نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کیا ہو گا؟۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

آج کل کئی حلقوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر بحث ہو رہی ہے، یاران مجلس معاملے کے ہر پہلو کو کھنگالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

علی احمد ڈھلوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات آج کے نہیں، مگر آج تک ترکی مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری نہیں رکوا سکا ہے۔

آج کل کئی حلقوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر بحث ہو رہی ہے، یاران مجلس معاملے کے ہر پہلو کو کھنگالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

معروضی حقائق کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، عرب ممالک کے رویوں کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے، فلسطینیوں کی حالت زار کا تفصیل سے نقشہ کھینچا جا رہا ہے، عرب ملکوں نے اسرائیل کے خلاف جو جنگیں لڑیں، زیادہ تر میں شکست ہوئی، ان پر تفصیلی نگاہ ڈالی جا رہی ہے، امریکا اسرائیل تعلقات کی بنیادوں پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے، پاکستان کی نظریاتی اساس کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر کیا زک پہنچ سکتی ہے۔

اس پر روشنی ڈالی جا رہی ہے، دوسری جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صورت میں ہمارے ملک کو کیا اقتصادی فوائد مل سکتے ہیں، اس کے مثبت پہلوؤں کو سامنے لایا جا رہا ہے، دنیا کی با اثر ترین اسرائیلی لابی پاکستان کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔

اسرائیلی سرمایہ کار اگر پاکستان میں آ گئے، تو کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہودی دانشور ہمارے کلچر پر کس حد تک اثرانداز ہو پائیں گے، وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات آج کل زیر بحث ہیں، میرا خیال ہے کہ اس موضوع اور اس کے تمام پہلوؤں پر بحث ہونا اچھی بات ہے، کیوں کہ جب آپ کسی مسئلے پر درمیان میںاٹکے ہوتے ہیں تو قومی سطح پر بحث و مباحثہ کرانا بہترین عمل ہوتا ہے، اس سے ایک توآپ کو عوامی اور دانشور حلقوں کی رائے کا اندازہ ہوتا ہے، دوسرا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ کے سامنے کئی تجاویز آ جاتی ہیں۔ رہی بات پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کی تو

اس موضوع کو دوبارہ زیر بحث اس لیے لایا جا رہا ہے کیوں کہ گزشتہ ہفتے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں مسئلہ فلسطین کے قابل اطمینان حل تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعض ناقدین جن کا کام ہی موجود حکومت پر تنقید کرنا ہے۔

ان میں سے بعض حلقوں کے نزدیک وزیر اعظم کا یہ بیان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پہلی سیڑھی قرار دیا ہے جسے بعد ازاں پہلے عرب ممالک نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، پھر مشرق وسطیٰ کے ممالک نے، پھر امریکی اخبارات نے اور پھر بھارتی اخبارات نے اسے خوب اچھالا۔ پھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک پریس بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن بحث تو بہرحال چھڑ گئی ہے۔

اس لیے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا نہیں تو اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے پہلے دن سے اسرائیل کو کن وجوہات کی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا تھا۔قارئین اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان کی عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی اور دوستی ، معاشی واقتصادی رشتے، دوسری وجہ دنیا بھر میں سخت گیر مسلم تنظیموں کی جانب سے منفی ردعمل کا خدشہ، جب کہ تیسرا ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے ردعمل کا خوف۔ اب ان تینوں وجوہات میں سے پہلی وجہ عرب ممالک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے جو میرے خیال میں اب ختم ہو جانی چاہیے۔

کیوں کہ کئی بڑے عرب اور غیر عرب مسلم ممالک جن میں ترکی، متحد ہ عرب امارات، اردن، بحرین، مصر جیسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جب کہ دوسری اور تیسری وجوہات بھی اب بہت پیچھے رہ گئی ہیں اس لیے بادی النظر میں ایسی کوئی Solid وجہ نظر نہیں آتی ۔

ایک اور بات قابل غور ہے کہ مسلم ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے؟ عالمِ اسلام میں اسرائیل کے حوالے سے دو گروپس ہیں، ایک جانب ترکی، مصر اور اردن اور اب متحدہ عرب امارات و دیگرہیں، جنھوں نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اقتصادی تعلقات بھی ہیں۔ دوسری جانب شام، عراق، سعودی عرب، ایران و پاکستان وغیرہ آتے ہیں۔ شام اور عراق کی اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگیں ہو چکی ہیں۔ ایران بھی بالواسطہ اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کررہا ہے۔ پاکستان اور دور پار کے دیگر اسلامی ممالک کا کردار عموماً اقوامِ متحدہ میں زبانی جمع خرچ ہی ہے۔

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات آج کے نہیں، مگر آج تک ترکی مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری نہیں رکوا سکا ہے۔ رہی بات مصر کی، تو اسرائیل کے لیے غزہ کا محاصرہ مصر کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جنگ کر کے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور نہ ہی تعلقات قائم کر کے ان کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑ رہا ہے۔

عالمی تعلقات قومی مفادات پر مبنی ہونے چاہئیں۔ اب دو ممالک کے مابین دوستی اور دشمنی کا تعین ان کے باہمی مفادات کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو بھی جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی کی طرف آنا ہوگا۔ وہ عرب ممالک جن کی اسرائیل کے ساتھ دیرینہ دشمنی تھی اور موجود بھی ہے اور اس دشمنی کا جواز بھی موجود ہے ، ختم نہیں ہوا، آج اگر وہ آج اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر رہے ہیں تو یہ بدلے ہوئے حالات کا نتیجہ ہے کیونکہ آج کی دنیا تبدیل ہونے کے فیز میں داخل ہوگئی ہے ۔

یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی رشتے قائم کر رہے ہیں۔ مواصلات، ٹیکنالوجی، صحت عامہ، توانائی، ماحولیات یہاں تک کہ سیکیورٹی کے امور پر بھی معاہدے کر رہے ہیں، توایسے حالات میں پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرنی چاہیے۔

اس کے لیے فوری طور پر ایک ایسا تھنک ٹینک جو ہمارے سابق ماہرین امور خارجہ پر مشتمل ہو، تشکیل دینا چاہیے، جو فوری فیصلہ کر سکے کہ آیا اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ کیوں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ جذبات میں آ کر اپنا نقصان کرنے کی۔

About The Author