دسمبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نتھیا گلی کا سبق ۔۔۔گلزار احمد

نتھیا گلی کی یہ کہانی میرے لیے ایک اہم سبق ھے۔ آجکل ڈیرہ میں گرمی پورا جوبن دکھا رہی ھے کرونا نے خوفزدہ کر رکھا ہے

یہ کرونا کی دنیا سے پہلے کی کہانی ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں جب گرمیوں کا موسم ناقابل برداشت ہو جاتا ھے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ عروج پر پہنچ جاتی ھے تو مجھے مجبوراً ایبٹ آباد ۔مری یا نتھیاگلی بھاگنا پڑتا ھے۔

بس جہاں سینگ سما جائیں۔ سفر وسیلہ ظفر ھے اس لیے قدم قدم پر کوئی سبق حاصل ہوتا ھے۔راستے میں بسوں ٹرکوں ویگنوں کی بیک پر لکھے سلوگن ۔ باتھ روموں میں لکھے شعر۔بسوں کی سیٹوں کی بیک پر لکھے فون نمبرز ۔ہر چیز مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ھے۔سنا ھے حکیموں کے سڑکوں کے ارد گرد لکھے اشتہار اور انڈونیشی بابا کے جادو کا پینافلیکس تو اب چاند پر بھی لگا دیا گیا ھے مبادا وہاں کی مخلوق کو جنسی کمزوری لاحق ہو اور ضرورت پڑ جاے تو پاکستان کے حکیم اور جادوگر فوراً ایمرجنسی علاج مہیا کر سکیں۔ حویلیاں سے ایبٹ آباد کی چڑھائی پر کھوتہ قبر کا سٹاپ مجھے اس لیے یاد رہتا ھے کہ اس کے بعد ایبٹ آباد بہت نزدیک آ جاتا ھے۔

ایک کار کے پیچھے لکھا تھا۔۔۔آ تیڈے جن کڈاں۔۔۔۔ تو ہمارے ہاں جن کڈنے کے لیے باقاعدہ جاتراں کا اہتمام کیا جاتا ھے مگر جدید زمانے میں شاید اس مقصد کے لیے موبائیل جن کڈنا سروس کا آغاذ ہو گیا ھے اور لوگوں کی سھولت کے لیے اب یہ سروس گھر گھر مہیا کی جا رہی ھے۔ خیر نتھیا گلی پہنچ گیے جو گرمیوں میں ایک مہنگا سٹیشن ھے اور ایک رات گزارنے کے لیے چار ھزار پر مناسب کمرہ ملتا ھے۔اور ہم تو ناہید اختر کا یہ گانا سنتے جارھے تھے ۔۔۔ تھا یقین کہ آئینگی یہ راتاں کبھی۔۔۔

تم سے ہووینگی ملاقاتاں کبھی۔۔۔ بہرحال کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لیا اور نتھیا گلی کی مختصر سی سڑک پر بوندا باندی میں نکل کھڑے ہوۓ۔ایک چکر لگایا ایک موٹی دیوار کے اوپر بیٹھ کر نظارہ کرنے لگے۔میرے سامنے سڑک پر کھڑے دو لڑکے بچوں کے غبارے ۔۔اور صابن کے بلبلے بنانے والا سامان بیچ رھے تھے۔ ان کی فروخت بھی ٹھیک ہو رہی تھی اور بچے بھی دونوں بھائی تھے جو چھٹی ساتویں کے طالب علم لگتے تھے۔ میں سب کچھ دیکھتا رہا اور سوچتا رہا آخر یہ بچے اس نتھیا گلی جیسے مہنگے سٹیشن میں کہاں اور کیسے رھتے ہونگے؟ بارش تیز ہوگئی تو میں نے ایک بڑے درخت کے نیچے پناہ لی اور وہ بھی میرے ساتھ کھڑے ہو گیے۔

اب تیز بارش کی وجہ سے ان کی دکانداری رک چکی تھی۔میں نے ان سے گپ شپ شروع کر دی۔پتہ چلا کے وہ پنڈی کے قریب کسی گاوں کے رھنے والے دو بھائی اور سکول کے سٹوڈنٹ تھے۔ میں نے فوراً ان سے سوال کیا کہ وہ یہاں اس مہنگے سٹیشن پر کیسے رھتے ہیں؟ جبکہ رہائیش بہت ہی مہنگی ھے۔انکے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ انہوں نے بتایا اس بازار سے نیچے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر وہ ہر سال ایک کمرہ 15 ھزار روپے ماہوار کے حساب سے تین ماہ کے لیے بک کرا لیتے ہیں۔ اس کمرے میں ان کا ماموں اور یہ دو بچے رھتے ہیں۔ ماموں بھی یہی کام کرتا ھے۔

ہم دو بچے سات سو روزانہ اور ماموں بھی اتنا کما لیتا ھے۔ ہمارا ڈھائی سو روپے روزانہ کرایہ جاتا ھے اور پھر بھی دس ھزار مہینہ کھانے کے خرچ کے بعد بچت ہو جاتی ھے۔ تین ماہ میں ہم تیس تیس ھزار کما کر واپس جاتے ہیں۔نتھیا گلی میں رونق دوپہر کے بعد شروع ہوتی ھے اور رات تک رہتی ھے اس لیے صبح ہم اپنا سکول کا ھوم ورک کرتے ہیں ۔اس طرح ہماری تین ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں بہترین مقام پر مفت گزر جاتی ہیں۔ یار میں ان بچوں کی کہانی سن کر اتنا متاثر ہوا کہ فیصلہ کیا کسی ٹھنڈے مقام پر جا کر میں بھی غبارے بیچوں۔۔۔

مگر ابھی یہ پراجیکٹ زیر تکمیل ھے۔ نتھیا گلی کی یہ کہانی میرے لیے ایک اہم سبق ھے۔ آجکل ڈیرہ میں گرمی پورا جوبن دکھا رہی ھے کرونا نے خوفزدہ کر رکھا ہے۔گھر سے باھر نہیں نکل سکا۔۔۔دوستوں کے فون الگ آ رھے ہیں ناراضگیاں ظاہر کی جا رہی ہیں کہ میں باھر آوں اور ان سے ملوں میں ان اشعار کی سوچوں میں گم بیٹھا ہوں آپ بھی سن لیں۔۔۔

؎۔۔ دن نکلے تو سوچ الگ۔ شام ڈھلے وجدان الگ۔۔۔ تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے ۔۔ اقرارالگ۔ تکرار الگ۔ تعظیم الگ۔ فرمان الگ۔۔۔جب چھوڑ گیا تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ۔۔ حیران الگ۔ پشیمان الگ۔ سنسان الگ۔ بیابان الگ ۔۔۔

About The Author