فداعلی شاہ غذری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مس کیلکولیشن یعنی غلط اعداو شمار کسی بھی حساب کے نتائج کی شکل بگاڑ دیتا ہے۔ ہمارےہاں دشتِ سیاست کے کھلاڑی ہمیشہ مس کلیکولیشن کے نتیجےمیں اپنی سیاسی بصیرت اور مستقبل کھو دیتے ہیں۔ میں اسی تحریر میں اُن تمام حضرات کو سیاسی کہتا ہوں جو اس شعبے کو روزگار سمجھ کر یا پھر ممبر اسمبلی بننے کو عزت سمجھ کر طالع آزمائی کرتے ہیں۔ سیاسیات میں شاید سیاست کا نقشہ کچھ اور درج ہو مگر ہمارے معاشرے کے طالع آزماوں کے پاس اس دشت کا یہی نقشہ و منظر ہے۔ اسی طرح اسی شعبے سے منسلک عزت کا قصہ بھی عجیب ہے۔ عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کا دعویدار تمام اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے بھی عزت دار کہلاتا ہے۔
درجہ بندی کے لحاظ سے دشتِ سیاست کا ہر مسافر اپنا الگ مقام رکھتا ہے ، عزت، سیرت اور بصیرت کی بھی الگ داستانیں ہیں یوں کسی بُرے شخص کو بنیاد بناکر سب کو ایک حمام کے ننگے سمجھنا بھی غلط ہوگا۔ مگر میں اس دعوے پر قائم ہوں کہ راہِ سیاست کے ہر مسافرمیں ایک قدر مشترک ہے ان سب کو منزل کے پُرکھٹن راستے ہمیشہ آسان لگتے ہیں اور دو قدم چل کرہی مس کلیکو لیشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اسی مس کلیکولیشن کا نتیجہ دوبارہ سر اُٹھانے کے قابل نہیں رکھتا اور بڑے مہان لوگ جو طالع آزما بن کر آتے ہیں وہ کان پکڑ کر توبہ کر لیتے ہیں کہ ابو کے تائے کے دادے کے ماموں کے ووٹ کو اپنے صندوق میں سمجھنا بظاہر کتنا مشکل ہے اور صندوق کو خالی پا کر ایک نظر اپنی جیب اور اُمید کے شجر کی شاخوں پر اُگے قرضوں کے سود پر دوڑائی جائے تو تب اس” محترمہ مس کلیکولیشن” کی سمجھ آتی ہے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
مسلہ ایک اور بھی ہے کہ اس فارمولے کو سمجھنے والے سمجھانے لگ جاتے ہیں تو ان صاحبان کو اتنا غصہ آتا ہے کہ فقط آگ کا شعلہ بن جاتے ہیں اور یہ موقع ہوتا ہے کہ اُستاد بچے کی شکست کو سمجھ کر ہر بات پر تجاہل عارفانہ رویہ اپنا لیتا ہے پھر چشم فلک کے سامنے اپنے فیصلوں سے ہارنے والے شخص کو سنبھلنے میں عرصہ لگتا ہے۔ صرف یہی نہیں اس کے بعد غلط فیصلوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔میں اسی تحریر کی وساطت سے دشت سیاست کے مسافروں کو یہی کہوں گا آپ کا دوست اور ووٹر وہ ہے جو آپ کے کھیل کو سست اور مقابل کے کھیل کو سخت قرار دے تاکہ آپ کی منصوبہ بندی میں تبدیلی اور سستی پر پھرتی حاوی ہوسکے۔ آپ کا دُشمن وہ ہے جو سب آپ کا کہہ کر جھوٹی تسلی دے۔
خداوند ذاتی مفاد کے پرستار طالع آزماوں کو اس مس کلیکولیشن کو سمجھنے کی توفیق دیں جو گھر کے افراد اور قبیلے کے رشتہ داروں کے دادوں ماموں اور چچوں کو گن کر اپنا وقت اور پیسہ برباد کرلیتے ہیں اور خود سے جُڑے لوگوں کے لئے جمہوری عمل کو جھوٹ اور فریب کا موقع بنا لیتے ہیں۔
یار زندہ صحبت باقی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ