نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے: فافن

حکومت اور حزب ِاختلاف کی جماعتوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے

کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے: فافن

اسلام آباد ،

2 اپریل 2020: فری اینڈفیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے حکومت اور حزب ِاختلاف کی جماعتوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حالیہ وبا اور اس کی وجہ سے

درپیش صحت ِ عامہ ومعیشت کے سنگین بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوکر کام کریں اور اتفاقِ رائے سے فیصلے کریں۔

یہ اتحاد نہ صرف بہتر اور جامع پالیسی سازی کے لیے ضروری ہے بلکہ ان مشکل حالات میں قوم کو باہمّت اور پُرامید رکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔

اس وقت طبّی عملہ، سرکاری ملازمین اور سول سوسائٹی کووِڈ-19 نامی اس وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں

اور ایسے میں سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات ان کی کوششوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں ۔ ان حالات میں سیاسی تنازعات لوگوں میں غیر یقینی اور خوف کی فضا کو فروغ دیں گے

حالانکہ اس وقت قوم کو اپنے راہنماؤں سے امید کی توقع ہے۔ ایسے میں سب سے پہلے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کی مثبت تجاویز کو سنے اور اور سیاسی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرے۔

اگرچہ اس وبا کے شروع میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے حوصلہ افزا بیانات سامنے آئے تھے، تاہم جوں جوں اس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،

توں توں سیاسی راہنما بھی اپنی دیرینہ چپقلشوں کو ہوا دینے لگے ہیں۔ کووِڈ-19 کی پاکستان میں تشخیص کے کچھ عرصہ بعد ہی صوبے اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانی والی ایک دوسرے کی کاوشوں کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔

اس پر مستزاد یہ کہ گذشتہ ہفتے بلایا جانے والا پارلیمانی راہنماؤں کا اجلاس بھی متنازع ہوگیا جس کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت ایک مثبت پیش رفت تھی لیکن ان کا حزب اختلاف کی رائے اور خدشات کو سنے بغیرچلے جانے سے مبینہ طور پر سیاسی اختلافات کو ہوا مِلی ۔

وزیراعظم کے یوں رخصتہو جانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور یوں سیاسی اتفاق ِرائے پیدا کرنے کا ایک قیمتی موقع ضائع کردیا گیا۔

ان سیاسی تنازعات کی وجہ سے حال ہی میں قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی برائے کووِڈ-19 کی کارکردگی متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل اس 25 رکنی کمیٹی کے قیام کا مقصد کووِڈ-19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے بنائے جانے والے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد اور اس کے معاشی مضمرات پر نظر رکھنا ہے۔

یہ کمیٹی اس بحران سے نمٹنے کے لیے متفقہ اور مؤثر لائحہ عمل کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ تاہم ، بڑی سیاسی جماعتوں کےحالیہ متنازع بیانات اس کمیٹی کی کارکردگی پر اثراندا ہوسکتے ہیں۔

ایک جانب عوام خوفزدہ ہیں، دوسری جانب حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ حکومتی ترجمان حزب اختلاف کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں

اور حزبِ اختلاف وفاقی حکومت کو کوس رہی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق حال ہی میں وفاق اور سندھ کے درمیان تجارتی سامان کی ترسیل اور بین الصوبائی نقل و حمل پر سے پابندیاں ہٹانے کے معاملے پر تنازع پیدا ہوگیا ۔

سندھ حکومت کے مکمل لاک ڈاؤن پر اصرار کے بعد وزیراعظم نے رینجرز کو احکامات جاری کردیے کہ وہ قومی رابطہ کمیٹی کے احکامات کی روشنی میں صوبے میں سامان کی نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔

دونوں طرف سے متضاد بیانات کے باعث صورتحال ابھی تک غیرواضح ہے۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومتیں اپنی مرکزی قیادت کو وفاق کے عدم تعاون کی شکایتیں کر رہی ہیں۔

ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی اپنی صفوں میں بھی اتفاق ِرائے کا فقدان نظر آرہا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس وبا کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی حکمت عملی وفاق سے الگ نظر آرہی ہے

حالانکہ تینوں جگہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ایک حالیہ خبر میں وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے بتائے جانے والے ٹیسٹنگ کے اعداد و شمار کو مشکوک اور صوبائی حکومت کے مریضوں کے ساتھ ’’مجرموں جیسے سلوک‘‘ کو غلط قرار دیا ہے۔

اسی طرح سندھ حکومت کے اس وبا کے خلاف جارحانہ اقدامات کے باوجود صوبائی حکمران جماعت کے چئیرمین کی جانب سے اپنی ہی حکومت کو کسی ممکنہ کوتاہی پر سخت ردعمل کااشارہ دیا گیا ہے۔

حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے غیر منظّم اقدامات اور ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیانات عوام کو مزید پریشان کر رہے ہیں جو کہ پہلے ہی مریضوں اور اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہیں۔

اس قدر سنگین بحران میں ایسے رویے ایک قومی بیانیے کی تشکیل کے لیے کسی طور سود مند نہیں ہیں۔
خوش آئند طور پر ان حالات میں مذہبی سیاسی جماعتیں نہایت مثبت کردار ادا کرتی نظر آرہی ہیں۔

جماعت اسلامی نے اس وبا کے پھیلتے ہی مہنگائی کے خلاف جاری اپنی احتجاجی مہم ختم کردی ۔ اس وبا سے نمٹنے کی کوششوں کے سلسلے میں جماعت نے اپنی فلاحی تنظیم کے زیرانتظام چلنے والے تمام ہسپتال ،

ڈسپنسریاں اور طبی عملہ بھی حکومت کے سپرد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما بھی حکومت پر تنقید سے گریز کرتے نظر آرہے ہیں۔

جمیعت کے سربراہ نے بھی اپنی جماعت کے رضاکاروں کو وبا کے پھیلاؤ سے نمٹنے اور ضرورتمندوں میں خوراک کی تقسیم کے سلسلے میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کی تلقین کی ہے۔

اس صورتحال میں فافن سیاسی قیادت پر زور دیتا ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کی مربوط حکمت عملی بنانے کے لیے فوری طور پر پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلیوں اور مشترکہ مفادات کونسل جیسے آئینی اداروں کو بروئے کار لایا جائے تا کہ وفاق اور صوبوں کے اقدامات کو ہم آہنگ کیا

جاسکے اور مزید مؤثر بنایا جاسکے۔ اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کے لیے ٹیلی کانفرنسنگ کی سہولت بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور اس ضمن میں ہر ضلع کی انتظامیہ کو احکامات جاری کیے جاسکتے ہیں کہ

وہ اپنے دفاتر میں ویڈیو لنک کی سہولیات سے آراستہ ایک کمرہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے وقف کرے جہاں سے وہ اجلاس میں شریک ہوسکیں۔

فافن دوبارہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قومی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے ۔

یہ غیر معمولی حالات جرات مندانہ اقدامات کے متقاضی ہیں وگرنہ ملک کو درپیش غربت ، روزگار اور معاشی مسائل مزید گھمبیر ہوسکتے ہیں۔

About The Author