دوبرس قبل جولائی ہی کے مہینے میں جو انتخابات ہوئے تھے وہ کئی اعتبار سے وسیع پیمانے پر ایک ایسا عمل بھی تھے جنہیں علم کیمیا والے تطہیر وکشید کا عمل پکارتے ہیں۔ہر پل کی خبر دینے والا الیکٹرانک میڈیا ہمارے ہاں 2002میں وارد ہوا تھا۔ عدلیہ تحریک نے اسے ’’عوام کی اُمنگوں کا ترجمان‘‘ بنایا۔ اس ’’ترجمان‘‘ نے انتہائی تن دہی سے 2008کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کی حکومتوں کے دوران یہ پیغام پھیلایا کہ سیاست دانوں کی اکثریت خود غوض افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ہمہ وقت اپنے اثرورسوخ کو بے دریغ انداز میں استعمال کرتے ہوئے مال کمانے کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں۔ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔اپنے وطن کو سنوارنے کی انہیں ہرگز فکر نہیں۔اسی باعث بیرون ملک جائیدادیں خریدتے رہتے ہیں۔اقتدار سے محروم ہوجائیں تو بال بچوں سمیت وہاں منتقل ہوکر ’’اچھے دنوں‘‘ کا انتظار کرتے ہیں۔
کامل بے قراری اور بے بسی کے اس موسم میں کسی ’’دیدہ ور‘‘ کی تلاش تھی۔بالآخر عمران خان صاحب کی صورت وہ دریافت ہوگیا۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی اس جی دار متبادل کی جماعت-تحریک انصاف- جولائی 2018کے انتخاب کی بدولت برسراقتدار آئی۔ برسوں کی تلاش وانتظار کے بعد دریافت ہوئے اس ’’متبادل‘‘ کا ’’متبادل‘‘ فی الوقت میسر نہیں۔اس کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔مذکورہ بالا حقیقت کے ادراک کے طفیل میں نے کبھی ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی باتوں کو ذرہّ برابر‘‘ اہمیت نہیں دی۔اس رویے کو عثمان بزدار کے ضمن میں بھی اپنائے رکھا۔یہ الگ بات ہے کہ تقریباََ ہر دو ماہ بعد عمران خان صاحب کو بذاتِ خود لاہور پہنچ کر اصرار کرنا ہوتا ہے کہ عثمان بزدار کہیں نہیں جارہے۔ان کا کلہ مضبوط ہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ہٹائے جانے کے دعوے کے غبارے سے اس اعلان کے بعد ہوا نکل جاتی ہے۔اسے فضا میں دوبارہ لہرانے کے لئے تازہ ہوا اور کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔’’تبدیلی سرکار‘‘ میں ’’تبدیلی‘‘ کی افواہیں اور دعوے ہمارے میڈیا کو البتہ حقیقی مسائل پر توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دیتیں۔ جبکہ ان میں سے چند مسائل بنیادی نوعیت کے حامل ہیں۔مثال کے طورپر گندم کی کاشت،برداشت اور اس کے بعد اس کا آٹے کی صورت بازار میں دستیاب ہونا۔گزشتہ برس ’’آٹے کا بحران‘‘ نمودار ہوا تھا۔ اس کی بابت پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بہت دہائی مچائی گئی۔ اس دہائی نے عمران حکومت کو سینہ پھلاکر یہ بڑھک لگانے کو مجبور کیا کہ ہماری روزمرہّ زندگی کے لئے ہر حوالے سے بنیادی قرار پائی اس جنس کو منافع خور ’’مافیا‘‘ کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔گزشتہ برس کے ’’بحران‘‘ کے رونما ہونے سے کئی ماہ قبل میں نے مئی اور جون کے کئی کالموں میں ذاتی مشاہدے اور تجربے پر مبنی کئی ٹھوس واقعات بیان کئے تھے۔متنبہ کرتا رہا کہ پنجاب کے ان شہروں سے جو اجناس کی مارکیٹ کے حوالے سے کلیدی شمار ہوتے ہیں بیوپاری حضرات دیہاتوں میں اپنے کارندے بھیج رہے ہیں۔تیار فصل کی نقد قیمت ادا کرنے کے بعد وہ اسے کٹواکر شہر لے جاتے ہیں۔عام دیہاتی کو اپنے گھرانے کی سالانہ ضرورت کے مطابق گندم خرید کر اسے ’’بھڑولوں‘‘ میں ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود نہیں رہی۔میری فریاد پر کسی نے توجہ ہی نہ دی۔بالآخر بحران ’’نمودار‘‘ ہوگیا۔
اس برس کے اپریل میں دوبارہ یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ بے موسم کی بارشوں حتیٰ کہ ژالہ باری کے سبب پنجاب کے کئی علاقوں میں گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کاشت کار نے جو گندم اُگائی ہے اسے سرکاری طورپر طے شدہ نرخ پر حکومتی کارندوں کے حوالے کرنے کو وہ تیار نہیں ہوگا۔
عمران حکومت کو مگر اپنے اختیار پر بہت مان تھا۔گندم کی فصل تیار ہوتے ہی ذخیرہ اندوزی کے تدارک کے لئے سخت گیر قوانین کا اعلان ہوا۔ تحریک انصاف کی ’’ٹائیگر فورس‘‘ سے یہ امید بھی باندھی گئی کہ وہ ذخیرہ ہوئی گندم کی رضا کار’’مخبروں‘‘کی طرح نشاند ہی کریں گے۔ مقامی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کو گندم کی خریداری کے لئے طے ہوئے اہداف ہر صورت پورا کرنے کے احکامات ملے۔ان احکامات پر شدت سے عمل کرتے ہوئے پنجاب کے تقریباََ ہر بڑے قصبے اور دیہات میں نامی گرامی ’’چوہدریوں‘‘ کے ڈیروں پر چھاپے بھی پڑے۔ ان کی مؤثر تعداد نے جولائی 2018کے انتخابات کے دوران تحریک انصاف کی ٹکٹ پر اسمبلیوں کا ا نتخاب لڑتے ’’چوہدریوں‘‘ کے لئے ووٹ اکٹھے کئے تھے۔چھاپوں سے ان کی ’’بے عزتی ‘‘ ہوئی ۔ان کے خلاف ایف آئی آر کٹیں تو تحریک انصاف کے اسمبلیوں میں بیٹھے کئی اراکین ’’اپنے بندوں‘‘ کو بچانہیں پائے۔ حلقوں سے غائب ہوگئے۔اپنے فون بند کردئیے۔
ایسے کڑے بندوبست کے باوجود زراعت کے موضوع پر قومی اسمبلی میں دو روز تک جاری رہی تقاریر کے اختتام پر سید فخر امام اختتامی تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو نہایت معصومیت سے حیرانی کا اظہار کرتے رہے کہ سرکاری گوداموں سے 60لاکھ ٹن گندم’’غائب‘‘ ہوچکی ہے۔بازار میں آٹے کی قیمت مگر بتدریج بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔
سید فخر امام کو مجھ جیسے شہری زراعت سے جڑی کوئی بات سکھا نہیں سکتے۔ ان کی تقریر محتاط ترین الفاظ میں یہ اعتراف کرتی سنائی دی کہ اس برس بھی ’’آٹے کا بحران‘‘رونما ہوسکتا ہے۔اس کے تدارک کے لئے گندم غیر ممالک سے درآمد کرنا ہوگی۔ عالمی منڈی میں اگرچہ اس کی قیمت ہمارے ہاں سرکاری طورپر طے ہوئے نرخ سے کہیں زیادہ ہے۔ویسے بھی جو گندم حکومتی کارندوں نے ریاستی اختیار کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے 1400روپے فی من کے حساب سے اٹھائی تھی اب بازار میں 1800سے 2000روپے فی من بک رہی ہے۔گندم کی برداشت کے تقریباََ دو یا تین ماہ بعد ہوا یہ اضافہ حیران کن ہے۔حیرانی کے بعد پریشانی یہ بھی لاحق ہونا شروع ہوگئی ہے کہ آنے والے مہینوں میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے یہ ناقابلِ برداشت بھی ہوسکتا ہے۔
یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم ودائم ہے کہ اگر حکومت نے واقعتا اپنے ہدف کے مطابق گندم اٹھا کر سرکاری گوداموں میں جمع کرلی تھی تو ’’بحران‘‘ کی صورتیں کیوں نمودار ہورہی ہیں۔اس بنیادی سوال کا جواب حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج میں سے کوئی ایک بھی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔یہ بڑھک البتہ سینہ پھلاکر لگائی جاتی رہے گی کہ ’’مافیا‘‘ کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا۔ شہری متوسط طبقے کو یہ بڑھک بہت بھاتی ہے۔ٹی وی سکرینوں پر رونق بھی لگ جاتی ہے۔2008سے دس برس تک حکومت میں ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ نے مبینہ طورپر جو تباہی مچائی اس کا ادراک بھی ہوجاتا ہے۔ ’’گورننس‘‘ کو اب بہتر بنانے کے لئے وقت درکار ہے۔ عمران حکومت کو اقتدار سنبھالے دو برس ہی تو گزرے ہیں۔پاکستانی معیشت کو بحال کرنے کے لئے اس نے آئی ایم ایف کی معاونت سے ایک مؤثر نسخہ تیار کرلیا تھا۔اس کا اطلاق شروع ہوا تو کم بخت کرونا آگیا۔حکومتوں کو وبائوں کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔قدرت کی ستم ظریفی کے روبرو ہم انسان ہمیشہ بے بس ہی ثابت ہوئے۔صبر سے کام لیں۔ویسے بھی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘کے بہت محنت سے ڈھونڈے ’’متبادل‘‘ کا ’’متبادل‘‘ دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ عثمان بزدار کا کلہ بھی مضبوط ہے۔سرجھکائے اچھے دنوں کا انتظار کیجئے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر