نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بادشاہ کی اداکاری ۔۔۔ رؤف کلاسرا

چلیں مان لیتے ہیں ہر انسان پتھر کا نہیں ہوتا اور زندگی میں ایسے مواقع آجاتے ہیں جب آپ بادشاہ ہو کر بھی ایک عام انسان کی طرح بے بسی محسوس کرتے ہیں

بحران کے دنوں میں ایک لیڈر کا رویہ کیسا ہونا چاہیے‘ اور کیا ایک لیڈر کو عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے رونا چاہیے؟

یہ سوال اس لیے ذہن میں آیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر خان صاحب کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو رہا ہے۔ وہ کلپ بعد میں ایک دو ٹی وی چینلز نے بھی چلایا۔ اس کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ خان صاحب ایک کرسی پر افسردہ بیٹھے ہیں اور ان کے ہاتھ میں تسبیح ہے۔ چہرے پر دنیا بھر کی فکر اور پریشانیاں نمایاں ہیں۔ لگتا ہے کہیں قریب ہی کوئی بندہ نیچے لیٹ کر ان کے چہرے پر اپنے موبائل کیمرے سے فوکس کیے ہوئے ہے۔ خان صاحب کن انکھیوں سے کیمرے میں بار بار دیکھ بھی لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اچانک رونے لگ جاتے ہیں اور کیمرہ سب کارروائی نوٹ کرتا رہتا ہے۔ جتنے قریب سے یہ ویڈیو بنائی گئی‘ وہ کسی ایسے بندے کا کام ہے جو خان صاحب کو جانتا ہے اور خان صاحب کو بھی علم ہے ویڈیو بن رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ”لائٹس، کیمرہ، ایکشن‘‘ جیسا کام ہوا ہے۔

چلیں مان لیتے ہیں ہر انسان پتھر کا نہیں ہوتا اور زندگی میں ایسے مواقع آجاتے ہیں جب آپ بادشاہ ہو کر بھی ایک عام انسان کی طرح بے بسی محسوس کرتے ہیں اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ پرائیوئٹ کلپ ہو اور کہیں سے لیک ہوگیا ہو۔ لیکن اس وقت یہ شکوک جنم لیتے ہیں کہ شاید یہ کلپ جان بوجھ کر ”لیک‘‘ کیا گیا تاکہ بتایا جا سکے کہ جیسے ہم پرانے دور کے بادشاہوں اور خلیفوں کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ وہ لوگوں اور قوم کے دکھوں پر آنسو بہاتے تھے‘ ایسے ہی ہمارا حکمران بھی عوام کے دکھ میں رو رہا ہے۔

اب اس کلپ کو پی ٹی آئی کے ہمدرد ٹویٹر اکائونٹس سے ٹویٹ کیا جارہا ہے اور داد سمیٹی جارہی ہے کہ حکمران ایسے ہوتے ہیں جو عوام کے درد میں روتے ہوں۔ بعض اکائونٹس میں تسلیاں دی گئی ہیں کہ اے ہمارے عظیم لیڈر آپ نہ روئیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔یہ نیا بیانیہ ہے جو تشکیل دیا جا رہا ہے۔ پہلے برسوں تک یہ بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ عمران خان نے جمائما خان کے اربوں ٹھکرا دیے تھے۔ پھر یہ بیانیہ بنایا گیا کہ اگر خان چاہتا تو یورپ میں بڑی اچھی زندگی گزار سکتا تھا‘ لیکن اس نے قوم اور ملک کو ترجیح دی۔ خود خان صاحب نے اس بیانیے کو یہ کہہ کر مضبوط کیا کہ وہ چاہتے تو لندن میں عیاشی کی زندگی گزار سکتے تھے‘ یا وہ بیانیہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ میں ان سب کو لائوں گا۔ اب دو سال کے اقتدار کے بعد یہ کلپ ”لیک‘‘کرنا پڑ گیا ہے جس میں خان صاحب کو روتے دکھایا گیا ہے۔

اپوزیشن سیاستدان اس کلپ پر پھبتیاں اور جملے کس رہے ہیں۔ تو کیا حکمرانوں کو روتے دیکھ کر عوام کے دلوں میں محبت جاگ جاتی ہے؟ وہ ایسے حکمران سے زیادہ محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں؟ کیا ان کے اندر تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے کہ ملک اعصابی طور پر مضبوط قیادت کے ہاتھوں محفوظ ہے؟ میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ اس طرح رونا دھونا عوام میں عدم تحفظ کو بڑھا دیتا ہے۔ حکمران کو لوگوں کی ہمدردی وقتی طور پر ضرور مل جاتی ہے لیکن لوگ ترس کھانا شروع کر دیتے ہیں اور جس حکمران پر ترس کھایا جاتا ہے وہ حکمران نہیں ہوتا۔

پاکستان میں عمران خان صاحب سے پہلے جو وزیر اعظم سرعام آنسو بہانے لگ جاتا تھا وہ ملک معراج خالد تھے۔ فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت توڑ کر انہیں نگران وزیر اعظم لگایا تھا۔ پہلے ان کی شرافت اور سادگی مشہور تھی اور پھر تیسری وجۂ شہرت ان کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے تقریبات میں خطاب کے دوران رو پڑنا تھا۔ اگرچہ وقتی طور پر انہیں بہت داد ملی کہ ہمارا وزیراعظم لوگوں کا دردمحسوس کرکے رو پڑتا ہے۔ مداحوں نے کالموں کی بھرمار کردی۔ اس دور میں موبائل فون کیمرہ تھا‘ نہ ہی سوشل میڈیا‘ ورنہ کلپ ”لیک‘‘ کرائے جاتے۔

مجھے یاد ہے میں نے اس وقت بھی دوستوں کو کہا تھا کہ ایسا وزیر اعظم قوم کا مورال ڈائون کرتا ہے جو سرعام رو پڑتا ہو۔ عام لوگ کس کو اپنا بادشاہ بنانے پر تیار ہوتے ہیں؟ جو مضبوط اعصاب کا مالک، بہادر اور حوصلے والا ہو۔ جو انہیں ہر قسم کے خطرات اور بلائوں سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پہلے زمانوں کے بادشاہوں کی اگر کہانیاں پڑھیں تو ایک بات ان بادشاہوں میں مشترک تھی کہ وہ سب بہادر اور جسمانی طور پر طاقتور تھے۔ اس دور میں طاقتور اور بہادر ہونا بادشاہ کے لیے ضروری تھا‘ عقل مند یا سمجھدار ہونا ضروری نہیں تھا۔ آج کل میں اپنے بیٹے کو Ancient Greek Tragic Plays پڑھا رہا ہوں جو ڈیرہ ہزار سال پہلے لکھے گئے تھے۔ اسے پہلا ڈرامہ سوفوکلیز کا لکھا ‘بادشاہ ایڈیپس‘ پڑھا رہا ہوں جو مجھے لیہ کالج میں بی اے انگریزی لٹریچر کلاس میں پروفیسر شبیر نیر نے ریفرنس کے طور پر پڑھایا تھا۔ میں اس ڈرامے سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ اس کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہمارے لیہ کے صحافی دوست انجم صحرائی کے اخبار میں قسط وار چھپا۔ اب اس ڈرامے میں ایڈیپس کو اس لیے بادشاہ بنایا جاتا ہے کہ ریاست کا بادشاہ قتل ہو چکا ہے اور وہ شہر میں داخل ہو کر شہر کی ایک عذاب سے جان چھڑاتا ہے اور لوگ ایک اجنبی کو اس لیے اپنا بادشاہ مان لیتے ہیں کہ اس نے انہیں بلا کے چنگل سے چھڑایا تھا۔ اب اگر بادشاہ خود بلا کے ڈر سے رو رہا ہو تو لوگ اسے کیسے اپنا بادشاہ مانیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر دور اور ہر زمانے میں پوچھا جاتا ہے اور جب بھی آپ کتابیں پڑھتے ہیں تو اس کا جواب بھی ملتا ہے۔

جنگ عظیم دوم جہاں پورے یورپ کے لیے تباہی لائی وہیں یورپ کے دو سیاستدانوں یا حکمرانوں کے لیے ایک بڑا موقع بھی لائی۔ ایک آپشن چرچل کے پاس تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اعصاب پر قابو نہ پا سکتا‘ لیکن اس کی ایک تقریر اور ایک فقرے نے پوری تاریخ بدل دی۔ چرچل کا وہ فقرہ آج ہر جگہ دہرایا جاتا ہے کہ اگر عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو برطانیہ کو شکست نہیں ہو گی۔ پانچ سال جنگ لڑی۔ ڈیگال کو دیکھ لیں‘ جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا۔ وہ بھاگ کر لندن چلا گیا اور وہاں سے فرانس کی جنگ لڑی اور جنگ کے بعد پہلا صدر بنا۔ اسے کچھ عرصے بعد احساس ہوا اس کے پاس اتنی پاورز نہیں کہ وہ فرانس کو بدل سکے۔ اس نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا کہ اگر وہ اپنے ملک کو نہیں بدل سکتا تو اسے یہ کرسی اور پروٹوکول نہیں چاہیے۔ اس نے کہا کہ وہ فرانس کو لیڈ کرے گا تو اپنی شرائط پر کرے گا۔ دس سال بعد پورا فرانس ڈیگال کو واپس لے آیا۔ اس نے اپنی شرائط پر اقتدار لیا اور اس نے جدید فرانس کی بنیاد ڈالی۔

ہو سکتا ہے یہ بڑی چھوٹی باتیں لگتی ہوں لیکن ان کے اندر بہت کچھ چھپا ہوا ہے کہ عوام کیسا حکمران چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے جیسا عام بندہ حکمران نہیں چاہیے‘ جو ان کی طرح مسائل پر روتا ہو یا رونے کی اداکاری کرتا ہو۔ بل کلنٹن نے جب جھوٹ بولا تو اس کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ عوام نے کہا: بھائی تم نے اگر ہم عوام جیسی حرکتیں کرنی ہیں تو پھر وائٹ ہائوس سے نکلو اور ہمارے ساتھ پب میں بیٹھ کر یہ کام کرو‘ ہم مائنڈ نہیں کریں گے۔ اگر بادشاہ ہو کر ہماری طرح افیئر چلا کر جھوٹ بھی بولنے ہیں تو پھر واپس آئو۔

میں آج کل ہندوئوں کی کتاب رامائن پڑھ رہا ہوں اورحیران ہوں کہ ہزاروں سال پہلے کی اس داستان میں بادشاہ کی درجنوں صفات گنوائی گئی ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کاانسان بھی ایسا بادشاہ چاہتا تھا جو ہرلحاظ سے عام انسانوں سے بہتر ہو۔ بادشاہ کسی کو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ وہ دعویٰ رکھتا ہے کہ اسے خدا نے وہ صفات ڈال کر پیدا کیا ہے جو عام انسانوں میں نہیں ہیں‘ لہٰذا اسے اپنے جیسے انسانوں کی زندگی موت کے فیصلے کرنے کا حق ہے۔ بادشاہ بننے کی خواہش رکھنا، بادشاہ بن جانا اور پھر بادشاہ کی طرح حکمرانی کرنا مختلف چیزیں ہیں۔

میل گبسن کی فلم Braveheart کا وہ سین یادآگیا جب بادشاہ اپنے نالائق بیٹے سے شدید مایوسی کی حالت میں چلا کر کہتا ہے: مجھے علم ہے تمہارے اندر بادشاہ والی خوبیاں نہیں لیکن کم ازکم بادشاہ ہونے کی اداکاری تو کر سکتے ہو۔

About The Author