اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مرد، ٹھرک، صنف نازک اور معاشرہ ۔۔۔وقار حیدر

سوالات اس لیے اٹھائے جاتے ہیں کہ کم از کم سوچ تو اس طرف جائے ہمارے بعض قارئین کمنٹ کرتے ہیں کہ سوال کا جواب نہیں دیا جاتا

وقار حیدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرد بھی عجب مخلوق ہے ۔ خاتون کا نام سنتے ہی رال ٹپکنے لگ جاتی ہیں ، ہر مرد اپنے آپ کو ہیرو سمجھ لیتا ہے ، خاتون کو دیکھتے ہی ۔۔۔ دیکھتے ہی کیا ۔۔ بس دیکھے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے ۔ یہاں رنگ ، نسل ،زبان، خاندان، خاندانی مرتبہ ، مذہب ، مسلک کی کوئی قید نہیں ہاں ایک قید مرد خود پر خود بخود لاگو کر لیتے ہیں اور وہ ہے رتبہ یعنی کلاس (غریب کلاس،مڈل کلاس، امیر کلاس) یہ غریب کلاس والے لوگ تو امراء کی جانب بس حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اپنی تیز سانسوں کے ساتھ بے سدھ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ہاں مڈل کلاس کی خواتین کو دیکھ کر ضرور ایک آدھ دفعہ کوشش کرتے ہیں کہ ان خواتین کی بھی نظر ان پر رکے اور کوئی آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام وصول ہو جائے۔ مڈل کلاس والے دونوں طرف منہ مارنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں بھی کام بن جائے اور اپر کلاس والوں کی ٹھرک بھی عجب بلکہ غضب کہانی ہے ۔۔ یہ اس کلاس میں ہوکر بھی نوکرانیوں اور کام کرنے والیوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔۔ اسکی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایسا کیوں ؟

کچھ پارسا مرد بھی ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھرک سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو دیگر عام آدمیوں کا ہوتا ہے بس انکا ذرا کنٹرول زیادہ ہوتا ہے ۔۔ دیکھتے سب کچھ ہیں بس دل ہی دل میں سوچتے ،ہنستے اور خوش ہوتے ہیں کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ انکا ٹھرک کس حد تک پہنچا ہوا ہے ۔۔ میں نے ایک بھلے شریف آدمی کو اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھاکر ریمارکس لیے حضور بولے ۔۔ میں ایمان کے تیسرے درجے پر فائز ہوں ۔۔۔ باقی آپ لوگ خود سمجھدار ہیں ۔۔ ایک دوسرے بھائی نے خود کو مڈل کلاس قرار دیتے ہوئے تحریر کے حق میں ووٹ دیدیا۔ یہ سب سادہ قسم کے ٹھرکی مرد حضرات ہیں۔

ہمارا ایک پرانا محلے دار تھا کہتا تھا ہم تو بس خُدا کی بنائی ہوئی مخلوق کی قدر کرتے ہیں انکے حسن کی تعریف کرتے ہیں اس میں کیا غلط بات ہے ؟ خیر کچھ عظیم ٹھرکی ہوتے ہیں ان کا بس کم ہی چلتا ہے ، خواتین کے معاملے میں انکی قسمت بھی بے بہرہ ہوتی ہے لیکن ٹھرک ان پر ختم ہوتی ہے ۔۔ کاغذ پر لفظ عورت لکھا دیکھ لیں یا کسی کے منہ سے سن لیں تو انکے کان کھڑے ہوجاتے ہیں ، سارا دھیان ادھر لگا لیتے ہیں کہیں رنگین چادر دیکھ لیں تو اسکے پیچھے ہو لیتے ہیں بھلے بعد میں پتہ چلے کسی بزرگ آدمی نے اجرک اوڑھ رکھی تھی۔ ان کے لئے مشہور ہے کہ رکشہ کو بھی دوپٹہ اڑھا دو تو اسکے پیچھے ہو لیں گے ۔۔ ہمارے ایک ادھیڑ عمر کے کولیگ تھے ، خواتین کے معاملے میں کافی خوش اخلاق پائے جاتے ہیں ۔۔ انکو آجکل کی سلم لڑکیاں نہیں بلکہ تھوڑی صحت مند لڑکیاں پسند ہیں ۔۔ ایک انٹرنی کو ایسی نظر لگائی کہ بچاری کئی دن بخار میں مبتلا رہی۔

کہا جاتا ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کچھ دیندار لوگ اللہ کی راہ میں سفر کو نکلے۔ سفر کے آغاز پر ایک بزرگ نے سب ساتھیوں کو سمجھاتے ہوئے کہا اگر دورانِ سفر کسی خاتون پر نظر پڑ جائے تو استغفراللہ پڑھو ۔۔ دور افتادہ علاقوں میں سفر کرتے کرتے مہینوں بیت گئے مگر صنف نازک کا نام ونشان نظر نا آیا۔جب سفر سے واپسی پر آبادی سے گزر ہوا تو ایک شخص نے خدا جانے کس کیفیت میں استغفار کہا ، کہ اچانک دیگر ساتھیوں کے منہ سے لامحالہ نکل گیا کدھر کدھر۔ (یہ بات صرف سنی سنائی ہے غلط بھی ہو سکتی ہے)

اب تحریر کے مقصد کی جانب آتے ہیں ۔ شاید ابھی تک آپکو یہ تحریر فضول ، یا بکواس لگی ہو لیکن مردوں سے ایک سوال کرنا مقصود تھا اور وہ یہ کہ آخر ایسا کیوں ؟ کیوں ہر عورت پر ٹرائی مارنا خود پر واجب سمجھتے ہیں آپ لوگ ؟ کیوں اکیلی عورت آپکو ذمہ داری نہیں موقع دکھائی دیتی ہے ؟ کیوں ہر عورت کو دل میں جگہ دیے دیتے ہیں ؟ کیوں اپنی نگاہ اٹھاتے ہیں کہ پھر جھکتی ہی نہیں ؟ میرے خیال میں معاشرہ کو اس وقت ضرورت ہے کہ مرد اپنی مردانگی کا ثبوت دیں نا کہ اپنی فطری بے حیائی کا۔

سوالات اس لیے اٹھائے جاتے ہیں کہ کم از کم سوچ تو اس طرف جائے ہمارے بعض قارئین کمنٹ کرتے ہیں کہ سوال کا جواب نہیں دیا جاتا ۔۔ ارے بھائی یہ سب کی کیفیت ہے اور ہر بندے کو اپنی اس خصلت و حالت کا بخوبی اندازہ ہے تو اپنی خصلت پر قابو پانے کیلئے جواب بھی سب کو خود تلاش کرنا ہوگا۔ ایک بات کہنا بے ضروری ہے کہ ہر مرد ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر مرد عورت کو موقع سمجھتے ہیں ہمارے معاشرہ کے مردوں کا ایک بڑا حصہ عورتوں کو ذم داری ہی سمجھتا ہے اور خوب نبھاتا بھی ہے

ٹھرک کی سڑک پر مرد اکیلے راہ گیر نہیں بلکہ یہاں خواتین کی بھی کافی چہل پہل ہے۔۔۔اس پر بھی بات ہوگی لیکن اگلی تحریر میں

%d bloggers like this: