نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روشنی کا سفر ۔۔۔گلزار احمد

ڈیرہ کے ایک قابل اور ذھین سپوت انجینئر جاوید اقبال انجم صاحب نے کچھ روز پہلے یونائیٹڈ بک سنٹر پر اپنی لکھی ہوئی تین کتابیں عطا کیں ۔ان کی پہلی تصنیف ۔۔شہر بے مثال ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری تعلیم کا قصہ بھی عجیب ھے جب پہلے پہلے ماں نے سکول داخل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ ڈیرہ کی لڑکیوں کا پرائمری سکول تھا جس کی خاتون ٹیچر میری ماں کی سہیلی تھی۔ اس وقت ڈیرہ میں کو-ایجوکیشن کا رواج بھی نہیں تھا۔
مجھے پہلے دن خوب تیار کر کے ماں نے ایک پڑوسن لڑکی کے ذریعے سکول روانہ کیا ۔مجھے یاد ہے ماں دروازے پر کھڑی رہی اور لڑکی میرا ہاتھ پکڑ کر گاے کی طرح کھینچتی جا رہی تھی میں مڑ مڑ کر ماں کو دیکھتا کہ شاید وہ مجھے اس قید سے چھڑائے مگر وہ تو میری افسری اور بڑا آدمی بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔بہر حال گلی کا موڑ آ گیا اور ۔؎۔بساں ملتان دیاں جھنگ شھر نوں مُڑ گیاں۔ یاد آئی سجناں دی ہنجو فر فر لڑھ پیاں۔۔۔
ہِک بے توں پل ناسے وِسدے۔۔اج ڈیکھن کوں ھیں سِکدے۔۔ترجمہ۔ ۔۔ملتان والی بسیں جھنگ شھر کو روانہ ہوئیں تو مجھے ملتان کے سجنوں کا وچھوڑا بہت یاد آیا اور بے اختیار آنسو بہ نکلے۔ایک وقت تھا اپنے دوستوں سے ایک منٹ جدا نہیں ہوتے تھے اب یہ وقت آگیا کہ ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے ترس رھے ھیں۔۔ ۔۔اب میں پڑوسی لڑکی جو مجھ سے بڑی تھی اس کے ساتھ قیدی کی حیثیت سے سکول پہنچا اور ایک ٹاٹ پر بیٹھ گیا۔
وہ لڑکی کمانڈو ٹائیپ تھی اور مجھ پر مسلسل نظر رکھے ہوے تھی ۔ایک دفعہ وہ پانی پینے گئ تو میں نے دوڑ لگا دی مگر اس نے تھوڑی دور جا کر مجھے پکڑ لیا اور پھینٹی لگا کر واپس بٹھا دیا۔ میں کئی روز مار کھاتا رہا اور جب کچھ سدھر گیا یا سدھا لیا گیا تو لڑکوں کے سکول داخل ہو گیا۔ یہاں تین چار کلاسیں عزت سے پڑھیں تو کنٹونمنٹ بورڈ ہائی سکول ملتان جو ملتان صدر کے ساتھ ھے وہاں ایک سال پڑھتا رہا۔ پھر مجھے مسلم لیگ ہائی سکول لاہور داخل کرنے لے جایا گیا۔
جب یہاں پہنچا توایک ہفتہ تو خوب لاھور گھوما اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ مجھے یہاں سکول داخل ہونا ھے۔انارکلی۔شاھی قلعہ۔جناح باغ۔لکشمی۔داتا دربار۔ شملہ پہاڑی۔۔۔مگر قیامت کا دن آگیا رفتہ رفتہ۔۔صبح ڈیوس روڈ جہاں رہائش تھی سے تیار کر کے بابا مجھے مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ لے گئے ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کو پیش ہوا۔ چھٹی کلاس تھی انہوں نے کسی استاد کو بلا کر میرا ٹسٹ دلوایا اور پھر مجھے داخل کر لیا۔شرط یہ تھی کہ دو روز بعد لائٹ بلیو شرٹ۔ٹائی اور خاکی پینٹ پہن کر آنا ھے ۔بہر حال یہ بابا کا مسلہ تھا میرا نہیں۔۔ میں تو دو دن کی چُھٹی سے خوش تھا۔نئی یونیفارم کا سن کر KPK کے بزرگوں کو دعائیں دی جنہوں نے سارے سرکاری سکولوں میں ملیشیا کی سادہ سلوار قمیض اور کالی ٹوپی کی یونیفارم جاری کر رکھی تھی۔
ملیشیا کا کپڑا سستا۔پائدار ۔میل خورہ اور امیر غریب برابر تھا۔ میں نے تو یونیورسٹی کے زمانے میں بھی وائس چانسلر عبدالعلی خان صاحب کو ملیشیا سلوار قمیص بٹن بند کے ساتھ سخت گرمی اور دھوپ میں کلاسیں چیک کرتے دیکھا۔ اللہ مغفرت کرے علی خان بھی عجب آذاد مرد تھا۔
لاھور میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مجھے سھراب کی نئی سا ئیکل بھی دی گئ جو کمپنی ابھی نئی کھلی تھی۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب محمد دین صاحب ڈسپلن کے بہت سخت مگر شفیق انسان تھے۔
صبح سویرے گیٹ پر موجود ہوتے ۔ہر طالب علم کی پینٹ کی کریز ۔ صفائ ۔ دانت اور ناخن بڑھے نہ ہوں تک چیک کرتے اور غلطی پر وارننگ دیتے۔لیکن لاھور کے سکول میں پہلا دن کا پھڈا ابھی باقی تھا کیونکہ میں بالکل اجنبی اور سکول کے آداب سے ناواقف تھا۔
صبح بڑی محنت سے تیاری کی ۔مسلہ یہ تھا کہ الیکٹرک استری نہیں تھی ۔ کوئلوں کے ساتھ استری ایک گھنٹے میں گرم ھوتی اور احتیاط سے کپڑے استری کرنے پڑتے کہ جل نہ جائیں ۔ڈیرہ میں ملیشیا کے جوڑے کی یہ سھولت تھی کہ رات کو تکیہ کے نیچے رکھ لیتا صبح ایک دم تیار ۔
چپلی پر بھی واجبی کپڑا پھیر لیتا مگر یہاں بوٹ کو چمکا کر جانا تھا۔بہرحال وقت پر سکول پہنچا اور چپڑاسی نے چھٹی کلاس میں بٹھا دیا۔ بس نروس تھا جو لڑکا آتا مجھے دیکھتا اور آپس میں کُھسر پُھسر کرتے۔
خیر اسمبلی کے بعد کلاس میں انچارج ٹیچر آیا۔سب کی حاضری ہو گئ تو مجھ سے پوچھا تم کون؟ جی نیا داخل ہوا ہوں ۔کیا نام ھے کہاں سے آۓ ہو؟ نام بتایا اور ڈیرہ اسمعیل خان سے۔۔
یہ ڈیرہ اسمعیل خان کہاں ھے؟ صوبہ سرحد میں (KPK نہیں تھا).سب لڑکے غور سے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔ ٹیچر نے پوچھا ڈیرہ کس چیز کے لئے مشھور ھے؟
فورن کلاس کے کسی لڑکے نے جواب دیا۔۔ نسوار کے لئے سر۔۔۔۔
بس ساری کلاس زور سے ہنسنے لگی اور ٹیچر بھی۔۔شور مچ گیا۔ جب کلاس کنٹرول ہوئ تو استاد نے پھر پوچھا تم بتاٶ؟ میں اب تیار تھا کیونکہ یہ سوال وہاں بار بار پوچھا جا رہا تھا اور بابا نے ٹریننگ دے دی تھی میں نے کہا ۔۔۔
سر ڈیرہ خلوص کے لئے مشھور ھے محبت کے لئے مشھور ھے۔۔مجھے جب پتہ چلا کہ لاھور کے لوگ بھت محبت اور مہماندار ہیں تو فیصلہ کیا یہاں آ کر یہ رنگ دیکھوں اس لئے اب آپکے پاس چلا آیا ہوں۔ تھوڑی دیر سناٹا چھا گیا ۔پھر تالیاں بجیں اور پھر کلاس کے پچیس طلبا نے آکر مجھ سے ہاتھ ملایا ۔
بہت سے کہنے لگے میں انکے ساتھ بنچ پر بیٹھوں لیکن ٹیچر نے پہلی رو میں مجھے عارف ظریف کے ساتھ بٹھا دیا۔۔ عارف مشھور ایکٹر ظریف کے بیٹے اور منور ظریف کے بھتیجے تھے۔
عارف سے ایک دن میں ہی دوستی ہو گئی وہ بھی بڑا اچھا سنگر تھا ۔جب کلاس خالی ہوتی تو ڈیسک بجا کر کوئی گیت سنا دیتا۔پھر عارف کے ساتھ میں نے شاہ نور سٹوڈیو اورباری سٹوڈیو میں کافی وقت گزارا ۔اور اس وقت کے مشہور ایکٹروں ۔کمال۔لالہ سدھیر ۔مظہر شاہ۔اکمل۔اور ایکٹرسوں نغمہ۔زیبا۔دیبا۔فردوس۔نیلو۔ وغیرہ کو قریب سے دیکھا اور متعارف ہوا۔ وہ ایک الگ کہانی ھے۔
لاھور سے میری محبت کا یہ نقطہ آغاز تھا پھر اگلے پانچ سال میں لاھوریوں کی محبت کے سمندر میں غوطے کھاتا رہا اور بہت اعلی نمبروں کے ساتھ میٹرک پاس کر کے واپس لو ٹا۔آج تک لاھور کی محبت میرے دل میں ایک مینار کی طرح روشن ھے واقعی لاھور لاھور ھے۔اور جس نے لاھور نہیں دیکھا وہ جمیا ہی نہیں۔۔۔

About The Author