ھر طرح کے تشدد سے محفوظ رھنے کیلئیے لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم ضروری ھے ۔۔۔
تحریر ۔
آفتاب نواز مستوئی
جام پور ۔۔۔
تعلیم کاحصول ھر مذھب میں جائز ھے جبکہ اسلام ایک ایسا مذھب ھے جسمیں حصول تعلیم کو ھر مرد عورت پر فرض قرار دیا گیا ھے ۔
اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق معیاری تعلیم کا حصول ھر انسان کا بنیادی حق ھے
بلکہ دور حاضر میں اسکی بنیادی ضرورت ھے کیونکہ تعلیم کسی بھی ملک وقوم اور معاشرے کی ترقی کی ضامن ھے تعلیم وہ واحد کنجی ھے جو انسانی شعور کے بند دریچوں کے قفل کھول دیتی ھے
اور اسی سے ھی انسان کی سوچ وفکر پروان چڑھتے ھیں جس سے قوموں کے مسقبل کی راہ متعین ھوتی ھے
تعلیم جہاں انسان کی بہتر کردار سازی میں مدد گار ثابت ھوتی ھے وھاں اس سے ھی انسان کی جسمانی و ذھنی نشو و نما ھوتی ھے ۔شومئی قسمت اس مملکت خداداد پاکستان کے قیام کو 73 سال ھو گئے
مگر آج تک یہ ملک انگریزی سامراج کے بنائے ھوئے طبقاتی نظام تعلیم سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکا جسکے باعث لوگوں کے احساس محرومی میں اضافہ ھوا
اور عام آدمی کیلیے معیاری و اعلی ا تعلیم کا حصول مشکل ترین سے ناممکن بن گیا ساتھ ھی ساتھ مردانہ حاکمیت کا معاشرہ تشکیل پاتا چلا گیا مملکت کے تمام اداروں میں صنفی امتیازات کو تقویت ملی کمزور طبقہ بالخصوص خواتین
جوکہ پہلے سے مروجہ جاھلانہ و فرسودہ رسومات ورواجوں کی بھینٹ چڑھی ھوئی تھیں مزید تاریکی کے عمیق گڑھوں میں گرتی چلی گئیں
پھر وٹہ سٹہ ‘ کم عمری کی شادیوں بے جوڑ شادیوں ‘ذھنی و’ جسمانی تشدد ونی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا شکار عورت جنسی حراسمنٹ اور جنسی تشدد کا
نشانہ بننا شروع ھو گئی قانون ساز اداروں اور با اختیار اداروں میں خواتین کی موثر اور برابری کی بنیاد پر نمائندگی نہ ھونے کے باعث بھی مرد کے تمام تر مظالم کا نشانہ خواتین چلی آرھی ھیں
بے شک ھر دور حکومت میں سول سوسائٹی کی مہمات اور دباو کے تحت خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئیے لولے لنگڑے قوانین بنتے رھے مگر
ھر دور اقتدار میں ” فیوڈل لارڈز ” اور سرمایہ داری نظام کے پر وردہ استحصالی طبقہ کی موجودگی نے اول تو قانون پاس ھی نہ ھونے دئیے اور خوش قسمتی سے کوئی قانون پاس ھو بھی گیا
تو اس پر عملدرامد ھی نہ ھونے دیا گیا اور یہی وہ بنیادی وجہ ھے جس سے ملک میں لاقانونیت بد امنی اور جرائم میں نہ صرف اضافہ ھوا
بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے گینگ اس قدر مضبوط ھوئے کہ انہوں نے ڈکیتیوں اور چوری کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی
درندگی بھی شروع کر دی اقصادی بد حالی اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک میں جہاں ڈینگی اور کرونا کی شکل میں وباوں کا دائرہ کار بڑھتا چلا گیا
وھاں جنسی ھوس پرستی اور زیادتی کے واقعات میں بھی آئے روز اضافہ معمول بنتا چلا گیا صورتحال یہ ھے کہ موثر اقدامات نہ ھونے کے سبب
اب ایسے واقعات پر کوئی کاروائی ھی نہیں ھوتی اکثر واقعات کی تو ایف آئی آر بھی درج نہیں ھو پاتی ۔
ان حالات میں ضروری ھے کہ جہاں حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ خواتین بالخصوص بچیوں کو ھر طرح کا تحفظ فراھم کرے وھاں معاشرے کے
ھر فرد کا بھی دینی و اخلاقی فریضہ بنتا ھے کہ وہ اپنی بچیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ان کی تعلیم وتربیت پر بھر پورتوجہ دیں
ھر بچی کو ثانوی یا اعلی ا ثانوی تعلیم حاصل کرنے دی جائے لڑکی کی شادی یا منگنی کسی بھی صورت عائلی قوانین کے مطابق 16 سال سے کم عمر میں نہ کی جائے
اور اس عمر میں پہنچنے تک اسکی تعلیم وتربیت پر تمام تر توجہ مرکوز رکھی جائے اس دوران اور نہیں تو کم ازکم وہ اپنی اعلی ا ثانوی یا ثانوی تعلیم مکمل کر سکے گی
جس سے اسکے شعور کو پختگی ملے گی اور ساتھ ھی ساتھ وہ ھر طرح کے ذھنی جسمانی و جنسی تشدد سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئیے
پر اعتماد شخصیت بن کر ابھرے گی اسی طرح خود لڑکیاں بھی اپنے اندر حصول تعلیم کا شوق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی ھمت وحوصلہ پیدا کریں
اس مقصد کیلئیے بھی سماجی تنظیموں سول سوسائٹی اور تمام اداروں کو باھم مل کر ایک مربوط موثر آگاھی مہم چلانا ھو گی
جبکہ حکومت کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ھوئے ملک بھر میں یکساں نصاب و نظام تعلیم رائج کرنے کیلئے فوری وٹھوس اقدامات کرنا
ھونگے جس کیلئے ضروری ھے کہ سکول سطح کے نصاب کے ذریعے روزمرہ کی بنیادی مہارتوں پر تعلیم دی جائے
جوکہ طلباء و طالبات کو ان کی مخالف جنس کی حساسیت حراساں کرنے و جنسی تشدد سے متعلق قانونی و اخلاقی تربیت میں ممدو معاون ثابت ھو
اسی طرح ثانوی تعلیمی اداروں سے لیکر ءونیورسٹی کی سطح تک بنیادی انسانی حقوق کا باقاعدہ مضمون شامل کیا جائے حکومت لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم کا حق دینے کیلئیے آڑٹیکل 25.A پرحقیقی معنوں میں عملدرامد یقینی بنائے
اور کم ازکم ھر ویلج کونسل ھیڈ کوارٹر پر لڑکیوں کیلئے دور جدید کے تقاضوں سے ھم آھنگ ثانوی تعلیم کے اداروں کا قیام ممکن بنائے
اور پہلے سے موجود اداروں میں تدریسی سٹاف کی کمی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری بنیادی سہولتیں فراھم کرے نیز خواتین کے
تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کا تقرر لازمی قرار دیا جائے
زندگی کے تمام دھاروں میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کیلئیے موثر
قانون سازی کی جائے اور ان قوانین پر عملدرامد کیلئے سخت اقدامات کئیے جائیں ۔۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون