دنیا کی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصر،روم، بابل ،یونان اور دیگر تہذیبوں میں اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی برتاو کیا گیا۔یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں جس طرح ایک مسلمان کے جان ومال کو تحفظ حاصل ہے بالکل اسی طرح اس ریاست میں رہنے والے غیر مسلم کے جان ومال کو بھی تحفظ حاصل ہے ۔عہد نبوی میں ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کردیا۔حضور اکرم نے قصاص کے طورپر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ “غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے”۔مگر ہم نے اسلام کے اس زریں اصول کو بھلا دیا۔
پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا اور 7 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے دارالحکومت بننے والے شہر کراچی میں تشریف لائے۔دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 10 اگست کو کراچی میں منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کی تجویز پر غیر مسلم رکن جوگندر ناتھ منڈل کو اس اجلاس کے لیے عارضی صدر منتخب کرلیا گیا۔اگلے روز 11اگست کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس دوبارہ منعقد ہوا جس میں متفقہ طورپر قائد اعظم محمد علی جنا ح کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کرلیا گیا۔قائد اعظم کے قائد ایوان منتخب ہونے پر لیاقت علی خان ،کرن شنکر رائے،ایوب کھوڑو،جوگندر ناتھ منڈل اور ابوالقاسم نے مبارکباد دیتے ہوئے ابتدائی تقاریر کیں۔اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے ایک تاریخی خطاب کیا۔یہ خطاب نئی مملکت کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔اس خطاب میں قائد نے نئی مملکت اور اس کے دستور کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کردی اور ان ہی خدوخال پر نیا دستور بننا تھا اور امور مملکت چلنے تھے۔یہ خطاب اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ بنیادی طورپر اس کوپاکستان کے آئین کا دیباچہ بننا چاہیے تھا تاہم ایسا نا ہوسکا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست کی تقریر میں سے ایک پیراگراف لیا ہے جس میں انہوں نے ملک میں موجود اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بڑی وضاحت سے بتایا کہ ان کو کس قسم کے حقوق حاصل ہوں گے او راس ضمن میں ریاست کی کیا زمہ داریاں اور ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا۔قائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ
“کوئی طاقت دوسری قوم کو اپنا غلام نہیں بناسکتی بالخصوص اس قوم کو جو چالیس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہو، اگر یہ کمزوری نہ ہوتی کوئی اس کو زیر نہیں کرسکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کوئی آپ پر طویل عرصہ تک حکمرانی نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ جیسا کہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیسے کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا ہے۔ ہم اس زمانے میں یہ ابتدا کررہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اور اس بارگراں سے سبکدوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ اب جو چیز موجود ہے وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناﺅں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقربا پروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقینا آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں”۔
قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی مندرجہ بالا تقریر نے کم وبیش تمام بنیادی سوالات کے جوابات دستور بنانے والی اسمبلی کو فراہم کردئیے تھے۔اس تقریر نے نوزائیدہ مملکت کی ایک راہ متعین کردی۔مگر افسوس یہ کہ قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اور قائد بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے اس کے بعد جو کچھ ملک کے ساتھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ہر آنے والا حاکم اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ملک کا دستور بناتا اور توڑتا رہا۔پہلی بارذوالفقارعلی بھٹو نے ملک وقوم کو 1973 کا متفقہ آئین دیا۔تاہم اس سے قبل کسی نے قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست کی تقریر کے مندرجات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔اس تقریر میں اقلیتوں سے متعلق جو کچھ قائد نے فرمایا اس پر بھی چھ دہائیوں بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے ہی آکراس وقت عمل درامد کیا جب 2008 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے سیاسی ،سماجی،قانونی،مذہبی حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔اس ضمن میں حکومت نے 11اگست کے دن کو قومی یوم اقلیت قرار دیا۔یہ دن قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کی نسبت سے مقرر کیا گیا جس میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق وضاحت کے ساتھ بتایا کہ ان کو کس قدرمذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس آزادی کا کس طرح تحفظ کیا جائےگا۔اس ضمن میں پاکستا ن میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے اور حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر