پہلی بات‘ گنا فصل یا پودا نہیں‘ یہ گھاس ہے اور اس کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے تھا‘ یہ ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں پیدا ہوتا تھا‘ ہندوستان کے لوگوں نے چار ہزار سال قبل گنے کا رس نکال کر گُڑ بنانا شروع کر دیا‘ شوگر سنسکرت کا لفظ ہے‘ہندوستان کے لوگ گنے کے رس (راب) کو مختلف کھانوں اور ادویات میں استعمال کرتے تھے‘ وہ گُڑ کی شکل میں اسے محفوظ بھی کر لیتے تھے‘ گنا ہندوستان سے تائیوان‘ تھائی لینڈ اور چین پہنچ گیا۔
چین اور ایران کے ساتھ تجارت شروع ہوئی تو یہ ایران آ گیا‘ ایران سے اسے عربوں نے اچک لیا اور عربوں سے یہ اندلس (سپین) چلا گیا اور گوروں نے اسے یورپ میں اگانے کی کوشش شروع
کر دی مگر یہ یورپ میں جڑ نہ پکڑ سکا‘ وجہ شاید یورپ کا موسم تھا‘ گنے کو گرم مرطوب موسم چاہیے‘ یہ بے تحاشا پانی بھی لیتا ہے اور یورپ میں کوئی گرم مرطوب علاقہ نہیں تھا لہٰذا یہ وہاں نہ اگ سکا‘ کولمبس نے 1492ء میں امریکا دریافت کر لیا‘ ہسپانیولا میں پہلی یورپی بستی بنی‘ یہ بڑا جزیرہ تھا‘ موسم گرم مرطوب تھا‘ میٹھا پانی بے تحاشا تھا‘ ہسپانوی جہازران 1501ء میں ہندوستان سے گنا لے آئے‘ زمین میں بویا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ تک پھیل گیا‘ تجربہ کام یاب ہو گیا اور ہسپانیولا سپین کے لیے شوگر فیکٹری بنتا چلا گیا‘ سپینش اور پرتگالی اس کے بعد ویسٹ انڈیز میں آگے بڑھتے گئے اور گنا بھی ان کے ساتھ پھلتا پھولتا گیا‘ یہ لوگ کیوبا اور برازیل گئے اور گنا بھی وہاں چلا گیا‘ سولہویں صدی میں چینی کی ساری انڈسٹری پرتگال اور سپینش کے ہاتھ میں تھی‘ یہ پوری دنیا میں چینی کا ریٹ طے کرتے تھے‘ یورپ میں چقندر سے چینی بنائی جاتی تھی‘ چقندری چینی برطانوی تاجروں کے کنٹرول میں تھی‘ گنا چقندر کے مقابلے میں زیادہ چینی دیتا تھا لہٰذا یہ بھی گنے کے شعبے میں آگئے اور ہندوستان میں شوگر ملز لگانا شروع کر دیں۔
آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور پیسفک آئی لینڈرز کی دریافت کے بعد برطانوی تاجر چینی کے دوسرے بڑے پلیئرز بن گئے‘ گوروں نے فجی اور پاپوا نیو گنی میں چینی کی ملیں لگائیں اور چینی کو پوری دنیا کے لائف سٹائل کا حصہ بنا دیایہاں تک کہ آج چینی ہر شخص اور ہر گھر کا حصہ ہے‘ ہم میں سے ہر شخص اوسطاً سالانہ 150پاؤنڈز (68 کلوگرام) چینی استعمال کرتا ہے اور یہ ہماری جسمانی ضرورت سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن ہم اب چینی کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے۔
دوسری بات‘ برازیل کا موسم اور ماحول گنے کے لیے سب سے زیادہ آئیڈیل ہے لہٰذا برازیل دنیا میں سب سے زیادہ شوگر بناتا ہے‘ یہ تین سو سال سے شوگر انڈسٹری کا لیڈر ہے لیکن پچھلے سال بھارت نے پہلی بار اسے مات دی‘ انڈیا شوگر پروڈکشن میں اس وقت دنیا میں نمبرون ہو چکا ہے‘ برازیل دوسرے‘ یورپی یونین تیسرے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ گنے کے بجائے چقندر سے چینی بناتی ہے‘ تھائی لینڈ چوتھے نمبر پر ہے تاہم یہ دنیا میں چینی کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے اور چین پانچویں نمبر پر ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں گنے پر سب سے زیادہ ریسرچ امریکا میں ہوتی ہے‘ امریکا کی ریاست ہوائی شوگر کین سٹیٹ کہلاتی ہے لیکن امریکا اس کے باوجود چینی درآمد کرتا ہے‘ کیوں؟ امریکا میں گنے کو لیزی مین کراپ (سست کسان کی فصل) کہا جاتا ہے‘ گنا فصل نہیں‘ یہ گھاس ہے‘ آپ یہ لگا دیں‘ کھیت میں پانی دیتے رہیں اور تین سال گنا کاٹتے رہیں‘ گنا کاٹنے کے بعد گھاس کی طرح دوبارہ اگ آئے گا چناں چہ گنا کاشت کرنے والے کسان سست ہو جاتے ہیں۔
یہ کسی دوسرے کام کے قابل نہیں رہتے‘ دو‘ گنا بے تحاشا پانی پیتا ہے‘ یہ جس جگہ لگایا جاتا ہے یہ وہاں کا سارا پانی پی جاتا ہے اور وہ علاقہ جلد یا بدیر بنجر ہو جاتا ہے اور تین‘ چینی بنانا ایک مہنگا کام ہے چناں چہ امریکا اپنی ضرورت کی چینی برازیل اور تھائی لینڈ سے امپورٹ کر لیتا ہے اور کھیتوں میں مکئی‘ پھل اور دالیں اگاتا ہے‘ یہ ہوائی میں بھی گنے کی جگہ انناس کو فوقیت دے رہا ہے۔تیسری بات‘ ہم اب پاکستان میں آتے ہیں‘ پاکستان نوے کی دہائی تک دنیا میں کپاس اگانے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔
پاکستان کی کپاس دوسرے نمبر پر آتی تھی لیکن پھر سیاست دان شوگر انڈسٹری میں آئے اور یہ آہستہ آہستہ کاٹن ایریا کو شوگر ایریا میں تبدیل کرتے چلے گئے یہاں تک کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھی کم ہو گئی اور یہ غیر معیاری بھی ہوتی چلی گئی‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی ہم اب دھاگا امپورٹ کرتے ہیں‘ ہماری کاٹن انڈسٹری بڑی تیزی سے چین اور بھارت کی محتاج ہو رہی ہے‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ملک میں پچھلے بیس برسوں میں کاٹن پر کوئی ریسرچ نہیں ہوئی‘ کیوں؟
کیوں کہ شوگر مافیا نے یہ ہونے نہیں دی‘ آپ پچھلے بیس برسوں کے وزیرصنعت اور زراعت نکال کر دیکھ لیجیے‘ یہ عہدے ہمیشہ جاگیرداروں کو ملتے ہیں اور جاگیر دار کاٹن پر ریسرچ نہیں ہونے دیتے تھے‘ وجہ؟ یہ سمجھتے ہیں کاٹن پر ریسرچ ہو گئی تو کسان گنے کی جگہ کپاس اگائے گا اور اس سے ان کو نقصان ہو گا اور دوسرا ملک 20 برسوں سے شوگر مافیا کے کنٹرول میں ہے‘ آپ پچھلے بیس برسوں میں ملک کے تمام بڑے لوٹے دیکھ لیں‘ آپ کو شوگر مافیا پارٹیاں بدلتا نظر آئے گا۔
یہ لوگ ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور زراعت اور تجارت کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں‘ سوال یہ ہے یہ لوگ شوگر انڈسٹری میں کیوں ہیں؟ آپ جان کر حیران ہوں گے یہ دنیا کی واحد انڈسٹری ہے جس کا را مٹیریل (گنا) ادھار ملتا ہے‘ یہ لوگ مل لگانے سے لے کر شوگر سٹور کرنے تک بینک سے ایک دھیلا قرض نہیں لیتے‘ یہ کسان کو نچوڑتے رہتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے کسان پھر گنا کیوں اگاتا ہے‘ یہ کوئی اور فصل لگا لے؟ وجہ صاف ظاہر ہے‘گنا ”لیزی مین کراپ“ ہے۔
آپ ایک بار بوئیں اور تین سال تک کاٹتے رہیں چناں چہ کسان اپنی سستی کی وجہ سے بلیک میل ہوتا رہتا ہے‘کسان کی مجبوری سے شوگر مافیا بنا‘ یہ سیاسی جماعتوں اور بیورو کریسی میں آیا اور زراعت اور انڈسٹری دونوں کو یرغمال بنا لیا‘ یہ لوگ تمام سیاسی جماعتوں میں ہیں‘ یہ اپنی مرضی کی حکومتیں لے آتے ہیں اور ناپسندیدہ حکومتیں گرا دیتے ہیں‘ عمران خان کی حکومت اس کی تازہ ترین مثال ہے‘ شوگر مافیا نے 2013ء کے بعد عمران خان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔
یہ حکومت آج بھی شوگر مافیا کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے‘ اگر صرف یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو وفاق اور پنجاب دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔چوتھی بات‘ یہ لوگ کرتے کیا ہیں؟ یہ کمال کرتے ہیں! یہ پاکستان کے عوام کو لوٹتے ہیں‘ کیسے؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں پاکستان میں گندم اور چینی دونوں پوری دنیا سے مہنگی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ 21 کروڑ لوگوں کی روزانہ کی خوراک ہے‘ یہ ملک ان دونوں اجناس کی سب سے بڑی منڈی ہے چناں چہ یہ لوگ اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پاکستان میں سالانہ 50 لاکھ ٹن چینی کی کھپت ہے‘ ہماری پیداوار جس سال زیادہ ہو جائے مالکان حکومت کو مجبور کر کے اس سال چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت لے لیتے ہیں لیکن یہ اس سے پہلے حکومت سے ایکسپورٹ سبسڈی لیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہماری چینی مہنگی ہوتی ہے‘ یہ عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پاتی لہٰذا ”ڈیفرنس“ حکومت برداشت کرتی ہے‘ سوال یہ ہے حکومت کیوں برداشت کرتی ہے؟ کیوں کہ یہ لوگ تگڑے ہیں‘ اگلا سوال یہ ہے کیا یہ ایکسپورٹ سے پیسہ کماتے ہیں؟
جی نہیں! انہیں ایکسپورٹ میں نقصان ہوتا ہے‘ یہ سبسڈی سے چینی کی کاسٹ نکالتے ہیں اور ایکسپورٹ کے بعد ملک میں مصنوعی قلت پیدا کر کے چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور اس سے اربوں روپے بناتے ہیں‘ 2018ء اور 2019ء میں بھی یہی ہوا تھا‘ ملک میں 52 لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی تھی‘ ہماری ضرورت 50 لاکھ ٹن تھی‘ دو لاکھ ٹن اضافی تھی‘ یہ لوگ حکومت میں بیٹھے تھے لہٰذا دو سیکرٹریوں کے چیخنے کے باوجود وفاقی کابینہ نے 11 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔
پنجاب نے مالکان کو تین ارب روپے سبسڈی بھی دے دی‘ چینی باہر چلی گئی اور ملک میں قلت پیدا ہو گئی‘ قیمت بڑھی اور یہ 55 روپے سے 80 روپے کلو گرام ہو گئی یوں ان لوگوں نے 87 ارب روپے کما لیے‘ جہانگیر ترین کے پاس مارکیٹ کا 20 فیصد اور خسرو بختیار کے پاس 15 فیصد شیئر ہے لہٰذا 87 ارب کا 35 فیصد ان دونوں کی جیب میں چلا گیا اور باقی حصہ ان کے دوستوں اور دوسرے سیاست دان کی جیب میں جا گرا۔ہم اب آخری بات کی طرف آتے ہیں۔
کیا عمران خان چینی مافیا پر ہاتھ ڈال سکیں گے؟ میرا خیال ہے نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم نے اگر ہاتھ ڈالا تو یہ حکومت چلی جائے گی‘ حکومت یہ رپورٹ بھی جاری نہیں کرنا چاہتی تھی‘ رپورٹ وزیراعظم آفس میں پڑی تھی‘ وزیراعظم کے ایک مشیر نے یہ کاپی نکال کر محمد مالک اور ارشد شریف کو دے دی‘ رپورٹ میڈیا میں بریک ہو گئی اور یوں حکومت اسے ”اون“ کرنے پر مجبور ہو گئی لہٰذا مجھے محسوس ہوتا ہے یہ ایشو جلد یا بدیر کرونا کی خبروں میں دب جائے گا۔
کومت مزید مٹی ڈالنے کے لیے سابق حکومتوں کے قرضوں کا ایشو اٹھا رہی ہے لہٰذا کرونا اور قرضہ کمیشن کی رپورٹ مل کر یہ رپورٹ نگل جائے گی‘ شوگر مافیا کا اپنا خیال ہے کرونا کے مریضوں کی تعداد لاکھ تک پہنچنے کی دیر ہے اور آٹا ہو یا چینی ساری رپورٹیں غائب ہو جائیں گی چناں چہ آپ آج سے کرونا اور قرضہ کمیشن رپورٹ پر توجہ دینا شروع کر دیں‘ آپ کو بہت جلد چینی رپورٹ کی خبر‘ خبر نظر نہیں آئے گی۔ جیے شوگر مافیا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی