مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یار فرید صوفی تاج گوپانگ۔۔۔ انجینئر شاہ نواز مشوری

"میں پوچھتا ہوں اگر عورت کی عصمت ہے تو کیا مرد اس گوہر سے خالی ہے؟ اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہوتا

انجینئر شاہ نواز مشوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفی تاج محمد خان گوپانگ ہم میں نہیں رہے ۔ ان کی یادیں، ان کی شخصیت، ان کی ادب دوستی، سرائیکی تحریک کیلئے بے انتہا خلوص کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ۔ ہر وقت متحرک ، ہر پل با خبر عالمی اور پاکستانی سیاست پر عبور ، دنیا میں چلنے والی ماضی یا حال میں سیاسی تحریک ہو یا ادبی تحریک سب پر عبورتھا ، یار کیا شخص تھا ان سب باتوں کے باوجود مجسم محبت ۔ نہ شہرت کی بھوک نہ وڈے ادمی بنڑڑ دا شوق ۔فقیر صفت ملنگ مزاج ہنس مکھ حاضر جواب یہ سب صفات اگر کسی عام آدمی میں ہوں تو وہ خدا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اگر اس کے اندر ہضم کرنے کی صلاحیت ہو تو پھر وہ صوفی کہلاتا ہے ۔
2006 میں ڈاکٹرز نے پارکنسن بیماری تجویز کی ، ڈاکٹر نے کہا تمہاری اواز میں لکنت اجائیگی، یاداشت ختم ہوجائیگی یہاں تک کہ تم اپنے کپڑے بھی تبدیل نہیں کرسکو گے ۔ پریشان نہیں ہوا گھبرایا نہیں خوف زدہ نہیں ہوا ۔ سٹیج کا بے تاج بادشاہ، محفل کا راجہ تھا اس نے بولنے کی صلاحیت ختم ہونے پر لکھنا شروع کردیا ۔اخری وقت تک لکھتا رہا ۔ سوشل میڈیا سے دوستی کرلی۔ فرماتے تھے
"میری عمر 73 سال ہے میں بیماریوں کے پاس گروی ہوں ۔ پھر بھی میں تھکا نہیں، رکا نہیں، قبر مجھے بلاتی ہے مگر میرے پاس فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ۔ عزرائیل میری وجہ سے دو مرتبہ معطل ہوا”
جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے مذہب کو پڑھا سمجھا ۔ ضیاء دور ایا آمریت کے مخالف ہوئے سرائیکی لوک سانجھ کے موہری بنے ۔ جب سرائیکی تحریک میں طے ہوا کہ اپنی سیاسی جماعت ہونی چاہیے تو بابائے سرائیکی تاج لنگاہ کے ساتھی بنے اور پاکستان سرائیکی پارٹی کے فرنٹ پر تھے ۔ سوچا گیا کہ لائیرز فورم ہونا چاہیے تو سرائیکی لائیرز تھنکر فورم کی بنیاد ڈالی ۔ جب سوچا گیا کہ سرائیکی قوم پرستوں کو پاکستان کے باقی قوم ہرستوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہیں تو اس کمیٹی کے ممبر بنے اور پونم کا حصہ بنننے میں کردار ادا کیا ۔
جب صوبہ محاذ بن رہا تھا تو بہت خوش تھے کہتے تھے کہ صبح کے بھولے شام کو واپس اجائیں تو ان کو آنے دو،ان کا ساتھ دو تاکہ کل کلاں یہ ہم ہر بہتان نہ لگا سکیں. تاہم اخری دنوں میں ان سے نا امید تھے۔
سیاست کو وہ کچھ اس طرح دیکھتے تھے۔
"مولوی مارچ
دوستو پاکستان پنجاب دے اڈھائی ضلعییں دا ناں اے باقی سب قوماں سرائیکی سندھی بلوچ پشتون تے پنجاب دا محنت کش طبقہ حکمرانیں دے جوٹھ پروتھ تے زندگی گزریندے سرائیکی صوبہ دی مثال سامنڑیں ھ وسیب دے ایم پی اے/ ایم این اے سارے کٹھے تھن صوبہ محاذ دے ناں تے تنظیم بنڑی اے لوکیں دا رخ، عوام دا رحجان ڈیکھ تے ریاستی ادارے پریشان تھی گن جو علیحدہ تنظیم بنڑا تے سرائیکی عوام کوں اپنڑی طاقت دا اندازہ تھی ویسی جو اساں تاں بہوں طاقتور ہاسے خوامخواہ آدھل صدی غلام رہ گیوں ایں اندیشے دے پیش نظر صوبہ محاز کوں (پی ٹی آئی) دی بیعت کرائی گئی. بلوچیں دے پتھر سونے دے تھی گن قیمتی معدنیات دا ذخیرہ، تیل وافر مقدار وچ لکیا لاتھے. انگریزی مشینیں دی چغلی تے بلوچ راتی رات ملک دشمن۔ کیہرا کیہرا حال ڈیواں انت شمار توں باہروں ڈکھ ہن. مولوی مارچ دا ہک ہک بینر پڑھیم کتھائیں وی کہیں محکوم قوم دا ناواں کائنی ساڈا کوئی مطالبہ پوری مارچ اچ کہیں مولوی دی زبان تے نئیں آیا سرائیکی قوم دا حال اے ھ جو اہدن بوم بسے یا ہما رہے ساڈا کیا”
پیلزپارٹی کو تل وطنی پارٹی کہتے تھے اور مسلم لیگ کو سرائیکی دشمن سمجھتے تھے
” وقت آیا تاں سدھ پئے گئی اے
سندھڑی دا ہے راول سچا
کوڑی تخت لہور دی جائی
بلاول سکا پتر اساڈا
مریم ما مترائی”
2016 میں جگ مشہور ادبی ثقافتی تنظیم ” سوجھل دھرتی واس ” کی بنیاد رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اگر یہ کہیں کہ سوچ ان کی تھی تو غلط نہ ہوگا ۔ سوجھل دھرتی واس کے اکثریتی رائے کی بنیاد پر سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اور بعد میں تا حیات اس منصب پر فائز رہے.
وہ میری بطور چئیر مین سوجھل دھرتی واس کوچنگ کرتے رہتے تھے۔ ان کا ہر میسج میرے لیے قولِ زریں کا درجہ رکھتا ہے ان میں سے دو میسج آپ دوستوں کی نذر کرتا ہوں
"الفاظ قربتیں بڑھاتے ھیں ، خاموشی فاصلے ۔
بات چیت جاری رکھیئے ،
یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئےآدمی سے ڈرتے ہیں۔”
"سوال کرنا علم کی نشانی ہے ۔۔بحث کرنا افضل کام ہے ۔۔خواب دیکھنا کائنات کی سب سے بڑی عیاشی ہے "
انہوں نے دو مطبوعہ اور ایک غیر مطبوعہ تصانیف قوم کے سپرد کی
1. صدیاں سچ الایا
2. قصہ کراں ست پُٹھا
3. سنگت کتھا (غیر مطبوعہ)
سنگت کتھا سے ایک کافی
ہار ھووے یا جیت فقیرا
چھوڑ نہ پیت پریت فقیرا
ساری نگری کوٹ حسینی
سارا ملک مسیت فقیرا
میت ملݨ نئیں جیت دا نانواں
سِک اے من دی میت فقیرا
توں وی ملاں بانگ توں پہلے
مست دھمال چا نیت فقیرا
ان کو ان کی ادبی ثقافتی خدمات کی بنیاد پر خواجہ فرید ایوارڈ ملا ۔
سوجھل دھرتی واس اور سرائیکی تحریک کو اس خلا کو پُر کرنے کیلے وقت لگے گا. یہ وقت اس طرح کم ہو سکتا ہے کہ ہم صوفی تاج کی تعلیمات اور فکر کو نئی نسل تک پہنچانے کے لئے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں.
17 دسمبر 2020 کو جمعرات کی شام ڈریٹ اوپن ائیر ہال فاضل پور میں صوفی صاحب کا تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جا رہا ہے. سنگت سے گزارش ہے کہ آئیں اور صوفی صاحب کے بتائے ہوئے صدیوں کے سچ میں سے اپنا اپنا سچ تلاش کریں.

یہ بھی پڑھیے:

سپینش فلو 1918 .1920 ۔۔۔انجینئر شاہنواز خان مشوری

قرنطینہ وچ چوتھا ڈنیہہ۔۔۔ انجینئر شاہ نواز مشوری

سنگ فرید کے ہوئے شمیم، گوتم نال حیدر عباس اور سادھو ہو گئے تاج گوپانگ ۔۔۔عامر حسینی

سرائیکی دانشور، لکھاری، شاعر ، مترجم اور سیاسی ورکرصوفی تاج گوپانگ، الوداع!۔۔رؤف لُنڈ

%d bloggers like this: