محمد شعیب عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری تاج گوپانگ،سرائیکی زبان کے شاعر،مترجم اور شاید ان کی ایک دو کتابیں بھی شائع ہوئی تھیں، سے ملاقات کوئی 2006 (تاریخ کی درستگی دوست کردیں )میں ہوئی تھی جب ارشاد امین نے مجھے پتن منارا کانفرنس کے لیے رحیم یار خان آنے کی دعوت دی۔کانفرنس کے ختم ہونے پر ایک صاحب ملے کہنے لگے شعیب عادل میرا نام تاج گوپانگ ہے اور میں آپ کے رسالے کا پہلے دن سے قاری ہوںوغیرہ وغیرہ اور پھر ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
مئی 2000 میں جب نیا زمانہ شروع کیا تو اس کی سب سے زیادہ پذیرائی سرائیکی بیلٹ، سوات، خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سندھ میں ہوئی تھی۔ مرکزی پنجاب کے لوگوں کے لیے نیا زمانہ کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ کھاتے پیتے لوگ تھے، روزگار تھا اور کوئی محرومیاں نہیں تھیں۔
پتن منارا کانفرنس دن کو رحیم یار خان کے میونسپل ہال میں ہوئی جہاں کچھ لوگوں نے مقالے پڑے اور تقاریر تھیں جبکہ رات کو پتن منارا جو کہ صحرا کے درمیان تھا میں شاعری اور محفل موسیقی کا انتظام تھا۔ شام ہونے سے پہلے میں اور تاج گوپانگ پتن منار ا پہنچے ۔ سورج غروب ہونے کو تھا کہ تاج گوپانگ نے کہا کہ تمھیں صحرا کی سیر کرائیں۔ میں اور تاج گوپانگ پیدل چلے نکلے دور ایک جگہ ایک خیمہ لگا ہوا تھا اور باہر اونٹ کھڑا تھا کہنے لگے چلو تمھیں لوگوں سے ملواتا ہوں۔ آپ ہماری ثقافت کا نظارہ کریں۔ قریب گئے تو کہنے لگے کوئی چائے قہوہ مل ویسی۔
غریب مزدور لوگ تھے بڑی محبت سے کہا کہ بیٹھ جائیں نیچے دری نما چادر تھی خاتون نے چائے بنائی اور تاج گوپانگ شاعری اور علاقے کی باتیں کرتے رہے۔ اٹھتے وقت ان کو کچھ پیسے دیے اور واپس چل دیے۔ اتنے میں صحرا میں رات کے گھپ اندھیرے میں جنریٹر چلنے شروع ہوگئے۔ لائٹیں جل اٹھیں۔ کرسیاں لگ چکی تھیں اور چھوٹا سا سٹیج بن چکا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں منگل کا سماں بن گیا۔ یہ میری زندگی کا ایک منفرد نظارہ تھا اور تمام کی تمام شاعری مزاحمتی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا تھا کہ اس علاقے میں کتنی محرومیاں ہیں اور وہاں کے عوام اس کا اظہار شاعری کے ذریعے کررہے تھے۔ رات گئے یہ محفل ختم ہوئی ۔
تاج گوپانگ اکثر و بیشتر فون کرتے رہتے ، جب بھی لاہور آتے نیا زمانہ کے دفتر ضرور آتے، اکثر رسالے کے لیے مالی مدد بھی کرتے۔ سال ڈیڑھ سال بعد فون آتا تو پوچھتے حالات کیویں ہن۔ میں کہتا گذارہ ہورہا ہے تو کچھ رقم بھجوا دیتے۔ آخری دفعہ شاید 2014 میں پیسے بھجوائے اور فون کیا شاید فالج ہوگیا تھا اس لیے بولنے میں دقّت تھی اور ان کے دوست نے ترجمانی کی۔
جون 2014 میں رسالہ بند ہوچکا تھا اور میرا امریکہ کا ویزہ لگ چکا تھا تو ستمبر 2014 میں ملتان دوستوں سے الوداعی ملاقات کے لیے گیا اور واپس آیا تو صوفی تاج گوپانگ کا فون آیا گلہ کرنے لگے کہ تم ملتان تک آئے تو کچھ آگے بھی آجاتے۔ میں نے بھی دو تین بہانے تراشے معذرت کی تو کہنے لگے۔ ایڈا مطلب ہے ہن ملاقات نہ ہی تھیسی۔
اور آج فیس بک کے ذریعے اطلاع ملی کہ تاج گوپانگ بھی چلے گئے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ