نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت سمجھنے میں ہمیں وقت لگے گا کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی شکست محض ایک اہم سیاسی واقعہ ہی نہیں تاریخی اعتبار سے ایک طاقت ور ’’زلزلہ‘‘ بھی ہے۔ اس کے ’’آفٹرشاکس‘‘ آنے والے دنوں میں دُنیا کے کئی ممالک میں نمودار ہوتے رہیں گے۔ ہمارے ہمسائے میں مثال کے طور پر بھارت کے تیسرے بڑے صوبے بہار کی اسمبلی کے لئے چنائو کے تمام مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ اب نتائج کا انتظار ہے۔ ممکنہ نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے دریافت ہوجائے گا کہ بھارت میں ہندو انتہاپسندی پر مبنی Populism اپنی کشش کھونا شروع ہوگیا ہے۔ مودی سرکار کی ہم نوائی اور سرپرستی میں نتیش کمار جو ہمارے ہاں ’’گڈگورننس‘‘ کی علامت تصور ہوتا رہا ہے اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہو بھی گیا تو بھی سیاسی اعتبار سے بہت کمزور ہوجائے گا۔ بہار کے بعد بھارتی بنگال کی باری ہے۔ قلیل المدتی تناظر میں وہاں پر بھی فقط بہار ہی نہیں بلکہ امریکہ میں آئے انتخابی ’’زلزلہ‘‘ کے آفٹر شاکس بھی نمایاں نظر آئیں گے۔
اتوار کی رات سے سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ترکی کے ’’سلطان‘‘ اردوان کے داماد نے جو اپنے ملک کا طاقت ور ترین وزیر خزانہ بھی تھا اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اعلان کرنے کے لئے اس نے ایک ٹویٹ لکھا۔ اس کے چند ہی لمحوں بعد مگر اس کا ٹویٹر اکائونٹ Deactivate ہوگیا۔ سرکاری ذرائع نے اس کے استعفیٰ کی بابت یہ کالم لکھنے تک معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ’’استعفیٰ‘‘ بالآخر جو بھی صورت اختیار کرے اس کے مبینہ اعلان نے واضح کردیا ہے کہ ترک معیشت فی الوقت ایک سنگین بحران سے دو چار ہے۔ اس کی کرنسی ’’لیرولیر‘‘ ہورہی ہے۔ اردوان کی جانب سے دکھائے خلافت عثمانیہ کی عظمت کی بحالی کے خواب ترک عوام کو معاشی بحران کے اس موسم میں تسلی دینے کے کام نہیں آرہے۔
ترکی کے علاوہ ایک اہم ملک تھائی لینڈ بھی ہے۔ آج سے چار سال قبل وہاں کی فوج نے 16 ویں بار ایک جمہوری حکومت کو فارغ کیا تھا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اس ملک کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرواتے ہوئے وہاں کے عسکری اداروں کی ’’سیاسی مداخلت‘‘بطور ’’حق‘‘ تسلیم کرلی گئی۔ جس آرمی چیف نے جمہوری حکومت کو گھر بھیجا تھا اب اس ملک کا ’’جمہوری‘‘ طور پر ’’منتخب‘‘ ہوا وزیر اعظم ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے مگر تھائی لینڈ میں طالب علموں کی ایک بہت ہی توانا تحریک شروع ہوچکی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں بنکاک کے اسلام آباد کی ڈی چوک جیسی شاہراہ پر مظاہرین کثیر تعداد میں جمع ہورہے ہیں۔ وہاں Street Theater کے ذریعے فقط زور زبردستی سے قائم ہوئی حکومت ہی ’’جگتوں‘‘ کی زد میں نہیں آرہی۔
شاہی خاندان کا بھی بے دریغ انداز میں تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ تھائی لینڈ کے مخصوص ثقافتی تناظر میں ایسی ’’انہونی‘‘ کوئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنے والد کی ایک بین الاقوامی ادارے میں تعیناتی کے سبب میری بیوی نے بنکاک میں چھ سال گزارے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں تین بار مجھے صحافیوں کی چند ورکشاپس میں حصہ لینے اس ملک جانا پڑا۔ میں جب بھی سفر کے لئے ایئرپورٹ روانہ ہوتا تو میری بیوی انتہائی سنجیدگی سے مجھے یاد دلاتی کہ تھائی لوگ اپنے بادشاہ اور اس کے خاندان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان سے بات چیت کرتے ہوئے لہٰذا مجھے اس موضوع پر گفتگو سے ہر صورت پرہیز کرنا ہوگا۔ صحافیانہ تجسس سے مجبور ہوکر مگر میں نے اس موضوع پر گفتگو کی ہمیشہ کوشش کی۔ بات شروع کرتے ہی مگر سمجھ آجاتی کہ اس ضمن میں ’’پھکڑپن‘‘ سے احتیاط برتنا ہوگی۔ عالمی اخبارات و جرائد میں لیکن اب بنکاک میں جاری Street Theater کی تفصیلات بیان ہورہی ہیں۔ ان میں سے چند تفصیلات کا حال ہی میں تھائی ثقافت کے ایک جید و مستند ماہر نے نیویارک ٹائمز کے لئے لکھے ایک مضمون کے ذریعے جائزہ لیا ہے۔
تھائی لینڈ کا شاہی خاندان ’’ظل الٰہی‘‘ شمار ہوتا ہے۔ اسی باعث شاہی خاندان اور دربار کے ’’تقدس‘‘ کو برقرار رکھنے کے لئے چند ایسی روایات پر عمل کیا جاتا ہے جو درحقیقت بدھ مت کی مذہبی رسوم کے لئے مختص رہی ہیں۔ سلاطین اور مغلیہ دور میں ہمارے ہاں ’’کورنش‘‘ کی رسم ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ کے روبرو آپ حالتِ رکوع میں چلے جاتے تھے۔ تھائی دربار میں لیکن دورِ حاضر میں بھی آپ زمین پر لیٹ کر حاضری دیتے ہیں۔ شاہی خاندان کے کسی فرد کی جانب نگاہ بھی نہیں اٹھاتے۔ بنکاک میں جاری Street Theater کے دوران مظاہرین شاہی خاندان کے نمائندہ دِکھتے کسی کردار کو دیکھ کر بھی زمین پرلیٹ جاتے ہیں۔ اس کی جانب نگاہ نہیں اٹھاتے۔
تمسخر اڑاتے ’’خاکے‘‘ کا کردار مگر اتنا مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ اس کی حرکات وسکنات اور ادا کردہ فقرے زمین پر اوندھے منہ لیٹے حاضرین کو قہقہے لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ قہقہے مگر احتجاج کا بھرپور اظہار ہیں۔ تھائی عوام اس کے ذ ریعے اپنی بے بسی کا اعتراف تو کر رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ’’بہت ہوگئی‘‘والا پیغام بھی دے رہے ہیں۔ تھائی لینڈ کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے ماہرین طے نہیں کر پا رہے کہ اس ملک کی ’’مقتدرہ‘‘ کب تک اس ’’بیہودگی‘‘ کو برداشت کرپائے گی۔
ٹرمپ کی شکست کی جانب لوٹیں تو امریکہ میں بھی حقیقی مزاحمت کی لو درحقیقت ان ’’مسخروں‘‘ نے جگائی رکھی جو طنز ومزاح پر مبنی ٹاک شوز کے میزبان تھے۔ CNBC کا سٹیفن کولبرٹ Stephen Colbert اس ضمن میں نمایاں ترین رہا۔ The Daily Show کے Trevor Noah نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کے کئی بہت ہی مہنگے اداکار SNL نامی پروگرام میں نسبتاََ کم معاوضے پر ٹرمپ کی بھد اُڑانے کو ہمیشہ دستیاب رہے۔ ٹرمپ اسی باعث اپنے میڈیا کو روزانہ کی بنیاد پر ’’عوام دشمن‘‘ پکارتا رہا۔ اس کی بدقسمتی مگر یہ رہی کہ امریکہ میں پیمرا نام کا ادارہ موجود نہیں۔ وہ امریکہ کی ٹی وی سکرینوں کو ’’تخریب کاروں‘‘ سے نجات نہ دلواپایا۔
اس کے ’’یار‘‘ نریندرمودی نے مگر بھارتی میڈیا کو سیدھا کردیا تھا۔ اس کے باوجود بھارتی شہریت والے قانون کے خلاف جامعہ ملیہ کے طلبہ اور طالبات نے 2019 کے اگست میں مزاحمت میں پہل کاری دکھائی تو دلی کے قلب میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ کرونا نے اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا۔ وائرس سے گھبرا کر نریندر مود ی نے مگر جب عجلت میں وحشیانہ لاک ڈائون کا فیصلہ کیا تو نام نہاد Mainstream Media کے بجائے یوٹیوب کے ذریعے اظہار کی راہ ڈھونڈنے والے برکھادت صحافیوں نے قابل رشک لگن کے ساتھ ان دیہاڑی داروں کے کرب کو بیان کیا جو رزق کے دروازے بند ہونے کے بعد قافلوں کی صورت اپنے آبائی قصبات کو لوٹنے کے لئے تین سے چار دنوں تک پیدل سفر کررہے تھے۔
مقبوضہ کشمیر پر 5 اگست 2019 کے روز مسلط ہوئے لاک ڈائون کی وحشت و بربریت کو بھی ایسے ہی یوٹیوب صحافی دنیا کے روبرو لائے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کی چند ہندو خواتین اداکاروں نے بھی قابل ستائش کردار ادا کیا۔ دنیا بھر میں حکمران اشرافیہ کے بارے میں جو سوالات انتہائی برجستہ مگر تخلیقی انداز میں اٹھائے جارہے ہیں پاکستان میں بھی ان کا نمودار ہونا لازمی ہے۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصا ف نے سوشل میڈیا کو کمال ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے اپنے بیانیے کو فروغ دیا تھا۔ منیرؔ نیازی نے تخلیقی جذب کے ایک حیران کن لمحے میں ’’سپنے‘‘ کی بھی ’’حد‘‘ دریافت کرلی تھی۔
’’سپنے‘‘ کی طرح ’’بیانیے‘‘ کی بھی ایک ’’حد‘‘ ہوتی ہے۔ انتہائی ذہین و فطین Spin Doctor بھی اسے پار کرہی نہیں سکتا۔ اقتدار مل جانے کے بعد حکمرانوں کے لئے نون میم راشد کی بیان کردہ ’’خواب لے لو خواب‘‘ والی سہولت میسر نہیں رہتی۔ خلقِ خدا کے روزمرہ مسائل کا ٹھوس حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا مگر نظر نہیں آرہا۔ ’’بیانیہ‘‘ ہمارے ہاں اب نئی صورتیں اختیار کرنے کو مجبور ہورہا ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان اور جناب شہباز گِل صاحب ابھرتے ’’بیانیے‘‘ کی راہ روک نہیں سکتے۔ بہتر یہی ہوگا کہ قواعد وضوابط کا احترام کرتے روایتی میڈیا کو ہمارے عوام کے دِلوں میں اُبلتے جذبات کے مناسب اظہار کی گنجائش فراہم کردیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر