پچھلی شب جب تیل کی قیمتوں کا بین الاقوامی منڈی میں بھرکس نکل رہا تھا تو فقیر راحموں سابق وزیرخزانہ اسد عمر (جناب اب بھی وفاقی وزیر ہیں) کو یاد اور تلاش کرتے رہے۔
یاد کرنے والی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے کیونکہ کل اسد عمر کو بائیس کروڑ آبادی والے ملک میں ایک ارب ساٹھ کروڑ بار سے زیادہ یاد کیا گیا
کونکہ وہی کہا کرتے تھے (پرانے پاکستان کے ماہ وسال میں)کہ پیٹرول 40سے45روپے لیٹر بیچا جاسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں انہیں حکومت کو مشورہ دینا چاہئے کہ دس بارہ ارب ڈالر کے تیل کے سودے کرلے، جون کے وسط سے جب دنیا بھر میں بہتری آنے لگے گی تو ہم یہ تیل فروخت کر کے کچھ قرضے اُتاریں گے اور کچھ ترقیاتی کام کر لیں گے۔
تلاش کرنے کی وجہ جب فقیر راحموں سے پوچھی تو کہنے لگے! میں اسد عمر سے لاکھ دولاکھ ڈالر ادھار لے کر تیل کا ذخیرہ کرنا چاہتا ہوں،
عرض کیا! وفاقی حکومت ذخیرہ اندوزوں کیخلاف آرڈیننس لاچکی ہے، رسان سے بولے لیکن میں ذخائر امریکہ میں امانتاً رکھواؤں گا۔
خیر اس طرح کے لطائف نما قصے آج کل بہت ہیں، مثلاً ایک فقیر کو ریلوے اسٹیشن کے باہر دیکھ کر کسی نے کہا ”باباجی پہلے آپ میو ہسپتال کے باہر خیرات نہیں مانگا کرتے تھے؟
فقیر نے جواب دیا سرکار ! خوب پہچانا وہ دراصل میری بیٹی کی شادی ہوئی تو ہسپتال والا اڈہ داماد جی کو سلامی میں پیش کر دیا“
اچھا اب اس غیرسیاسی لطیفے میں سے مرضی کا مطلب آپ اپنے رسک پر نکال سکتے ہیں، فی الوقت تو یہ ہے کہ ابتر صورتحال میں بھی کچھ لوگ سندھ میں لسانی اور مذہبی منافرت پیدا کر کے حالات کو بگاڑنے میں پیش پیش ہیں۔ بہت ادب کیساتھ جناب وزیراعظم سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ حضور! ممکن ہو تو دوتین وفاقی وزراء اور خصوصاً سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور فیصل واوڈا کو روک لیجئے، سیاست تلخی، نفرت، پھٹے چک پروگرام ان سب کیلئے بہت وقت پڑا ہے۔
وبا کے اس موسم سے بچ رہے تو سیاست سیاست کھیلیں گے، ویسے حیرانی ہوئی کہ پچھلی شب فیصل واوڈا نے پیپلزپارٹی کیخلاف مذہبی جذبات اُبھارتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ وہ اور ان کی جماعت ایک مذہبی طبقے کی حامی ہے۔ پاکستانی سیاست میں مخالفین کو دیوار سے لگانے کیلئے مذہبی جذبات سے دودھاری تلوار کا کام لینے کی عادت بد ہر دور میں پروان چڑھی۔
سیاست میں نووارد خواتین وحضرات کا تاریخ اور مطالعے سے ہاتھ تنگ ہے ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس مذہبی منافرت نے ہمیں کتنے برے دن اور ماہ وسال دکھلائے۔
جس وقت یہ سطر لکھی جارہی ہیں، ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 8450 اور اموات180 ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے دوران مریضوں اور اموات میں تیزی کیساتھ اضافہ ہوا، کامل سنجیدگی کیساتھ اس صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر لاہور سمیت متعدد بڑے شہروں میں ڈاکٹرز اور معاون طبی عملہ اس وقت بھی حفاظتی کٹس فراہم نہ کئے جانے پر احتجاج کر رہا ہے۔
ڈاکٹرز اور طبی عملے کو کورونا وباء سے لڑنے کا حفاظتی سامان دینے کی بجائے یہ کہہ دینا کہ جو خوفزدہ ہے وہ ملازمت چھوڑ دے قلعی طور پر نامناسب بات ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ ہفتے کے دوران پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں 100 سے زائد ڈاکٹرز اور معاون طبی عملے کے ارکان کورونا سے متاثر ہوئے، یہ سب لوگ ہسپتالوں میں مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے متاثر ہوئے۔ حقائق سب کے سامنے ہیں، اگر ان کے پاس حفاظتی کٹس ہوتیں تو یہ کورونا سے اتنی بڑی تعداد میں متاثر نہ ہوتے۔
جان سب کو پیاری ہوتی ہے، قربانی بنتی ہو تو دی جائے قربانی کے نام پر خودکشی کا مطالبہ درست ہے نا حق خدمت ادا کرتے ہوئے ایسے الفاظ ادا کرنا جو کوئی بھی شخص اپنے بچوں کیلئے نہ کہہ سکے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤں کے حوالے سے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کروائی تھی وہ خود اس میں کہہ چکی کہ 25اپریل تک صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔
صاف سامنے کی بات ہے صوتحال میں بہتری کے آثار فی الوقت دکھائی نہیں دے رہے، بعض شرائط کیساتھ کچھ کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
پچھلے ایک ہفتے کے دوران بہتری اور ابتری دونوں کا دانشمندی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بجا ہے کہ غربت اور مسائل موجود ہیں لیکن اگر حالات پر گرفت نہ رہی تھی تو پھر کیا کیا جائے گا؟۔
اس امر پر بھی ہر کس وناکس پریشان ہے کہ جس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اعتماد اور تعاون بڑھانے کی ضرورت تھی کچھ وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی کے رہنما دودھاری تلوار سنبھالے کشتوں کے پشتے لگانے پر مُصر ہیں۔
پچھلے دور میں جب حکمران نون لیگ کیخلاف مذہبی کارڈ کھیلا گیا یا پھر تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک مرحلہ پر نون لیگ نے وزیراعظم کیخلاف مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہر دو مواقع پر ان سطور میں عرض کیا کہ سیاست کو مذہبی تعصبات کی غذا فراہم کرنے والے خود تو نقصان اُٹھائیں گے ہی مگر ان کے اس طرزعمل سے قومی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
اُستاد فاروق احمد چڑی کے شاگرد رشید جناب فیصل واوڈا ور دیگر کو بطورخاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جس پیپلزپارٹی پر مذہبی تعصب برتنے کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ تو خود مذہبی دہشتگرد کا شکار ہوتی آئی ہے۔
کورونا مریضوں کے حوالے سے دستیاب اعداد وشمار اور پھیلنے کی وجوہات ہر دو کو حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی مرض یہاں تک کہ نزلہ، بخار اور کھانسی کو بھی کوئی شخص بطورخاص دعوت نہیں دیتا کہ آئیے آپ کی میزبانی کروں۔
کورونا ایک وبا ہے، وبا کیسے پھیلتی ہے اس پر سستی دانشوری جھاڑنے کی بجائے ماہرین سے رہنمائی لینا ضروری ہے۔
ایک قلم مزدور کی حیثیت سے حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر سیاپا فروشی کے اوقات میں سیاست پر گفتگو اور تجزیہ عسکری ماہرین سے اور صحت کے شعبہ کے حوالے سے موجودہ صورتحال میں تجزیہ ان لوگوں سے کروایا جاتا ہے جن کا علم صرف یہ ہے کہ ہم اچھے اور باقی کی ساری دنیا چور اُچکے مذاہب دشمن ہے۔
ارے خدا کے بندو ایک سے بڑھ کر ایک باشعور طبی ماہر اس ملک میں موجود ہے، سیاپا فروشی کی بجائے سنجیدہ پروگرام کیجئے اور طبی ماہرین کو بلاکر عوام میں آگہی پھیلانے میں حصہ ڈالئے۔
چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان سفید پوشوں کے بارے میں بھی سوچیں جو لگی بندھی آمدنی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور موجودہ حالات میں کسی کو اپنی حالت زار بتانے سے بھی قاصر ہیں۔
یہ اوسط درجہ کی تنخواہوں پر کام کرنے والے سفیدپوش ہیں، ان کی عزت نفس مجروح کئے بغیر امداد وبحالی کا کوئی پروگرام بننا چاہئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر