جمہوریت دشمن قوتوں کی طرف سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد سارے کے سارے بے ضمیرے، کیا سیاست کار، کیا قلم کار، کیا صنعت کار، کیا جبہ و دستار، سب وقت کے فرعون کے قدموں میں سر جھکائے حاضر تھے۔ لیکن اس دہشت کے عالم میں اپنے باپ کی سیاسی میراث سنبھالنے والی ایک نہتی لڑکی بے نظیر بھٹو آئین شکنوں کے سامنے چٹان کی طرح جم کر کھڑی تھی۔ اپنی بے نظیر بیٹی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی دُکھوں ماری نصرت بھٹو کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک ایسا دانشمند اور بلند ہمت جیون ساتھی ڈھونڈے، جو آئین شکن ضیاءالحق اور اُس کے حواریوں کی کمینگی کا سامنا پورے عزم و حوصلے اور استقامت کے ساتھ کر سکے۔ اپنی بیٹی کے زندگی کے ساتھی کے لیے بیگم نصرت بھٹو کی نظرِ انتخاب حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری پر آ ٹھہری۔ نصرت بھٹو جو خوبیاں اپنے مستقبل کے داماد میں ڈھونڈ رہی تھیں، اُنھیں وہ سب خوبیاں آصف علی زرداری میں نظر آئیں تو بیگم نصرت بھٹو نے پوری طرح سوچ سمجھ کر حاکم علی زرداری کی بیوی ڈاکٹر زریں آراء کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے بیٹے آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا۔
آصف علی زرداری کو ان کے ولیمہ والے دن ککری گراؤنڈ لیاری میں اپنی دلہن کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صحافی نے پوچھا کہ جب محترمہ جیل جایا کریں گی تو آپ کیا کریں گے؟ آصف نے اپنی سدا بہار مسکراہٹ کے ساتھ پورے اعتماد سے جواب دیا کہ اب محترمہ کبھی جیل نہیں جائیں گی۔ آصف علی زرداری نے اپنے قول کی لاج رکھی۔ شادی کے بعد فقط وہی جیل گئے۔ حالانکہ اکثر مقدموں میں مقدمات بنانے والوں نے ملزمہ کے طور پر پہلا نام محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہی لکھا تھا۔ مخالفین دباؤ ڈال کر اور کردار کشی کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا تسلسل ختم کرنا چاہتے تھے۔ پروپیگنڈسٹ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر کے بھٹو فیملی سے عوام کی محبت کو کم نہ کر سکے تو انھوں نے آصف علی زرداری کو ایک کمزور کڑی سمجھ کر اُنھیں جُھکانے اور توڑنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ مگر وہ آبرو مندانہ استقلال کے ساتھ سینہ تان کر پورے فخر کے ساتھ کھڑے رہے۔ آصف علی زرداری نے آئین شکنوں اور ان کے حواریوں کو قدم قدم پر مایوس کیا۔ زرداری نے ہر وار کو مردارنہ وار سینے پر سہا ہے۔ انھوں نے عمر قید کے برابر عرصہ بغیر کسی جُرم کے صرف انتقامی سیاسی مقاصد کے طفیل کاٹا۔ اُن کی قید کے دوران کئی حکومتیں بدلیں، کئی وزرائے اعظم آئے اور گئے، کئی چیف جسٹس انصاف کی مسند پر پدھارے اور “عدل” بانٹتے ہوئے چلے گئے، لیکن زرداری جیل سے باہر نہ نکل سکے۔ اُنھوں نے تقریباً دو درجن عیدیں اپنے خاندان اور پیاروں سے دور جیل کی تنہائیوں کے ساتھ گذاریں۔ وہ اپنے بچوں کا بچپن نہ دیکھ سکے، قید کے دوران ان کی والدہ سمیت کئی قریبی رشتہ دار وفات پا گئے، لیکن حکومت اور عدلیہ نے انہیں ہر دفعہ پیرول پر عبوری رہائی کا حق تک دینے سے انکار کر دیا۔ اسیر زرداری پر دورانِ قید بدترین غیر قانونی جسمانی تشدد بجائے خود ایک الگ داستان ہے کہ کیسے انھیں ذلت آمیز طریقے سے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ انہیں دہشت زدہ رکھنے کے لئے تشدد کے نِت نئے طریقے آزمائے جاتے رہے، زبان اور گردن پر کٹ تک لگائے گئے۔ انھیں جیل میں ہی دل کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر آصف علی زرداری فوجی اور سویلین، ہر قسم کے حکمرانوں کے تشدد کا بہادری سے سامنا کرتے رہے۔ اپنی ہر تکلیف صبر، خاموشی، شجاعت اور حُسن توازن پر مبنی عظمت کردار سے جھیلی اور کسی لمحے بھی خوف اور ناامیدی کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اس طرح اِس مردِ آہن نے مخالفین کو اُن کے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دِیا۔
آصف علی زرداری کو معلوم تھا کہ انہیں بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکمران انھیں جھکا کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اپنی مرضی کی شرائط پر معاملات طے کرنا چاہتے تھے۔ زرداری ساری عمر دکھ جھیلتے رہے، زخم سہتے رہے، صبر کرتے رہے اور انھوں نے کبھی بھی شکوہ سنجی اور برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ زرداری نے کمال بہادری کے ساتھ بے نظیر کو سر بلند رکھا۔
اپنی عظیم بیوی کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صبر اور خاموشی کے ساتھ تابوت اٹھا کر گڑھی خدا بخش لے گئے۔ جیلیں بھلا دیں۔ قتل فراموش کر دیئے۔ ہر ظلم اور زیادتی کو تقدیر کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا۔
آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے چہلم پر گڑھی خدا بخش کے شہیدوں کے مزاروں پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا۔ “لوگ سمجھتے ہیں محترمہ مجھے کرسی سے باندھ گئی ہیں جبکہ انھوں نے مجھے قبر سے باندھ دیا ہے۔ وہ نظام بدلنا چاہتی تھیں، اسی لیے انھیں قتل کر دیا گیا۔ میں بے نظیر کا مشن جاری رکھوں گا۔ میں یہ عزم لے کر گڑھی خدا بخش سے نکل رہا ہوں کہ یا تو وہ ٹولہ ختم ہو جائے گا، جس نے بے نظیر کو ختم کیا یا میں شہید ہو کر گڑھی خدا بخش میں دفن ہو جاؤں گا”۔
تاریخ گواہ ہے کہ آصف علی زرداری کو عدلیہ، میڈیا، ملٹری اور جمُورے سیاستدانوں سے چومکھی لڑنا پڑی۔ یہ زرداری کا تحمل، صبر اور دُور اندیشی تھی جو جمہوریت بچاتی رہی۔ اُنھوں نے ہر اُوچھے وار کو بڑے تحمل سے برداشت کیا۔ زیادتیوں کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجو وطنِ عزیز کے کسی ادارے کے خلاف کبھی ہرزہ سرائی نہیں کی۔ اپنے سیاسی مخالفین کی بدترین بدتہذیبی کا جواب کبھی بدتہذیبی سے نہیں دیا۔
اگر 2008ء سے لے کر آج تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مردِّ حُر ایک ایسا سبک دست جوگی ہے، جس نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے اور زہریلے اژدہوں کی زہر کو بتدریج کم کیا ہے۔ اگر وطنِ عزیز میں یہ عمل جاری رہے تو انشاءاللہ بہت جلد یہ بے ضرر کیچوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے اور ذلتوں مارے پاکستان کی صورت حال ہرگز وہ نہیں رہے گی، جو اِس وقت ہے۔
اندھی نفرت برطرف، آج آصف علی زرداری کی حکمت عملی سے ہی جمہوریت ارتقائی طریقے سے مستحکم ہو رہی ہے اور آصف علی زرداری بلاشبہ فیڈریشن کی مضبوطی کی علامت بن چکے ہیں۔
مندرجہ بالا ناقابلِ تردید حقائق کے باوجود آصف علی زرداری کے خلاف جمہوریت دُشمن قوتوں کے پروپیگنڈے کا زور نہیں ٹوٹا۔ تمام جُھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہونے کے باوجود آج بھی سیاسی شعور و تاریخ سے نابلد اور پروپیگنڈے سے برین واشڈ پاکستانی آصف علی زرداری کو کرپٹ ترین شخص سمجھتے ہیں۔ اِس صورت حال کے پیشِ نظر آج ہم آپ کو اُن سب لوگوں کے نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کرتے ہیں، جنھوں نے آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے تھے۔ آیئے، پاکستانی قوم کی مجرمانہ ذہن سازی کرنے والے مندرجہ ذیل بڑے بڑے بُرجوں کے اصل چہرے دیکھیئے:
- غلام اسحٰق خان
سب سے پہلے ہم سابق صدرِ پاکستان غلام اسحٰق خان کا ذکر کریں گے۔ جنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی 1990ء میں برطرفی کے بعد آصف علی زرداری پر کرپشن کے لاتعداد الزامات لگا کر اُنھیں جیل میں بند کر دیا۔ آصف علی زرداری جیل سے ہی رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر اِس عرصہ میں وہ جیل میں ہی پابند سلاسل رہے۔ تین سال بعد 1993ء میں کوئی ایک بھی الزام ثابت کیے بغیر غلام اسحٰق خان نے اپنا تُھوکا سرِعِام چاٹ کر آصف علی زرداری کو رہا کر کے نگران وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنا کر حلف لے لیا۔ اِس طرح انھوں نے بلاواسطہ طور پر پوری قوم کے سامنے اِقرار کیا کہ آصف علی زرداری کے خلاف اُس کی طرف سے سب کیسز جُھوٹے بنائے گئے تھے۔
- برگیڈیئر امیتاز
برگیڈیئر (ر) امتیاز المعروف “بریگیڈیئر بلا” اپنی پوری ملازمت کے دوران جمہوریت دُشمن قوتوں کے آلہ کار رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان کی حکومت کے خلاف فوج کے خفیہ ادارے کے کچھ افسران کی جانب سے کیے جانے والے مِڈنائٹ جیکال آپریشن میں وہ آئی ایس آئی کے پولیٹیکل وِنگ کے ڈائریکٹر کے طور پر مرکزی کردار تھے۔ جمہوری حکومت کے خلاف اس سازش کی ناکامی پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دباؤ پر آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے لیت و لعل کے بعد برگیڈیئر اِمتیاز کو فوج کی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ فوج کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اُس وقت کے وزیرِ اعلٰی پنجاب نواز شریف نے برگیڈیئر (ر) اِمتیاز کو پنجاب حکومت کا مشیر مقرر کر دیا، جہاں اُنھوں نے پنجاب حکومت کی وفاقی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف بھرپور منفی پروپیگنڈہ کیا۔
1990ء میں نواز شریف نے وفاقی حکومت میں آتے ہی برگیڈیئر (ر) امتیاز کو اٹیلیجنس بیورو کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس تعیناتی کا واحد مقصد محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی کردار کشی کرنا تھا، جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ نواز شریف اِن کی کارکردگی سے اتنے مطمئن تھے کہ اپنے دوسرے دورِ حکومت (1997ء) میں بھی انھیں ایف آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا مگر بعض وجوہات کی وجہ سے یہ تعیناتی نہ ہو سکی۔
6 ستمبر 2009ء بریگیڈیئر (ر) اِمتیاز نے اعتراف کیا کہ آپریشن مڈنائٹ جیکال کے ذریعے بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کا اقدام غلط تھا، نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بریگیڈیئر (ر) امتیاز نے پہلی بار انکشاف کیا کہ مہران بنک اسکینڈل میں نہ صرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بلکہ صدر غلام اسحاق خان بذاتِ خود شامل تھے اور انہوں نے صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے کالا دھن استعمال کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سو پچاس ملین روپے جو مہران بنک سے آئے، وہ جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر آرمی کے اکاوٴنٹ میں جمع کرائے گئے اور اسی میں سے ساٹھ ملین روپے ایوان صدر میں قائم الیکشن سیل کو دیے گئے۔ یہ سیل جلال حیدر زیدی اور روئیداد خان چلا رہے تھے۔ اسی ملین روپے آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کیے گئے، جو 1990ء کے الیکشن سے پہلے اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین میں تقسیم کیے۔
جب آصف علی زرداری جیل میں قید تھے اور عدالتوں میں جُھوٹے مقدمات کے سلسلے میں پیشیاں بھگت رہے تھے تو حکومت کی طرف سے بریگیڈیئر (ر) اِمتیاز بھی عدالتوں میں آتے تھے، جہاں انھوں نے آصف علی زرداری سے معافی مانگتے ہوئے تسلیم کیا کہ “ہم نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر آپ دونوں میاں بیوی کا ایمیج بہت خراب کیا”۔
- جنرل (ر) احمد شجاع پاشا
میمو گیٹ شاہکار ڈرامے کے معماروں نے اپنی پہاڑ ایسی ناکامی چُھپانے کے لیے اپنے جمُوروں، میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے گرد و غبار اور پراپیگنڈے کا ایسا طوفان بپا کیا کہ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ اُس وقت عمران خان کے بعد سب سے اہم کردار میاں نواز شریف نے ادا کیا تھا، جب اُنھوں نے جاتی عمرہ میں ایک سینئر فوجی اہلکار سے ملاقات کرنے کے بعد بڑی دھوم دھام سے دیدہ و دل فرش راہ کی مکمل تصویر “آزاد عدلیہ” میں میمو پر پٹیشن دائر کی۔ میمو گیٹ میں سب کرداروں نے مِل کر اِس ابرِ غلیظ میں آصف علی زرداری کے خلاف ہر ترکیب، حربہ اور گٹھ بندھن آزمایا، حتٰکہ دسمبر 2011ء میں میمو گیٹ کے گرد و غبار کے دوران صورت حال یہ تھی کہ آصف علی زرداری کو ایوانِ صدر کے پچھلے حِصّے میں اپنے سونے کے کمرے میں بندوق لے کر ساری ساری رات بیٹھنا پڑتا تھا۔ زرداری نے “اصل حکمرانوں” کو پوری طرح باور کرا دِیا تھا کہ وہ سرنڈر نہیں کریں گے، استعفٰی نہیں دیں گے، گرفتاری نہیں دیں گے، صرف لڑیں گے، گولی کا جواب گولی سے دیں گے اور اگر اُنھیں ہٹانا ہے تو آئینی طریقے سے ہٹایا جائے۔ ایک دن تو آصف علی زرداری نے اپنے لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہو سکتا ہے حملہ آور مجھے گولی مار کر کہیں کہ میں نے خود کُشی کر لی ہے لیکن گواہ رہنا، میں لڑتے ہوئے مروں گا، خود کُشی نہیں کروں گا۔
اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) احمد شجاع پاشا (میمو گیٹ فیم + بابائے تحریکِ اِنصاف) میمو گیٹ کے اہم کردار تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل پاشا نے آصف علی زرداری سے التجا کی کہ “مجھے معاف کر دیں، غلطی ہو گئی، میں نے جو کچھ کیا، اپنے باس (آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی) کے کہنے پر کیا”۔
مزید برآں، جنرل (ر) احمد شجاع پاشا صحافی جاوید چوہدری کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں “میں نے ایک دن جنرل کیانی سے کہا، سر ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا، ہم نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا”۔
- ڈکٹیٹر پرویز مشرف
آئین شکن جنرل (ر) پرویز مشرف بھی وہ حکمران تھے، جن کے دورِ حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کیسز چلتے رہے۔ 1996ء سے گرفتار آصف علی زرداری اِن کے دور میں 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر 22 نومبر 2004ء تک قید میں رہے۔ پرویز مشرف نے بھی آصف علی زرداری پر مزید دو ریفرنس دائر کیے تھے (اِن ریفرنسز سے بھی آصف علی زرداری باعزت بری ہو گئے تھے)۔
یاد رہے کہ فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے سیاسی تدبر سے سابق ڈکٹیٹر کو بتدریج بند گلی کے آخری سِرے تک پہنچا دیا۔ حالات اِس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ ڈکٹیٹر کو اپنی وردی (جسے وہ اپنی کھال سے تشبیہ دیتے تھے) اُترنے کے بعد اپنی اصلی کھال کے اُترنے کی فکر پڑ گئی۔ جس کی وجہ سے ڈکٹیٹر اپنے اِدارے کی مدد سے معافی تلافی کراتے ہوئے بیرونِ ملک سُدھار گئے اور اُس وقت تک واپس تشریف نہیں لائے جب تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ مگر نگران حکومت کے بننے کے پہلے ہی دن ڈکٹیٹر پرویز مشرف واپس پاکستان لوٹ آئے۔
مجبوراً اقتدار سے باہر ہونے والے ڈکٹیٹر پرویز مشرف یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اُنھیں اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بنیاد رکھی اور اختتام آصف علی زرداری نے کیا۔ اِسی لیے پرویز مشرف آصف علی زرداری کے انتہائی خلاف ہیں اور اکثر اِن پر اپنے غصے کا اظہار بھی وافر مقدار میں کرتے رہتے ہیں۔ مگر اِس کے باوجود یہ ناقابلِ تردید تاریخ ہے کہ مارچ 2010ء میں پرویز مشرف کو میڈیا کے سامنے سوئس کیسز کے بارے میں کُھلا اعتراف کرنا پڑا کہ “یہ کیسز ایک فرضی داستانیں ہیں، اُن کی حکومت نے سوئس حکومت سے بار بار رابطہ کیا مگر جواب میں بتایا گیا کہ وہاں کوئی رقم نہیں پڑی ہوئی۔ سوئس حکومت کا کہنا تھا کہ یہ سب داستانیں اُنھیں پاکستانی میڈیا کے ذریعے سُننے کو ملتی ہیں۔ مشرف کا مزید کہنا تھا کہ ان فضول کیسز کی بیرونِ ملک تفتیش کرنے سے حکومتِ پاکستان کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر پاکستان کو ایک دھیلے کا بھی فائدہ نہیں ہوا”۔ مزید برآں، پرویز مشرف کی طرف سے این آر او کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف سب مقدمات واپس لینے کا ایک مکمل اعتراف تھا کہ یہ مقدمات جھوٹے ہیں (یہ بات بھی یاد رہے کہ این آر او کی کالعدمی کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آصف علی زرداری کے خلاف کیسز کو خوب مصالحے دار بنایا اور باکمال شعبدہ بازی کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا۔ آخرکار، سب کیسز جھوٹے ثابت ہوئے اور آصف علی زرداری سب مقدمات میں باعزت بری ہوئے)۔
- سیف الرحٰمن
نواز شریف حکومت کے دُوسرے دورِ حکومت میں قومی اِحتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمٰن نے نواز شریف کی خواہش پر بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور حاکم علی زرداری کے خلاف ریفرنسز دائر کیے۔ اِن ریفرنسز میں اہم سوئس کیسز بھی شامل تھے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے آنے کے بعد سیف الرحمٰن بھی گرفتار ہو گئے تھے۔ خاندانِ شریفیہ تو پرویز مشرف سے معافی مانگ کر سرور پیلس سعودی عرب سدھار گیا مگر سیف الرحمٰن اڈیالہ جیل میں ہی رہ گئے۔ اس دوران جب ایک دن آصف علی زرداری کو جیل سے راولپنڈی کی احتساب عدالت میں پیشی پر لایا گیا تو سیف الرحمٰن کو بھی اُسی عدالت میں پیشی کے لیے ہتھکڑیوں میں وہاں پیش کیا گیا۔ سیف الرحمٰن نے جیسے ہی آصف علی زرداری کو دیکھا تو اُن کے قدموں میں گِر کر گِڑ گڑا کر معافیاں مانگنے لگے۔ صحافی حامد میر بھی دوسرے صحافیوں اور لوگوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری سے مخاطب سیف الرحمٰن نے صاف الفاظ میں کہا کہ “میں نے آپ پر جھوٹے مقدمات بنا کر ظلم کیا، مجھے جو حکم دیا گیا، میں نے وہی کیا تھا، مجھے معاف کر دیں”۔ حامد میر کہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ناقابلِ یقین منظر تھا، آصف علی زرداری سے سیف الرحمٰن نے معافی مانگ کر سر اوپر اٹھایا تو اُس کی نظر اُن پر پڑی، سیف الرحمٰن نے فوراً آنسو پونچھے اور زرداری صاحب کو دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ حامد میر اِس بارے سوال کرتے ہیں “اگر آپ میری جگہ ہوتے اور آپ نے سیف الرحمٰن کو زرداری صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگتے دیکھا ہوتا تو آپ کس کو سچا سمجھتے؟”
یاد رہے یہ وہی سیف الرحمٰن ہیں، جنھوں نے نواز شریف کے حکم پر لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے سوئس کیسز میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سات سال قید، ساری جائیداد ضبط اور سارے اکاؤنٹس سیز کروانے کی سزائیں سنوائی تھیں، جو بعد میں شریفوں کی ججوں کے ساتھ ملی بھگت ثابت ہونے پر کالعدم ہو گئی تھیں۔ سیف الرحمٰن نے انہی مقدمات میں سوئیٹزر لینڈ میں سوئس انویسٹیگیٹنگ جج سے بھی ملی بھگت کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہاں شواہد نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات چلانا تو دور کی بات مقدمات فائل تک کروانے میں ناکام رہے۔
- شہباز شریف
کون سی بدتمیزی ہے، جو شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے ساتھ اُن کے دورِ صدارت کے دوران روا نہ رکھی ہو؟ یہی شہباز شریف تھے، جو نواز شریف کی خواہش پر سیف الرحمٰن کے ساتھ مل کر ججوں سے گٹھ جوڑ کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو جھوٹے مقدمات میں سزائیں دلوانے کے لیے پیش پیش تھے۔ پورے پانچ سال کے دوران وزیرِ اعلٰی پنجاب نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا سرکاری طور پر استقبال کرنے سے گریز کیا۔ بعد میں حالات نے پلٹا کھایا اور 2014ء میں اُنگلی کے اشارے پر سٹیج کیے گئے عمرانی دھرنے کے دوران شریفین ایک بار پھر آصف علی زرداری کے قدموں میں گِر گئے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ آصف علی زرداری کی جاتی عمرہ آمد پر شہباز شریف اُن کے لیے 72 کھانوں کی ڈشیں اپنی نگرانی میں بنواتے ہوئے نظر آئے (یہ اور بات ہے کہ زرداری نے اپنا کھانا اپنے گھر سے منگوایا)۔ شہباز شریف نے وہاں اپنی ماضی کی زیادتیوں اور اپنی ٹانکا ٹوٹی زبان کی کارستانیوں پر معافی مانگی۔ بعد میں 3 جون 2015ء کو بھی میڈیا کے سامنے شہباز شریف نے ماضی میں آصف علی زرداری کے خلاف دیئے گئے اپنے بے ہودہ بیانات پر ایک بار پھر معذرت کی۔
- نواز شریف
نوازشریف وہ شخصیت ہیں، جنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف قابلِ نفرین حد تک پروپیگنڈہ کیا اور کیسز کا انبار لگا دیا۔ اسے تقدیر ایزدی کا کمال ہی کہیئے کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میاں نوازشریف کو لانڈھی جیل میں اُسی کھولی میں قید کیا گیا، جس میں مختلف ادوار کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری قید رہے تھے، چشم دید گواہوں کے مطابق نواز شریف اُسی کھولی کے دروازے کو پکڑ کر دھاڑیں مار کر روتے تھے۔ خیال رہے کہ آصف علی زرداری 1996ء سے ہی قید میں تھے۔ جب نواز شریف کو لانڈھی جیل میں قید کیا گیا تو اُس وقت آصف علی زرداری سنٹرل جیل کراچی میں قید تھے۔ نواز شریف نے جیل سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف جُھوٹے مقدمات بنانے پر نوید چوہدری کے ذریعے پیغام بھیج کر آصف علی زرداری سے معافی مانگی۔
بعدازاں، نواز شریف ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے معافی مانگنے اور دس سالہ معاہدے کے تحت جب سعودی عرب میں تھے، تو انھوں نے وہاں صحافی سہیل وڑائچ سے “غدار کون؟ نواز شریف کی کہانی اُن کی زبانی” نامی کتاب لکھوائی۔ آیئے، آپ کو اس کتاب کے صفحہ نمبر 137 پر لے چلتے ہیں۔
سوال: آپ کے دوسرے دور میں کئی پیچیدہ سیاسی مسائل پیدا ہوئے آپ نے احتساب کا ایسا طریق کار اپنایا کہ اپنی قائد حزبِ اختلاف بے نظیر بھٹو کا پتہ ہی صاف کر دیا، کیا یہ جمہوری رویہ تھا؟
نواز شریف: احتساب کا طریق کار غلط تھا۔ ہمیں اس حوالے سے اکسایا گیا تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی کا ہم پر دباؤ تھا۔ جان بوجھ کر ہم سے بے نظیر اور اپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات کروائے گئے تاکہ سیاست دانوں کا اعتبار ختم ہو جائے۔
اِس کے بعد جب بھی نواز شریف کی آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی، اُنھوں نے بار بار قسمیں کھاتے ہوئے آصف علی زرداری کو یہ یقین دھانی کروانے کی بھرپور کوششیں کیں کہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات ملٹری کے پریشر پر بنائے گئے تھے۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار میں آصف علی زرداری مکمل طور پر قید رہے، وہ ایک بار ضمانت پر بھی رہا نہیں ہوئے۔ حتٰکہ اُنھیں والدہ کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے پیرول پر رہا تک نہ کیا گیا۔
اگر مندرجہ بالا ناموں کو دیکھا جائے تو یہ وہی لوگ تھے، جنھوں نے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بنائے اور پروپیگنڈے کے طوفاں بپا کیے۔ بعد میں وہ سب کے سب آصف علی زرداری سے معافیاں مانگ چکے (اگر کسی نے بظاہر معافی نہیں مانگی تو اُس نے اپنے عمل سے یہ ضرور ثابت کیا کہ وہ بالکل جھوٹا تھا اور آصف علی زرداری سچا) اور اقرار کر چکے کہ اُنھوں نے جھوٹے مقدمات بنا کر جَھک فرمائی تھی۔ اگر کسی کے پاس رتی برابر بھی عقل ہو اور اُس کے ضمیر میں ذرا برابر زندگی کی رمق باقی ہو تو وہ ایک ثابت شدہ جھوٹ پر اِصرار نہیں کرے گا۔
آرٹیکل کی دُم: اسٹیبلیشمنٹ نے نواز شریف کو عاق کرنے کے بعد عمران احمد خان نیازی نامی ایک نئے لاڈلے کو گود لیا ہے، جو آصف علی زرداری کے خلاف شریفین کے ثابت شُدہ جُھوٹے بیانیئے کا ہی پرچار پوری دیدہ دلیری سے کرتے ہوئے ذہنی نابالغ لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں، جس پر پہلے ہی معافیاں مانگی جا چکی ہیں۔ یاد رکھیں کہ دیر سویر نئے لاڈلے کی منزل بھی یقینی طور وہی ہے، جو اِن کے پیش روؤں نے پائی ہے کیونکہ سانچ کو آنچ نہیں۔
یہ آرٹیکل اِس سے قبل 11 اپریل 2014ء کو سوچ بورڈ پر شائع ہو چکا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر