ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا غریق رحمت کرے، اکبر اللہ آبادی کی آدھی عمر کلرکوں اور باقی عمر عورتوں پر چاند ماری کرنے میں گزری۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے اکبر کا یہ معروف شعر نہ پڑھ رکھا ہو،
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
اب نہ معلوم اکبر کی مراد کس پردے سے تھی لیکن زمانہ موجود کے مردوں کی عقل پہ جو پردہ پڑا ہوا ہے، وہ مفتی طارق مسعود کا جوش خطابت دیکھ کے سمجھ آیا ہے۔ فرماتے ہیں،
“تم میں سے ہر کوئی تین بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں سے شادی کرلو پھر لاسٹ والی (شادی) میں کنواری سے کرواؤں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ چوتھی شادی میرے ذمے۔ اگر کنواری سے نہ کروائی تو میرا نام بدل دینا”
ممکن ہے آپ کو مفتی طارق مسعود سلمہ سے تعارف نہ ہو۔ بتا دیں کہ 1975 میں پیدا ہونے والے عزیزی طارق مسعود کراچی کے ایک مدرسے سے وابستہ ہیں۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مفتی رشید احمد لدھیانوی سے تلمذ کا فخر رکھتے ہیں۔ رسمی طور پر تفسیر قران کی تدریس کرتے ہیں، خاص شوق اپنی ویب سائٹ چلانا اور فوری مقبولیت کے ہوکے میں نیم مزاحیہ خطبات ارزاں کرنا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ مفتی طارق مسعود پوشیدہ طور پر ایک وسیع وعریض حرم کے مالک ہیں اس لئے بیوہ ہو یا کنواری، غرض صارفین کی ہر نوع کی فرمائشیں پوری کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ غالباً کثرت اولاد کی نعمت بھی چھپر پھاڑ کر برسی ہے۔ جب کھیتیاں بلا تردد متواتر فصل اگلنے میں مصروف ہوں تو کھیت کا مالک کب پروا کرتا ہے کہ فصل پکی کہ نہیں؟ فصل کے ننھے منے پودوں نے سر اٹھانا سیکھا کہ نہیں؟ شائقین اور دیگر کرم فرماؤں کی آتش شوق بجھانے کا انتظام ایسے ہی تو کیا جاتا ہے۔ لڑکی ذات کی ذمہ داری اور اس پہ وقت اور سرمائے کا ضیاع، چہ معنی دارد؟
لیجیے وہ بات جو ہم کرنا چاہتے تھے اور ہم بھولے جا رہے ہیں کہ مفتی موصوف کا ذکر ان کے حواس پہ سوار کنواری لڑکی کے بارے میں ان لن ترانیاں سن کے شروع ہوا۔ چلیے اس لفظ کنواری کو دیکھ لیتے ہیں۔ مترادفات کی فہرست دیکھیے: ان چھیڑ، چیرا بند، بن بیاہی، در ناسفتہ، غنچہ نا شگفتہ، باکرہ، ناکتخدا، دوشیزہ
ارے الجھیے نہیں، ہم بتائے دیتے ہیں۔ مفہوم عام میں وہ لڑکی جو شادی سے پہلے کبھی جنسی عمل سے نہ گزری ہو اور اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد اس کا شوہر ہو۔
اب اس دوشیزگی کو جانچنے کا بھی معاشرے نے ایک پیمانہ قائم کر رکھا ہے اور اس پیمانے کا نام ہے پردہ بکارت ( Hymen)۔ تو بات کچھ یوں بنی کہ وہ جو اکبر اللہ آبادی کو کسی شوخ نے کہا تھا نا کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا تو ہمارے خیال میں وہ یہی پردہ بکارت تھا جسے پھوڑنے کے چاؤ میں مفتی طارق ہی نہیں، ان کی قبیل کے سب چٹے بٹے خود تو باؤلے ہوئے پھرتے ہی ہیں، مسجد کے منبر پہ بیٹھ کے سامنے بیٹھے عقل کے اندھوں کو بھی اپنی کشتی میں سوار کرنے کا شوق ہے۔
یقین کیجیے اگر ہمیں انسانی اعضا کی تفصیل پڑھتے ہوئے کسی عضو سے کراہت محسوس ہوئی تو وہ یہی پردہ بکارت تھا۔ عورت کی اندام نہانی میں پائی جانے والی ایک جھلی جس کا کوئی مقصد نہیں، کوئی افادیت نہیں۔
ابتدائی چاند کی شکل جیسی، اندام نہانی کے ابتدائی حصے میں پائی جانے والی جھلی کی ماہیت مختلف خواتین میں ویسے ہی مختلف ہوتی ہے جیسے آنکھیں ناک اور دہانہ ہر کسی کا جدا جدا ہوتا ہے۔ انتہائی نرم ونازک اور مختصر ہونے سے لے کر سخت اور حجم میں مختلف ہونا قطعی طور پہ نارمل ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی اور کبھی کبھی یہ اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اندام نہانی کے رستے کو سرے سے بند ہی کر دیتی ہے۔
عام طور پہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عورت جو پہلی بار جنسی عمل سے گزرے گی، اس کا پردہ بکارت پھوٹنے سے خون نکلے گا اور یہ اس کے کنوارپن اور پاکیزگی کا ایک ثبوت ہو گا۔ بہت سے ایسے قبیلے آج بھی معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو شادی کی پہلی رات وظیفۀ زوجیت ادا کرنا لازم اور اگلی صبح خون آلود جامہ دیکھ کر ہی دم لیتے ہیں۔ یہ خون آشام دھبے نمودار نہ ہونے پہ کسی معصوم کی زندگی کیسے مصلوب ہوتی ہے، یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔
عرض کرتے چلیں کہ یہ ہر گز ضروری نہیں کہ پردہ بکارت پہلی دفعہ پھوٹنے سے خون کا اخراج ہو، بعض دفعہ یہ جھلی بہت ہی نرم ہوتی ہے سو پھوٹنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جنسی عمل سے پہلے ہی کسی اور سرگرمی میں پھوٹ جائے جیسے گھوڑ سواری، جمناسٹک اور مختلف اقسام کی جسمانی سرگرمیاں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پردہ بکارت موجود ہی نہ ہو۔ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔۔
ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہمیں اس بے ضرر عضو سے نفرت کیوں ہوئی ؟ اس نفرت کے پیچھے وہ گھناؤنے رویے تھے جو عورت کو پردہ بکارت کے ہونے یا نہ ہونے سے پہچانتے ہیں۔
ہم نے بے شمار ننھی منی بچیوں کو ماؤں کی انگلی پکڑ کے اس نیت سے کلینک آتے دیکھا کہ باپ کو پردہ بکارت کی موجودگی کی فکر کھائے جاتی تھی۔ ہم نے کسی بھی حادثے کی صورت میں زخمی اندام نہانی پہ آپریشن کرنے کے بعد والدین کو بچی کے روبہ صحت ہونے کی فکر کی بجائے پردہ بکارت کے بچ جانے کا شکر ادا کرتے دیکھا۔ دوسری صورت میں ہم نے اس سرٹیفکیٹ کا تقاضا دیکھا جو یہ ثبوت فراہم کرے کہ پردہ بکارت حادثے کی صورت میں ضائع ہوا ہے، جنسی عمل کے نتیجے میں نہیں۔ ہم نے بہت سی لڑکیوں کو اس فکر میں مبتلا دیکھا کہ اگر شب زفاف خون کے دھبوں نے بستر کو آلودہ نہ کیا تو کیا ہو گا؟
چلتے چلتے کنوارپن کے شوقین مزاجوں کو ایک خوش خبری تو سناتے چلیں کہ ہم جیسی بری عورتیں جو گائنالوجسٹ بھی ہوں وہ ضائع ہوئے پردہ بکارت کو رفو کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ کنوارپن کے اس “واحد ثبوت” کو ضائع ہونے کے بعد بھی تخلیق کیے جانے کے آپریشن کو Hymenorrhapy کہتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں “پردے کا خاص انتظام ” اور دوسرے الفاظ میں کامیاب شب زفاف!
مفتی طارق سے ایک سوال پوچھنے کو جی چاہتا ہے۔ عورت کے کنوارپن پہ للچائی ہوئی گفتگو کرتے ہوئے کیا مرد کے کنوار پن کا بھی کہیں تذکرہ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
کیا کنواری لڑکی کی یہ خواہش نہیں ہو سکتی کہ اس کی زندگی کا ساتھی بے شمار لڑکیوں کے کنوارپن کی بھینٹ لے کر اس کی سیج تک نہ پہنچا ہو؟
بات اکبر الہ آبادی سے چلی تھی جو ظریفانہ اشعار کہتے تھے۔ ہمیں شعر گوئی کی صلاحیت ودیعت نہیں ہوئی تاہم نثر میں ایسے عاجز بیان نہیں ہیں۔ پردہ بکارت کا ذوق کثیف رکھنے والے مردوں کے ناگہانی انجام سے متعلقہ نثری مطائبات کا ڈھیر لگا سکتے ہیں مگر دقت یہ ہے کہ شریک حیات سے اولین ملن کے لمحات میں پردہ بکارت کی ٹوہ رکھنے کی حس مزاح زائل نہ ہو چکی ہو، ہمیں اس کا یقین نہیں۔ آخر الامر تو اکبر الہ آبادی نے بھی یہی کہا تھا، عقل پہ مردوں کی پڑ گیا۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر