گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
کچھ دن پہلے ٹورنٹو کینیڈا کے چرچ کی وڈیو دیکھی مجھے ان لوگوں کی سادگی اور کم علمی پر بہت ترس آیا۔ بات کچھ یوں ھے کہ ٹورنٹو میں درجنوں ایسے چرچ یا عبادت گاہیں موجود ہیں جو ایک ہی جگہ پر مسجد ۔گردوارہ۔مندر ۔چرچ ۔ بدھ مت کا عبادت خانہ۔
یہودیوں کا سیناگاگ اور کسی بھی مذھب کے ماننے والوں کی عبات گاہ کے طور پر کام کر رھے ہیں۔ میرا تو سر چکرا کے رہ گیا کہ ایسے لوگوں نے ہمارے پاس آ کر تعلیم کیوں حاصل نہیں کی؟
ویڈیو میں ایک مسلمان نوجوان پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں سے مخاطب تھا اور کہ رہا تھا جب دنیا میں لوگ ایک جگہ پر عبادت کر سکتے ہیں تو آپ لوگ کیوں آپس میں فرقہ بندی کر کے لڑتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل بھی کر دیتے ہیں ۔
اس نے وڈیو دکھائی اور کہا بنیادی طور پر یہ ایک چرچ بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ھے۔ عیسائیوں میں بھی ایسے کئی فرقے ہیں جیسے مسلمانوں میں سنی۔شیعہ۔ دیوبندی۔بریلوی۔اہل حدیث۔ وغیرہ۔ عیسائیوں کے مشھور فرقے رومن کیتھولک۔پروٹیسٹنٹ۔ ایسٹرن آرتھوڈکس۔ اورینٹیل آرتھوڈیکسی۔ وغیرہ ۔
اب ہوا یہ ھے کہ ٹورنٹو میں بڑے چرچ کے احاطے میں عیسائیوں کے مختلف فرقوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ کمرے بنا رکھے ہیں اور ہر فرقے کا آدمی چرچ کے ایک ہی گیٹ سے داخل ھوتا ھے اور سامنے اپنے عقیدے والے کمرے میں چلا جاتا ھے اور سکون سے عبادت کرتا ھے۔
چونکہ چرچ کا ایریا بہت بڑا ھے اس لئے دوسرے مذاھب کے لوگوں کو بھی اجازت ھے کہ وہ چرچ کے اندر کمرہ حاصل کریں اور شاید کچھ کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا ھے اور عبادت کریں ۔ اب یہ کتنا خوش کُن منظر ہوتا ھے کہ چرچ کے گیٹ کے اندر مسلمان ۔عیسائی۔سکھ۔بدھ مت۔ہندو۔یہودی ایک ساتھ جا رھے ہیں اور اندر اپنے اپنے کمروں میں علیحدہ اپنی عبادت میں مصروف ہیں ۔
کوئی کسی سے سروکار نہیں رکھتا۔ خاموشی اور سکون سے اپنے فرائض سر انجام دیتا ھے اور پرامن انداز میں باہر چلا جاتا ھے۔ کینیڈا کی حکومت نے بھی یہ اصول اپنا رکھا ھے کہ اگر کوئی مسجد ۔مندر یا کوئی عبادت خانہ حکومت کی منظوری سے بناتا ھے تو بنا لے اس عبادت گاہ کے اندر جس طرح مرضی ھے عبادت کرے مگر باہر کوئی شور شرابہ یا آوازیں نہ آئیں۔
اگر کسی گھر سے گانے اور ڈیک کا شور بھی باھر جا رہا ہو تو سرکاری اہل کار پہنچ جاتے ہیں اور موقع پر جرمانہ لگا کے ڈالر وصول کرکے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے پاکستان کے ایک عالم انگلینڈ چلے گئے واپس مریدوں کی استقبال کی بڑی محفل جمی تو کہنے لگے لندن میں تو عجیب منظر دیکھا کہ ایک ہی مسجد میں شیعہ ۔سنی ۔وہابی۔ سب اکٹھے نماز پڑھ رھے تھے اب حاضرین لا ھول ولا پڑھنے لگے کہ پیر صاحب ایسی مسجد کیوں چلے گئے ۔
پیر صاحب نے کہا سنو۔۔آپ کا یہ خادم ڈیڑھ ماہ لندن رہا اور سب کو علیحدہ علیحدہ کر کے آیا ہوں۔۔۔اب تو پیر صاحب کے نعرے وَجنا شروع ھو گئے۔۔۔
جب ہم خود قران اور اسلام پڑھتے ہیں تو اسلام ایک امن اور سلامتی کا دین نظر آتا ھے۔ مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر تشتت اور انتشار کہاں سے آیا؟ تو ایک بات سمجھ آتی ھے کہ مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے دشمنوں کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ٹولیوں میں بانٹ دو اور پھر آپس میں گتھم گتھا کردو تاکہ یہ مٹ جائیں ۔
ہمارے زمانے میں عراق۔ لیبیا۔ شام ۔افغانستان ۔ ایران جیسے ممالک کو تباہ کیا گیا لاکھوں لوگ شھید ہوۓ املاک تباہ ہو گیئں مگر OIC کے ستاون ملک دشمن کے آلہ کار بنے یا خاموشی سے تماشا دیکھتے رھے کیونکہ ان کی قوت کو پارہ پارہ کر کے بے اثر بنا دیا گیا تھا۔
پاکستان ستر سال سے ترقی معکوس کی طرف جا رہا ھے ۔اللہ نے اتنے وسائل دئیے ہیں کہ پورے عالم اسلام کو اکیلا پاکستان غلہ فراہم کر سکتا ھے لیکن تھر میں بچے بھوک سے مرتے رہتے ہیں ہمارے سر میں جوں تک نہیں رینگتی ۔
سب سے پہلے لسانی اور مذھبی فرقوں میں بانٹ کر ملک کو کمزور کیا گیا ۔ آپس میں لڑ کر جتنے بندے ہم نے مارے اتنے جنگوں یا دشمنوں نے نہیں مارے۔ پھر ہمارے وسائل کو لوٹا گیا قرضوں میں گوڈے گوڈے جکڑا گیا۔کرپشن کا وائرس ڈالا گیا اور اب وہ کرونا وبا کی شکل اختیار کر چکی ھے۔
مقصد یہ تھا کہ یہ قوم پنپ نہ سکے۔ یہ چنگاری شعلہ جوالہ نہ بن جاۓ۔ ہم آج تک ایک تعلیمی نظام پر متفق نہ ہو سکے۔ ہماری اسمبلی قانون سازی کی بجاۓ دولت لوٹنے والا عفریت بن گئیں ۔ ہم پاپولیشن پلاننگ ۔ مدرسوں کے نصاب ۔ جمعہ کے خطبوں پر لڑ رھے ہیں اور دشمن چاروں طرف سے پاکستان کو مٹانے کے منصوبے بنا رھے ہیں۔
ہم وہ کبوتر ہیں جو آنکھ بند کر کے یہ سوچے بیٹھا ھے کہ بلی موجود نہیں۔ قوم فکر نہ کرے وزیراعظم جتنا مرضی مخلص وایماندار ہو ملک تو پرانے بقراطوں نے چلانا ھے اور۔۔۔ وہ منے میاں لگے رھو۔۔ کے مصداق ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہینگے ۔۔
۔۔اور قوم عطااللہ عیسی خیلوی کا سرائیکی گیت گاتی رھے۔۔۔
؎اَساں تَاں دور وینڑاں ھے ۔۔وِچھوڑا سِرتے سیھنڑاں اے ۔۔۔۔وچھوڑا سر تے سیھنڑاں ھے ۔۔۔اساں ہاں یار پردیسی۔۔۔ مطلب اس کا یہ ھے کہ منزل ابھی دور ھے۔۔۔اللہ آنڑ وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں۔آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر