حاجی پورشریف
( ملک خلیل الرحمن واسنی)
کوہ سلیمان کے دامن میں علاقہ پچادھ بنیادی سہولیات سے محروم ،بے بس و مجبور انسان جانوروں سےبھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور،
انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں،بجلی،پانی،صحت،تعلیم،مواصلات،روزگار زندگی کی سہولیات کی عدم فراہمی سوالیہ نشان،
درہ کاہا،چھاچھٹر،سوری،پتوخ پرسمال ڈیمز کی تعمیر خواب،سیلابی ریلوں سے بچائو کے لئے ہر دور میں کروڑوں کے فنڈ زمیں برد یا فائلوں کی نذر،سابق کمشنر ڈیرہ نسیم صادق ترقی کے لئے کوشاں تھے مگر..؟
سطح سمندر سے 5 ہزار فٹ سے زائد بلندی پرواقع صحت افزاء مقام کوہ ماڑی کے لئے بھی کچھ نہ ہوسکا،
کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کادائرہ کار بڑھانے،پچادھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی،ماڑی کیڈٹ کالج کے قیام کا بھی مطالبہ
ضلع راجن پور جوکہ پنجاب کا آخری ضلع ہے اور اسکی سرحدیں ضلع ڈیرہ غازیخان صوبہ بلوچستان،صوبہ سندھ،ضلع مظفرگڑھ،بہاولپور،
رحیم یارخان سے جا ملتی ہیں مین انڈس ہائی وے سے چند کلومیٹرز کے فاصلے پر مغرب کیطرف علاقہ پچادھ اور 60 سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر چھمبڑی کے مقام سے
صوبہ بلوچستان کی سرحد شروع ہوجاتی ہے مگربدقسمتی سے ہر دور میں نظر انداز ضلع راجن پور تحریک انصاف کے تین سالہ دور اقتدار میں بھی ترقی کے لفظ سے بھی محروم ہے
اور لغاری،مزاری،دریشک،گورچانی سرداروں کی اپنے ذاتی مفادات سے ہٹ کر بظاہر سیاسی مخالفت اوراختلاف برائے اختلاف کی سیاست کے پیش نظر
میگا پراجیکٹس سے محروم علاقہ پچادھ جوکہ تھوڑی سی توجہ اور ترقیاتی کا موں سے ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کیساتھ ساتھ قدرتی حسن،
معدنی وسائل سے مالا مال ہے سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی کا آبائی گھر تمن گورچانی جہاں بنیادی سہولیات زندگی کا انتہائی فقدان ہے
حالانکہ برصغیر پاک وہند میں داخلے کے لئے یہ علاقہ اپنے اپنے عہد کے سلاطین،جنگجوئوں،سپہ سالاروں اور قافلوں کی گزرگاہ رہا ہے،
قلعہ ہڑند جسمیں کئی عہدوں کی تاریخیں ، ثقافتیں اورعہد دفن ہیں مگر ستم ظریفی کہیں یاستم بالائے ستم ان سب چیزوں کوجان بوجھ کرنظر انداز یا انتہائی پسماندہ سرائیکی
وسیب ہونے کی سزا دیجارہی ہےاور بزدار حکومت بھی بارہانشاندہی کے باوجود نظر انداز کررہی ہے
حالانکہ محکمہ آثار قدیمہ اسطرف توجہ دے کر تاریخ رقم کر سکتی ہے. فورٹ منرو سے لیکر کشمور تک کوہ سلیمان کے دامن میں علاقہ پچادھ انتہائی زبوں حالی کا شکارہے،جہاں بنیادی انسانی ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کا آج بھی
فقدان ہے بہتر روزگار اور سازگار ماحول نہ ہونے کے سبب انسانی زندگیاں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی، مال مویشی پالنا ہے سخت سردیوں میں جینا اور بھی دشوار ہوجاتا ہے.
جہاں صحت، تعلیم، روزگار، رابطہ سڑکیں،ایک خواب ہیں انسانوں اور جانوروں کے علاج معالجے کے لئے نہ ہی ہسپتال ہیں اور نہ ڈسپنسریاں اور صحت و تعلیم کی سہولیات کے حصول کے لئے بھی پیدل کئی کئی میلوں کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی
سہولیات نہیں مل پاتی ہیں سابق صدر مرحوم فاروق لغاری کے دور حکومت سے مڑنج ڈیم کی تعمیر آج بھی التواء کاشکار ہے،
درہ کاہا،چھاچھٹر،سوری،پتوخ پرسمال ڈیمز کی تعمیر سے سالانہ کروڑوں کیوسک قدرتی پانی محفوظ کر کے علاقہ پچادھ کیساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو سیراب کر کے زیرکاشت لاکرزرعی اجناس کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے.
ششماہی داجل کینال جسمیں سہ ماہی بنیاد پر فصلوں کی سیرابی اور جانداروں کو پینے کا پانی بھی احتجاج کے بعد مہیاء کیاجاتا ہے
انکی بدولت سالانہ بنیاد پر اور وافر مقدار میں زرعی، انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانی فراہم کیا جاسکتا ہے، ہزاروں خاندانوں کو معاشی مدد کیساتھ ملکی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے.اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان وفاقی وزیر آبی ذخائر ،وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار،
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور،چاہیں تو خدمت خلق کے جذبے کے تحت بہت اہم کردار اداکرسکتے ہیں،
کمشنر ڈی جی خان ، ڈپٹی کمشنر راجن پور چاہیں تو اس حوالے سے فزیبلیٹی رپورٹ بناکر دنیا و آخرت کی بھلائیوں ،
صدقہ جاریہ اور علاقہ کی تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں آبی ذخائر سےسستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے.دنیا کے بہترین نہری نظام میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے.
اہل علاقہ کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیساتھ ساتھ پانی کے جوہڑوں کی بجائے واٹر فلڑیشن پلانٹس،
ٹوٹی پھوٹی اور گڑھوں میں تبدیل سڑکوں کو دو رویہ اور بہترین شکل دیجاسکتی ہے،صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کیوجہ سے زچہ و بچہ کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہے
جو ان گنت لقمہ اجل بن جاتی ہیں.پن بجلی،سولر سسٹم اور ونڈ مل سےسستی بجلی پیدا کر کے اہل علاقہ کے معیار زندگی کو بہتر کرنےاور سیرو سیاحت کے مراکز قائم کر کے
مری کی طرز پر ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی آمد کو یقینی بناکر اہل علاقہ کو روزگار کے بہترین مواقع پیدا کیئے جاسکتے ہیں.
معدنی وسائل سے مال علاقے میں سیمنٹ فیکٹری کےقیام سے معاشی ترقی اور بہتر معیار زندگی کے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں.
ماڑی کیڈٹ کالج کے قیام اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی سے جہالت و پسماندگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے.
جس سے اس علاقے میں مزید ترقی کی راہیں ہموار کیجاسکتی ہیں.جوکہ حکومت وقت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے.اس حوالے سے اہل علاقہ کا ” ڈیلی سویل ” کے توسط سے بھر پور مطالبہ ہے کہ
کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹیکا دائرہ کار بڑھایا جائے یا پچادھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لاکر ایڈوانس ڈویلپمنٹ پروگرام میں اس علاقے کی بہتر تعمیرو ترقی کےلئے
بھاری فنڈزمختص کر کے پسماندگی کے خاتمے کے کردار ادا کیا جائے اگر یہ ممکن نہیں تو لا ء ان آرڈر کی صورتحال کو بہتر سے بہتر کر کے
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ملکی وبین الاقوامی سرمایہ کاروں کو علاقہ کی مزید بہتری کے لیئے مواقع فراہم کیئے جائیں تاکہ
یہاں کے علاقہ مکینوں کا احساس کمتری اور احساس محرومی ختم ہوسکے.
ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون