محترم قارئین کرام،، میں اپنی بات کرنے سے قبل ضلع رحیم یار خان تحصیل خان پور میں گذشتہ روز پیش آنے والے دو افسوسناک واقعات کی خبریں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں
خان پور کے علاقہ ججہ عباسیاں کے نواحی موضع گھانگلا میں گھر کی دیوار گرنے سے ملبے تلے دب کر 3 کم سن بہنیں جاں بحق ہوگئیں-
واقعہ موضع گھانگلا کی بستی گنج پور میں پیش آیا ریسکیو زرائع کے مطابق مذکورہ بستی کے رہائشی مختار احمد کے گھر کی خستہ حال دیوار کے ساتھ مختار احمد کی 3 بیٹیاں 5 سالہ ثنیہ 8 سالہ ماریہ اور 10 سالہ ثناء کھیل رہی تھیں کہ بوسیدہ دیوار اچانک گر گئی اور تینوں بہنیں دیوار کے ملبے تلے دب گئیں جن کو فوری طور پر ملبے سے نکالا گیا مگر جانبرد نا ہوسکیں- واقعہ کے بعد گھر میں کہرام مچ گیا، والدین پر غشی کے دورے، افسوس ناک واقعہ کے بعد علاقہ کی فضاء بھی سوگوار ہوگئی.
دوسری خبر کچھ اس طرح ہے کہ مین ہول میں گرنے والی بکری جو نکالنے کی کوشش کرنے والے 3افراد جان بحق ہو گئے. یہ افسوس ناک واقعہ خان پور کے محلہ فرید آباد میں پیش آیا. جہاں باسط ولد ضیا، صدام حسین ولد خلیق الرحمن، علی حسن ولد خلیق الرحمن گھر کے اندر بنے ہوئے مین ہول میں گر جانے والی بکری کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے. اسی دوران تینوں زہریلی گیس کے باعث بے ہوش ہو گئے اور ڈوب کر جان بحق ہو گئے. مرنے والوں میں دو سگے بھائی ہیں. اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122نے موقع پر پہنچ کر تینوں کی لاشیں نکال لیں اور انہیں ہسپتال منتقل کر دیا.
محترم قارئین کرام،،میری دعا ہے کہ اللہ تعالی مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جیمل سے نوازے. آمین. افسوس ہوتا ہے ہونا بھی چاہئیے مگر میں سوچتا ہوں کہ ہم سب کو صرف افسوس کرنے تک ہی محدود رہنا چاہئیے یا اس کے لیے احتیاط اورحفاظتی تدابیر اور انتظامات کی طرف بھی بڑھنا چاہئیے.آخر ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور احتیاط کرنا کب اور کیسے شروع کریں گے.ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کی جانب پیش قدمی کرکے ہی بچاؤ اور بہتری کی طرف بڑھا جاسکتا ہے. اس طرح کے ملتے جلتے افسوسناک واقعات ہم تقریبا زورانہ پڑھتے سنتے دیکھتے ہیں.افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود بھی ہم، ہماری انتظامیہ اور ہمارے حکمران نہ احتیاط کرتے ہیں اور نہ ہی اس بارے کوئی انتظامات اور قانون سازی کر کے روک تھام کی کوشش کرتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات میں انتظامیہ اور حکومت سے زیادہ عوام اور لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے. اپنی لاپرواہی کو نصیب اور تقدیر کا نام دے دینا بھی درست رویہ نہیں ہے. سر پر منڈلاتے خطرے کو دیکھتے ہوئے بھی احتیاط نہ کرنے کے رویے اور عاداتیں ترک کریں.لاچاریاں مجبوریاں اپنی جگہ مگر اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں ہے کہ بار بار اس طرح کے واقعات دیکھنے کے باوجود بھی ہم پیشگی حفظ ماتقدم کے طور پر انتظام نہ کریں احتیاط برتنے کی بجائے رسک لیتے رہیں.
مذکورہ بالا خبریں پڑھ کر میرے ذہن کی سکرین درجنوں سینکڑوں ایسے واقعات سامنے آ کر گھوم رہے ہیں. جن میں گھروں اور سکولوں کی دیواریں گرنے سے طلبہ و طالبات، بچوں اور بڑوں کے زخمی ہونے اور شہید ہونے کے واقعات ہیں. یہ مین ہول یا کنواں تو موت گھر ہیں. جو لوگوں نے خود اپنے گھروں میں بنا رکھے ہیں.گٹر کنواں کے علاوہ دوسرے ٹیوب ویل کنواں ہیں. جن کی کھدائی کے دوران مزدوروں کے اوپر تودہ کرنے سے شہید ہو جانے کے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں.مگر آج تک عوامی انتظامی اور حکومتی سطح پر اس سے بچاؤ کا کوئی معقول طریقہ کار اور ضابطہ ترتیب نہیں دیا گیا. بس واقعات پیش آتے ہیں ہم سب افسوس کرتے ہیں تقدیر قرار دے کر شہید ہونے والوں کو دفنا دیا جاتا ہے. اور بس. پھر وہی رویہ وہی چال ڈھال. وہی لاپرواہی کی زندگی. دنیا کے کام نہیں رکنے، ہونے ہیں، کرنے ہیں.مگر کیا بار بار کے پش آنے والے واقعات کے بعد ہمیں انفرادی اجتماعی انتظامی اور حکومتی سطح پر حفاظتی انتظامات نہیں کرنے چاہئیے.
گھروں کے اندر گٹر کنواں بیماریوں کی شکل میں ہمیں مفلوج کر رہے ہیں موت بانٹ رہے ہیں. ہم اپنے زیر زمین صاف پانی کو آلودگی اور گندگی کا شکار کر چکے ہیں.یرقان، ٹی بی، السر، معدے سمیت بعض دوسری بیماریوں کے پھیلاؤ میں ان کا بڑا کردار ہے. افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود لوگ یہ کام کر رہے ہیں. یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ آخر لوگ گلیوں یا گھروں کے اندر گٹر کنواں کھدنے پر کیوں مجبور ہیں.انتظامیہ اور حکمران اس بارے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی فکر تک سے عاری دکھائی دیتے ہیں. دوسری طرف لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے. رہن سہن سے لیکر کھانے پینے تک صفائی اور ستھرائی کا انتظام نہ کرکے ہم کئی دیدہ اور نادیدہ مسائل کے اندھے کنواں کی تیزی طرف بڑھ رہے ہیں. احساس کرکے حل نکالنے کی ضرورت ہے.شہروں میں قانون کے مطابق سہولیات فراہم نہ کرنے والی نام نہاد رہائشی سکیموں کو بین کیا جائے.حکومت اور عوامی نمائندے مضافاتی آبادیوں اور دیہی علاقوں کے عوام کو سیوریج نظام کی سہولیات فراہم کرکے گھروں میں موجود گٹر کنواں سے نجاب دلائیں. دیہی علاقوں کی آبادیوں کے سٹریکچر کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ سازی کریں.گٹر کے کنواں گھروں میں اور مال مویشیوں کا گوبر اور دیگر گندگی گلیوں اور سڑکوں کے کنارے ڈالنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے.دیہی عوام کی اکثریت میں یرقان کے بڑھتے ہوئے مرض کی یہ کیفیت ہے کہ میرے ضلع رحیم یار خان کا پاکستان میں دوسرا نمبر ہے. میرا، رحیم یار خان دیگر قومی نوعیت کے مافیاز کی پیدائش و افزائش میں بھی پیچھے نہیں ہے. شوگر مافیا ہو یا آٹا مافیا، ایرانی تیل سمگلنگ مافیا ہو یا منشیات مافیاز، رشوت خواری ہو یا کمیشن خواری رحیم یار خان تیزی سے ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے. پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ جوں کا توں موجود ہے. بہرحال کچھ مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں.اللہ کرے کہ احستاب اور انصاف کا سلسلہ بلاتفریق آگے بڑھے. معاشی آدم خور اژدھوں سے عوام کی جان چھوٹے. وہ اور وزیر اعظم عمران خان مل کر عوام کو ریلیف اور چھٹکارا فراہم کر سکتے ہیں. میں آخر میں 1122 کی سوچ، جذبے، کام اور کردار کو سلام پیش کرتا ہوں. یقینا 1122 کی خدمات قابل تعریف ہیں.موجودہ حکمرانوں کو بھی ایسی سوچ اپنانے اور ایسے مزید ادارے بنانے کی ضرورت ہے.
گھروں کے اندر گٹر کنواں بیماریوں کی شکل میں ہمیں مفلوج کر رہے ہیں موت بانٹ رہے ہیں. ہم اپنے زیر زمین صاف پانی کو آلودگی اور گندگی کا شکار کر چکے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر