نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میر ظفر اللہ خان جمالی سے وابستہ یادیں ۔۔۔ نصرت جاوید

میر ظفر اللہ جمالی کھلے ڈلے اور منہ پھٹ آدمی ہوتے ہوئے کسی بھی اعتبار سے ’’سازشی‘‘ انسان نہیں تھے۔ اقتدار مگر بہت ظالم شے ہوتا ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیصلہ کر رکھا تھا کہ اب کوئی تعزیتی کالم نہیں لکھنا۔ اسی باعث اپنے ایک بہت ہی محترم سینئر جناب عبدالقادر حسن کی رحلت کی خبر آئی تو بڑی کاوش سے اسے برداشت کرلیا۔ میں انہیں ’’اُستادِ محترم‘‘ پکارتا تھا اور ان کے سہل ممتنع والے ہنر پر کمال کی بابت برسرِ عام حسد کا اظہار کرتا۔ کئی ممالک کے سفر کے دوران میں ان کی ’’ذمہ داری‘‘ ہوجاتا۔ ان کا فراخ دل مجھے مجبور کرتا کہ مہنگے ترین ریستورانوں میں بیٹھاجائے۔ مصر رہتے کہ نیویارک کے مشہور اسٹورز سے میں کوئی برانڈ والی شرٹ ٹائی اور کوٹ خریدوں۔ انہیں میرے ’’سوہنا لگنے‘‘ کی ضد لاحق ہوجاتی۔ ان کی وفات کے بعد مگر خاموش رہا ہوں۔  میر ظفر اللہ جمالی کے ضمن میں البتہ درگزر کی ہمت باقی نہیں رہی۔

ہم دونوں کے مابین بے تحاشہ حوالوں سے ذاتی تعلق بہت گہرا تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں وہ واپڈا کے وفاقی وزیر ہوئے تو تقریباََ ہر دوسرے روز اسلام آباد میں بیگم سرفراز اقبال کے گھر دوپہر کے کھانے پر ملنا لازمی ہوگیا۔ بیگم صاحبہ اپنے ہاتھ سے روٹی کو توے پر سرخ کرنے کے بعد میری پلیٹ میں رکھتیں۔ جمالی صاحب ’’سرداری‘‘ انداز میں اس کی بابت ’’جلن‘‘ کا اظہار کرتے۔ میں انہیں چڑانے کے لئے جنرل ضیاء کی ’’مداح سرائی‘‘میں مصروف ہوجاتا۔

1985 کے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ ہوگئے تو سوال اٹھا کہ جنرل ضیاء کسے وزیر اعظم نامزد کریں گے۔ الٰہی بخش سومرو اور ظفر اللہ جمالی کو موصوف نے اس ضمن میں بہت امید دلارکھی تھی۔ اتفاقاََ پیر صاحب پگاڑا سے ایک ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے محمد خان جونیجو مرحوم کا نام لیا۔ میرے لئے یہ قطعاََ اجنبی شخص تھے۔ جمالی صاحب کو تاہم اطلاع دینا لازمی تصور کیا۔  انہوں نے میری ’’خبر‘‘ کا سرداری رعونت سے مذاق اڑایا۔ بالآخر میں درست ثابت ہوا تو معذرت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ جونیجو حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ضد میں اگرچہ اس کے بعد کئی برس مبتلا رہے۔

جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاء کے تین برس گزر گئے تو 2002 میں ایک اور انتخاب ہوا۔ وزیر اعظم کون نامزد ہوگا والا سوال اس کے بعد دوبارہ کھڑا ہوگیا۔ آئی ایس آئی کے جنرل احتشام نے ان دنوں اتفاقاََ ہوئی ایک ملاقات میں اس حوالے سے مجھ سے ’’مشاورت‘‘ چاہی۔ میں نے عاجزی سے مسکراتے ہوئے بڑھک لگادی کہ ’’آپ‘‘ یعنی عسکری قیادت نے اب کی بار بلوچستان سے کسی شخص کو وزیر اعظم نامزد کرتے ہوئے ’’تاریخ‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظفر اللہ جمالی لہٰذا اس تناظر میں وزیر اعظم ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جنرل صاحب مجھ سے ’’مشاورت‘‘ کا ڈھونگ کیوں رچارہے ہیں۔ مرحوم ہکا بکارہ گئے۔ نہایت سنجیدگی سے پوچھتے رہے کہ ظفر اللہ جمالی والی ’’خبر‘‘ مجھے کس نے بتائی ہے۔ یوں کرتے ہوئے بھول گئے کہ اصل ’’خبر‘‘ تو درحقیقت وہ فراہم کررہے ہیں۔ ان سے ملاقات کے بعد میں نے احمقانہ اعتماد سے اپنے اخبار کیلئے ’’خبر‘‘ لکھ دی کہ بلوچستان میں نسلوں سے آباد ہوئے ’غیربلوچ‘‘ اور سرائیکی بولنے والے جمالی صاحب وزیر اعظم ہوں گے۔ وہ ’’خبر‘‘ چھپی تو جمالی صاحب مجھ سے ناراض ہوگئے۔ وہ ’’سوچ‘‘بھی نہیں سکتے تھے کہ برسوں کا ذاتی تعلق ہوتے ہوئے بھی میں انہیں میڈیا میں ’’مذاق‘‘ کی صورت پیش کروں گا۔ بالآخر وہ نامزد ہوگئے تو معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔

جنرل مشرف ہر حوالے سے ’’جائز‘‘ وجوہات کی بنیاد پر مجھے ناپسند کرتے تھے۔ جمالی صاحب اس تناظر میں میری بدقسمتی سے کامل آگاہ تھے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک دن اپنے ذاتی فون سے رابطہ کیا اور حکم صادر فرمایا کہ میں اپنا پاسپورٹ وزارتِ اطلاعات کے حوالے کردوں۔ اپنے دورئہ امریکہ میں انہوں نے مجھے اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ سنانے کے بعد انہوں نے “I hope you won’t let me down” کہتے ہوئے فون بند کردیا۔

صحافیوں کے غیر ملکی دوروں کے حتمی مدارالمہام ان دنوں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (PID) کے ادریس صاحب ہوا کرتے تھے۔ جمالی صاحب کا فون آنے کے چند گھنٹے بعد وہ میرے گھر آگئے۔ مجھ سے پاسپورٹ طلب کیا۔ ادریس صاحب کو میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جمالی صاحب ’’بادشاہ‘‘ آدمی ہیں۔ انہیں خبر نہیں کہ جنرل مشرف مجھے ان کے ہمراہ امریکہ جانے کی ’’اجازت‘‘ نہیں دیں گے۔ اس ضمن میں میرا خطاب بہت احترام سے سننے کے باوجود ادریس صاحب میرا پاسپورٹ لے کر ہی واپس لوٹے۔ دو روز بعد انہوں نے امریکہ کا ویزا لگ جانے کی خبر سنائی اور سفر کی تیاری کا حکم دیا۔ اسی روز مگر عصرکے قریب وزیر اعظم جمالی کی صدر مشرف سے ملاقات ہوگئی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے ٹی وی سکرینوں پر سلطان راہی والی بڑھکیں لگاتے بقراطِ عصر بھی وہاں موجود تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد جب ملاقات ختم ہوئی تو وزیر اعظم کو رخصت کرتے ہوئے جنرل مشرف نے جمالی صاحب کو بتایاکہ ’’سنا ہے کہ آپ چن چن کر میرے مخالف صحافیوں کو اپنے ساتھ امریکہ لے جارہے ہیں‘‘۔ جمالی صاحب کو ’’پیغام‘‘ مل گیا۔ امریکی ویزہ کی Stamp سمیت میرا پاسپورٹ لوٹادیا گیا۔

ایک Blue Blood خاندانی آدمی ہوتے ہوئے جمالی صاحب نے اس واقعہ کے بعد شرمندگی کے باعث مجھ سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم ایک سفارتی تقریب میں انہیں دیکھ کر میں خود ان کی جانب بڑھا اور نہایت خلوص سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی ’’ذلت‘‘ کا میں انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ وزرائے اعظم کے ساتھ غیر ملکی سفر سے مجھے ویسے بھی گھن آتی ہے۔ ’’اچھا ہوا جان چھوٹی‘‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے گلے لگالیا۔

میر ظفر اللہ جمالی کھلے ڈلے اور منہ پھٹ آدمی ہوتے ہوئے کسی بھی اعتبار سے ’’سازشی‘‘ انسان نہیں تھے۔ اقتدار مگر بہت ظالم شے ہوتا ہے۔ بقول ابن انشاء یہ اورنگ زیب جیسے دیندار شخص کو بھی نماز کے علاوہ اپنا کوئی بھائی ’’نہ چھوڑنے‘‘ کو مجبور کر دیتا ہے۔ ایچی سن کالج میں گزارے وقت کی وجہ سے لاہور کے خواجہ احمد طارق رحیم جمالی صاحب کے قریب ترین دوستوں میں شامل تھے۔ موصوف ایک کھلے دل والے ہیں۔ شہرت اگرچہ ان کی یہ ہوچکی ہے کہ ہمہ وقت ’’ان‘‘ کے ایماء پر کوئی نہ کوئی ’’گیم‘‘ لگاتے رہتے ہیں۔

خواجہ صاحب کے ’’اُکسانے‘‘ پر جمالی صاحب نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے امریکہ کی پاکستان میں سفیر نینسی پاول کو اپنے آبائی گائوں میں رات گزارنے کو مدعو کرلیا۔ امریکی سفیر نے وہاں قیام کے دوران جمالی صاحب کے حلقے میں چند ترقیاتی کاموں کے لئے امداد فراہم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ امریکی سفیر کا جمالی صاحب کے حلقے میں جانا ہر حوالے سے ایک غیر اہم اور معمول کی بات تھی۔ جنرل مشرف کو تاہم اس کی بابت شک و شبے میں مبتلا کر دیا گیا۔ انہیں باور کروایا گیا کہ جمالی صاحب امریکہ سے “Direct” ہو رہے ہیں۔ مجھ تک یہ خبر آئی تو دل ہی دل میں جمالی صاحب کی بابت ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والے وسوسے میں مبتلا ہوگیا۔ چند ہی روز بعد خبر آئی کہ جمالی صاحب کے برسوں پرانے دوست اور پاک فوج سے ریٹائر ہوئے ایک نیک نام افسر کو جنہیں وزیر اعظم نے اپنا مشیر بنا رکھا تھا چند بے بنیاد ’’افواہوں‘‘ کی وجہ سے فارغ کردیا گیا ہے۔ میں جبلی طور پر یہ جان سکتا تھا کہ ایسے دوست کو فارغ کرتے ہوئے جمالی صاحب کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ اس فراغت کے چند روز بعد میری چودھری شجاعت حسین صاحب سے ایک سماجی تقریب میں ملاقات ہوگئی۔ میں نے رپورٹروں والی ڈھٹائی سے ان سے استفسار کیا کہ جمالی صاحب کی جگہ کس کو لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہجوم میں وہ خاموش رہے۔ تقریب سے نکلنے کے بعد تاہم انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی گاڑی کی چابی اور موبائل فون ان کے ایک بندے کے حوالے کردوں اور ان کی گاڑی میں بیٹھ کر چودھری صاحب کے F-8 والے گھر تک جائوں۔

گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی چودھری صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ جمالی صاحب کی فراغت والی ’’خبر‘‘ مجھے کہاں سے ملی ہے۔ میں یہ اصرار کرتا رہا کہ میرے پاس’’خبر‘‘ نہیں رپورٹروں والے ’’ٹیوے‘‘ ہیں۔ میرے اعتراف کے بعد البتہ چودھری صاحب نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف اس امر پر قائل ہوچکے ہیں کہ خواجہ احمد طارق رحیم کے توسط سے جمالی صاحب امریکی سفیر سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ انہیں ’’کمزور‘‘ کرنے کی گیم لگائی جارہی ہے۔ چودھری صاحب نے مزید انکشاف یہ بھی کیا کہ انہوں نے جنرل مشرف کو سنجیدگی سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جمالی صاحب ’’ایڈے جوگے‘‘ یعنی سازشی گیم لگانے کے قابل ہی نہیں۔ جنرل مشرف مگر اپنا ذہن بناچکے تھے۔ جمالی صاحب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔

بلوچستان سے نمودار ہوئے ایک کھلے ڈلے اور منہ پھٹ سیاست دان کی بے بنیاد شکوک وشبہات کی بنیاد پر فراغت ہماری حکمران اشرافیہ کے کھوکھلے پن کا بھرپور اظہار تھا۔ جمالی صاحب کو فارغ کرتے ہوئے کسی نے یہ یاد رکھنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ ان کا خاندان بلوچستان کے ان معدودے چند خاندانوں میں سے ایک تھا جس نے قیام پاکستان کے لئے قائد اعظم کا دیوانہ وار ساتھ دیا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ بلوچستان کے ’’علیحدگی پسندوں‘‘ کے خلاف توانا ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اقتدار پر بلاشرکتِ غیرے گرفت کی ہوس ’’بادشاہوں‘‘ کو مگر اندھا اور خود غرض بنادیتی ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی اس کی زد میں آنے کے بعد مرتے دم تک اداس اور رنجیدہ رہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author