اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

تاہم پہلی کوشش میں کامیابی نا مل سکی اور 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اقتدار مل گیا۔اس بار منتخب حکومت کوزیادہ مہلت نہیں دی گئی اور 2014 میں عمران خان کی اپوزیشن شروع ہوئی اور 2018 کے عام انتخابات تک جاری رہی۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2007 میں لیاقت باغ کے جلسہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے 2008 کے عام انتخابات کا رخ متعین کردیا۔عوامی ہمدردی کی ایسی لہر چلی جس نے جنرل مشرف کے ارادوں کو خاک میں ملادیا۔اقتدار من پسند سیاسی جماعت کی بجائے پیپلزپارٹی کو دینا مجبوری بن گیا۔

اگر محترمہ کی شہادت سے پہلے کے انتخابی حالات کا بغور جائزہ لیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ق بہت آسانی سے اقتدار حاصل کرلیتی اور مسلم لیگ ق کس نے بنائی اور کیوں بنائی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔سیاست سے وابستہ ہر شخص اس کے پس منظر سے بخوبی آشنا ہے۔معاملات سنجیدہ سیاسی جماعت کے ہاتھ میں آئے توامید پیدا ہوگئی کہ شائد اب کی بار پائیدار جمہوریت کے زریعے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرلیا جائےگا۔

یہ امید کیوں پیدا ہوئی تو اس کی دلیل یہ ہے کہ 2007 میں میثاق جمہوریت پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے دستخط ہوچکے تھے۔جمہوری حکومت قائم ہوچکی تھی۔ 18ویں ترمیم آچکی تھی اورجنرل مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی نئے آرمی چیف نے سول اداروں کے فوجی سربراہان کو واپس بلا لیا تھا۔فوج اور جمہوری حکومت کے مابین خوشگوار تعلقات سے اندازہ کیا جانے لگا کہ شائد اب سول سپریمسی کا دور شروع ہوگیا ہے اور عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔

مگر ایسا نہیں تھا ہنوز دلی دور است کی طرح سول سپریمسی کی منزل کافی دور تھی۔اکتوبر2011 میں مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ کرا کے ملکی سیاست کا رخ اپنی مرضی سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک منظم انداز میں تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی۔سیاسی جماعتوں اوران کے قائدین کی کردار کشی کرکے انقلاب لانے کی کوشش کی گئی ۔

تاہم پہلی کوشش میں کامیابی نا مل سکی اور 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اقتدار مل گیا۔اس بار منتخب حکومت کوزیادہ مہلت نہیں دی گئی اور 2014 میں عمران خان کی اپوزیشن شروع ہوئی اور 2018 کے عام انتخابات تک جاری رہی۔

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

طاقت اور اختیار کی اس باہمی چپقلش میں ہر چال قیامت کی چلی گئی ہر مہرہ شاہ مات کی غرض سے چلا گیا۔میمو گیٹ اسکینڈل سے شروع ہونے والا سلسلہ ڈان لیکس سے ہوتا ہوا پانامہ پر آن رکا۔ترکش کا آخری تیر بھی چلا دیا گیا۔2018 کے عام انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کے مضبوط امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔

پارٹی ٹکٹ واپس کراے گئے۔دھونس ، جبر اور خوف کی فضا میں امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا مگر پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نا ہوسکے۔اور اتحادیوں کے تعاون سے اقتدار ہم خیال اور پسندیدہ ترین کو سونپ دیا گیا

اقتدار کبھی بھی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں رہا اور یہی کچھ 2018 میں نومنتخب حکومت کے ساتھ ہوا۔زمینی حقائق سے دور تصوراتی دنیا میں طلسمی دعووں اور پرکشش وعدوں کی تکمیل کا جب مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ نا تو وسائل دستیاب ہیں نا ہی مسائل کی دلدل سے نکالنے والی ٹیم موجود ہے اور نا ہی کوئی ویژن ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ بے ربط ،بے سمت اور منتشر الخیال طرز حکمرانی سے مہنگائی ، بے روزگاری اور سیاسی اضطراب میں اضافہ ہونے لگا۔سادہ الفاظ میں یہ کہ حکومت عوامی امنگوں کے مطابق ڈلیور نہیں کرپائی۔

وجوہات جو بھی ہوں مگر انتخابی تقاریر میں خواہشات کا جو ہمالیہ کھڑا کیا گیا وہ زمین بوس ہونے لگا۔ان دگرگوں حالات میں اپوزیشن جماعتیں باہر نکلیں اور ایک بار پھر سول سپریمسی ، رول آف لا، پارلیمان کی بالادستی کا نعرہ لگایا۔پی ڈی ایم اے کے نام سے اتحاد بنا اور ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کا شیڈول جاری کیا گیا اور شیڈول کا آخری جلسہ 13 دسمبر کو لاہور میں کرنے جارہی ہے ۔

اکتوبر 2011 کے تحریک انصاف کے جلسے کے 9 سال بعد اسی مقام پر ایک اور جلسہ ماضی میں کیئے گئے مطالبات اور الزامات کے ساتھ ہوگا ۔مطلب یہ کہ کم سے کم ایک دہائی تک یہ قوم ایک دائرے میں گھومتی رہی حالات تبدیل نہیں ہوے۔ان دس سالوں کا الزام کس پر عائد کیا جائے۔

اگرالزامات کی بات کی جاے تو پی ڈی ایم کے الزامات ماضی کے اپوزیشن رہنما عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے زیادہ سنگین ہیں۔جو کچھ 13 دسمبر کے جلسے میں کہا جائے گا اس کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کی 11 سیاسی جماعتیں اداروں کے آئینی حدود میں کام کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔

عوام کے حق حاکمیت اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کررہی ہیں۔قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کچھ ایسا غیر قانونی بھی نہیں کہ اس پر توجہ نا دی جائے۔طاقت کے مراکز کو ان مطالبات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کہیں ایسا نا ہوکہ وقت کے گذرنے کے ساتھ یہ مطالبات عوامی سطح پر دہراے جائیں اگر ایسا ہوا تو ان مطالبات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

مریم نواز شریف 13 دسمبر کے جلسہ کے لیے لاہور کی سڑکوں پر نکلیں تو لاہوریوں نے بھرپور ساتھ دے کر ایک بار پھر ثابت کیا کہ لاہور میں ن لیگ کی مقبولیت تاحال برقرار ہے۔بلاول بھٹو زرداری جاتی عمرہ پہنچے اور ایک بار پھر مریم نواز کے ساتھ مل کر سول سپریمسی کے عزم کااعادہ کیا۔

اور پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کے اداروں کو عوام کا حکم ماننا پڑے گا۔عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔مولانا فضل الرحمن کے مطابق آئین کو بالادست تسلیم کرنا پڑے گا۔اختر مینگل، اسفند یار ولی سمیت دیگر قومی رہنماوں کے مطالبات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

سول سپریمسی، عوام کے حق حاکمیت اور اداروں کی آئینی حدود میں کردار کی یہ جنگ پہلے فیز کے بعد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔حکومت کی نااہلی کے سبب عوام ایک بارپھر ان مطالبات پر اپوزیشن کا ساتھ دے رہی ہے اگر ایسے میں اپوزیشن نے کوئی بیچ کا رستہ تلاش کیا تو یاد رہے کہ پھر قومی سیاست میں ان کو کوئی راستہ نہیں ملنا۔

اس لیے پی ڈٰی ایم کو اپنے بیانیے کے ساتھ مخلص ہونا پڑے گا۔کیونکہ جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں مذاکرات نہیں ہوتے ہار یا جیت ہوتی ہے۔رہی بات 13 دسمبر کے لاہور کے جلسہ کی تو لکھ لیں یہ بہت شاندار جلسہ ہوگا۔ایک بار پھر لاہور نکلے گا اور بھرپور نکلے گا۔
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

%d bloggers like this: