس آفیسرز کو پولیس کے ماتھے کا جھومر کہا جا سکتا ہے.
میرے وطن کو، میرے سرائیکی وسیب کو، میرے ضلع رحیم یار خان کو یقین کریں بلاتفریق میرٹ اور انصاف کی اشد ضرورت ہے. پولیس میں سیاسی مداخلت کو مکمل بند کرنا تو شائد ابھی کسی کے بس کا روگ نہیں ہے.دیس کو ابھی ایسے جرات مند، پختہ ایماندار اور مجاہد قسم کے حکمران اور لیڈر نصیب نہیں ہوئے. جس دن اللہ نے اپنا خصوصی کرم فرمایا میرا ایمان ہے کہ میرے وسیب اور دیس کے حالات ہی بدل جائیں گے.
ہر طرف لاقانونیت اور ظلم و جبر کی وجہ سے دُہائیوں کا دھواں نظر نہیں آئے گا. پولیس کے شہداء کے ورثاء کو میرٹ اور یکسوئی کے ساتھ ہونے والی تفتیشن کے نتیجے میں دھشت گردی کورٹ سے بروقت انصاف مل گیا ہے جوکہ بہت ہی اچھی بات ہے. اللہ کرے کہ عام لوگوں کے ساتھ بھی ایسا انصاف کا معاملہ ہونے لگ جائے تاکہ مجرموں کے قانون کے مطابق سزا سے دو چار ہونے سے معاشرے سے لاقانونیت اور سینہ زوری کا خاتمہ ہو سکے.
نہ جانے کیوں تھانہ رکن پور کے علاقے اڈا یوسف آباد موضع محمد پور گانگا میں دن دیہاڑے تشدد کا شکار ہو کر اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال پہنچتے ہی شہید ہو جانے والے مقتول عابد کے ورثاء کو انصاف کیوں نہ مل سکا. اس کیس نمبری 448بٹا14بجرم 302,364,34ت پ کی میرٹ اور یکسوئی کے ساتھ تفتیش کیونکر نہ ہو سکی.صرف اور صرف اس لیے کہ قاتل علاقے کے بااثر لوگ تھے اور ان کا تعلق صاحب اقتدار جماعت کی طاقت ور شخصیات سے تھا.اس کیس کی شائد اس سے بھی بڑی کمزوری یہ تھی کہ مقتول اور اس کے ورثاء انتہائی غریب اور محنت کش لوگ تھے.
وہ علاقے اور وسیب کی ایک عام سی برادری کوٹانہ کے فرد تھے. کسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ پاکستان میں غریب ہونا سب سے بڑا جرم ہے. یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی جگہ جگہ سزا ملتی ہے اور بعضوں کو تو بے بہا ملتی ہے. کیا تھانہ رکن پور کا یہ کیس ری اوپن کرکے سیف اللہ خان کورائی یا ان جیسے کسی اچھے آفیسر کو نہیں دیا جا سکتا. میں یقین کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کہ اُس وقت اشٹامپ پیپر پر حلفا صفائی دینے والوں میں 70فیصد سے زائد لوگ اب ہرگز صفائی دینے کے لیے آگے نہیں آئیں گے.
جن غریبوں کے کیس پولیس بگاڑ دیتی ہے یقین کریں انہیں انصاف نہیں صرف دھکے ملتے ہیں.یہ 2014ء کا کیس ہے.گڑھی اختیار خان کا رہائشی ساجد کوٹانہ اور دیگر ورثاء آج بھی کسی خدا ترس، میرٹ اور انصاف کرنے والے پولیس آفیسرز کی راہیں دیکھ رہے ہیں. طاقت ور ملزمان کے گروہ نے انہیں کیسی کیسی سنگین قسم کی دھمکیاں دی ہیں.
مگر اس کے باوجود بھی وہ کامل یقین کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ محض غریب ہونے کی وجہ اگر ہمیں اس جہاں میں انصاف نہ ملا تو اگلے جہاں میں تو ضرور ملے گا .پولیس ہو یا عدالت میرٹ اور انصاف ہروقت، ہر جگہ اور بلاتفریق ہو. اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر