نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری ’’آنے والی تھاں‘‘۔۔۔نصرت جاوید

اس کے ایماء پر ٹرمپ مخالف میڈیا سوال اٹھارہا ہے کہ دنیا کی واحد سپر طاقت ہوئے امریکہ اس تنازعہ سے خود کو لاتعلق کیوں رکھے ہوئے ہے

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹس Notes لینے کا میں عادی نہیں۔ کئی اخبارات کے لئے چند دہائیوں سے جو کچھ روزانہ کی بنیاد پر لکھا ہے اس کا ریکارڈ بھی میرے پاس نہیں۔ کبھی اس گماں میں مبتلا نہیں رہا کہ میں نے آنے والے زمانوں کے مورخین کی آسانی کے لئے ’’ٹھوس مواد‘‘ جمع کررکھا ہے۔ رزق کمانے کی مشقت میں ڈنگ ٹپائو صحافت ہی کی ہے۔ پتھروں میں بند کیڑے کو رزق فراہم کرنے والے ربّ کریم نے لیکن مجھے حیران کن مواقعہ فراہم کئے۔

میں ناشکرا ان کی قدرنہ کرپایا۔ کسی خواہش کے نہ ہوتے ہوئے بھی جو مواقعے عطیٔہ خداوندی کی صورت مجھے نصیب ہوئے ان میں آذربائیجان کے ایک نہیں دو سفر بھی شامل ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں آرمینیا کی وحشیانہ بمباری سے نگورا کاراباغ سے ہجرت کے بعد آذربائیجان میں پناہ گزین ہوئے افراد کی مدد کے لئے ادویات، خیموں اور گرم کپڑوں سے لدا ایک C-17 طیارہ بھیجا گیا تھا۔ ان دنوں کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی حکومتِ پاکستان کی جانب سے اسے پہنچانے کے فریضہ پر مامور ہوئے۔

ان کی خواہش تھی کہ چند صحافی بھی ان کے ہمراہ جائیں تا کہ پاکستانیوں کو آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جاری جھگڑے کے بارے میں آگہی نصیب ہو۔ میں سرکاری وفود کے ساتھ سفر کرنے سے ہمیشہ اجتناب کو ترجیح دیتا رہا ہوں۔ سردار صاحب کو مگر انکار نہ کرپایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی اس سفر سے پہلے قومی اسمبلی میں اچانک ملاقات ہوگئی۔ بڑی شفقت سے انہوں نے حکم صادر فرمایا کہ اخبارات کے لئے چسکہ بھری کہانیاں لکھنے کے بجائے مجھے اپنی صلاحیتوں کو اہم عالمی امور پر توجہ دینے کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔

وہ انتظار کریں گی کہ آذربائیجان کے سفرکی بدولت میں کونسے پہلو اجاگر کروں گا۔ میرے دومرحوم ساتھی -’’مسلم‘‘اخبار کے محمد یاسین صاحب اور ’’ڈان‘‘ کی نمائندہ انجم نیاز- بھی میرے ہم سفر ہوئے۔ بعدازاں بطور صدرِ پاکستان سردار فاروق خان لغاری صاحب نے بھی اس ملک کا دورہ کیا۔ میں اور عامر متین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ آذربائیجان گزشتہ چند دنوں سے دوبارہ خبروں میں ہے۔ اب کی بار اگرچہ پٹائی اس کی نہیں آرمینیا کی ہورہی ہے۔

یورپ کے فرانس جیسے ممالک اس کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔ مغربی میڈیا میں کمال مہارت سے یہ تاثر بھی پھیلایا جارہا ہے کہ ’’خلافت عثمانیہ کے احیاء‘‘ کو بے چین ترکی کا صدر اردوان آذربائیجان کی جارحانہ پیش قدمی کا اصل ذمہ دار ہے۔ پاکستان کو بھی اس تنازعے میں ملوث دکھانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ امریکہ میں آرمینیا کی لابی بہت طاقت ور ہے۔

اس کے ایماء پر ٹرمپ مخالف میڈیا سوال اٹھارہا ہے کہ دنیا کی واحد سپر طاقت ہوئے امریکہ اس تنازعہ سے خود کو لاتعلق کیوں رکھے ہوئے ہے۔ حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلکی اعتبار سے آرمینیا کے قریب تر ہوتے ہوئے بھی پوٹن کا روس اس تنازعے کو رکوانے کے لئے مضطرب نظر نہیں آرہا۔ ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ’’مجاہدینِ اسلام‘‘ اگرچہ آذربائیجان کی مسلسل پیش قدمی پر بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔ عالمی امور کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں مذکورہ تناظر میں ہوئے تازہ ترین واقعات سے گھبراگیا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جاری جنگ بتدریج ایک ایسا Flash Point بھی ثابت ہوسکتی ہے جو عالمی حوالے سے دنیا کو نئی صف بندی کو مجبور کرتے ہوئے اسے تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل سکتا ہے۔

اس خدشے کا جائزہ لینے کے لئے مگر ضروری ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کی تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کو سادہ اور آسان زبان میں بیان کیا جائے۔ اس کے لئے تھوڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔ میں نے چند کتابوں کو ازسرنو پڑھتے ہوئے اس حوالے سے کچھ مواد جمع کیا ہے۔ اسے بیان کرنے کا مگر موقعہ ہی نہیں مل پارہا۔ نواز شریف کے اے پی سی سے 20ستمبر کے روز ہوئے خطاب کے بعد ہماری سیاست میں ہلچل برپا ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے کالموں کے لئے Clicks اور Share کے محتاج مجھ جیسے کالم نگار اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ شاہدرہ کا فرض شناس تھانے دار اگر نواز شریف کے خلاف پاک فوج کے تین سابق جرنیلوں اور آزادکشمیر کے منتخب وزیر اعظم کو شریک جرم ٹھہراتے ہوئے بغاوت کا پرچہ کاٹ دے تو چسکہ بھرا مواد مل جاتا ہے۔

میں اس کے بارے میں پھکڑپن کرتے ہوئے دیہاڑی لگالیتا ہوں۔ آذربائیجان کی بابت لکھنے کی مشقت کیوں اٹھائوں۔ لاہور کے شاہدرہ تھانے میں پرچہ کٹ گیا تو عمران حکومت کے جارح ترجمانوں اور یوٹیوب پر اس کی حمایت میں ڈٹے حق گو صحافیوں کے رویے سے مجھے گماں ہوا کہ آٹھ مہینوں کی طویل خاموشی کے بعد نواز شریف نے اپنی حالیہ تقریروں سے ہماری ریاست اور حکومت کو ’’ریڈ لائن‘‘ کھینچنے پر مجبور کردیا ہے۔  مبینہ طورپر وہ وطن عزیز کو جس خلفشار و ہیجان کی جانب دھکیل رہے ہیں اسے جاری رکھنے کی اب ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

شاہدرہ تھانے میں کٹی ایف آئی آر نے اس گماں کو تقویت پہنچائی۔ میں نے طے کرلیا کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ اور PDM میں موجود ’’تخریب کاروں‘‘ کے خلاف حکومت کی جارحانہ پیش قدمی کی بدولت جو ’’خلا‘‘ پیدا ہوگا اسے آذربائیجان جیسے موضوعات پر لکھتے ہوئے پُرکرنے کی کوشش کروں گا۔ عمران خان صاحب مگر شاہدرہ تھانے میں کٹے پرچے کی بابت ’’ناخوش‘‘ بتائے جارہے ہیں۔ 16اکتوبر کے روز اپوزیشن جماعتوں نے گوجرانوالہ میں احتجاجی ریلی کا اعلان بھی کررکھا ہے۔ صحافیانہ تجسس کا تقاضہ ہے کہ رپورٹر کی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے معلوم کیا جائے کہ محترمہ مریم نواز شریف کو اس جلسے سے خطاب کا موقعہ نصیب ہوگا یا نہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی وہاں پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ اپنے گھر تک محدود ہوئے بھی گزشتہ دو دنوں سے ’’باخبر‘‘ تصور ہوتے صحافیوں اور سیاست دانوں سے ٹیلی فون کے ذریعے مسلسل رابطے میں ہوں۔ عمران حکومت اس ضمن میں مجھے کافی کنفیوز دکھائی دی۔

تاثر اگرچہ یہ بھی ملا ہے کہ عوام کے ’’نبض شناس‘‘ مشہور ہوئے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے ’’حکیم عصر‘‘ کابینہ کے اجلاس میں اس امر پر مصر رہے کہ پرچہ کاٹ دیا گیا ہے تو اس کی مؤثر پیروی بھی کرنا چاہیے۔ اپنے دھیمے مزاج والی شہرت کے برعکس فروغ نسیم صاحب بھی قانون کو ہرصورت بالادست ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کی ریلی کی بابت مگر کوئی حتمی حکمتِ عملی ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر لیکن یوٹیوب کی بدولت اب ایک ’’نیا کٹا‘‘ کھل گیا ہے۔ مختلف النوع جرائم کی بیخ کنی پر مامور ایک ادارے سے افواہوں کے طوفان میں ریٹائر ہونے والے اعلیٰ ترین افسر کے انٹرویو کا تذکرہ ہے۔ روایتی میڈیا اس سے بے اعتنائی اختیار کرتے ہوئے اپنی ’’ذمہ داری‘‘ نبھارہا ہے۔

یہ ذمہ داری مگر سوشل میڈیا ہی پر نمودار ہوئی ایک اور کہانی کی بابت بھی اپنائی گئی تھی۔ 20ستمبر والے خطاب کے ذریعے نوازشریف مگر اسے دھماکے کی صورت منظرِ عام پر لے آئے۔شاید جس انٹرویو کا میں حوالہ دے رہا ہوں اسے بھی روایتی میڈیا بالآخر نظرانداز نہیں کر پائے گا۔ روایتی میڈیا کی جانب سے رواں رکھی ذمہ داری کے باوجود سوشل میڈیا کی بدولت چند سنسنی خیز کہانیوں کے فروغ کا اصل کریڈٹ بالآخر فواد چودھری صاحب ہی کو ملے گا۔ عمران حکومت کے پہلے وزیر اطلاعات کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے روایتی صحافت کو اپنا ’’بزنس ماڈل‘‘ درست کرنے کا مشورہ دیا۔

اس ماڈل کو درست کرتے ہوئے سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوگئے۔ ٹی وی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ ہوئے اینکروں کی فراغت بھی ہوگئی۔ اب ’’صحافت‘‘ یوٹیوب کے ذریعے ہی ہورہی ہے۔ اسے ’’ہینڈل‘‘ کرنے کی مؤثر ترکیب مگر ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔ کرونا وائرس کے تدارک کو یقینی بنانے والی ویکسین کی طرح اس کی ایجاد اور استعمال میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ مجھے تاہم یقین ہے کہ جلد ہی کوئی نہ کوئی راستہ ہر صورت دریافت ہوجائے گا۔ اسی لئے تمام تر ترغیبات کے باوجود میں نے ابھی تک اپنا یوٹیوب چینل بنانے سے اجتناب برتا ہے۔ پرانی وضع کا صحافی ہوں۔ ’’آنے والی تھاں‘‘ پر جمے رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہوں۔ آذربائیجان کے بارے میں تفصیلی کالم لکھنے کا موقعہ نصیب ہو ہی جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author