ہم اپنی زندگی میں تاریخ کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں ان واقعات پر بحث بھی کرتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہمارے زندگی میں بھی تاریخ ساز لمحے آ سکتے ہیں اور اس دور کا رد عمل بعد میں تاریخ کی کتابوں میں درج ہو گا۔
آج ہماری زندگی میں جو واقعات پیش آ رہے ہیں وہ گویا عملی تاریخ کا ایک باب ہیں۔زندگی کی تمام حقیقتیں ایک نیے روپ کے ساتھ متشکل ہو رہی ہیں۔
ہمارے سامنے ہمارے کردار کی پستیاں اور بلندیاں بے نقاب ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا کی اقوام ایک خوف میں مبتلا ہیں ۔آج ہمارا جو رد عمل ہے وہ یہ ثابت کرے گا کہ قوموں کی امامت کے لیے کون سامنے آتا ہے۔
امتحان کی اس گھڑی میں پوری امت اور پاکستانی عوام نے اپنے آپ کو امامت کا اہل بننے کے لیے ثبوت دینے ہیں۔ جب ہر طرف کرونا کی بیماری کا شور غوغا ہے انسان مجبور ہے تو ہمارے معاشرے کے لوگ ان مجبوریوں کو دولت کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں یا ایثار اور قربانی کا ماڈل تعمیر کرتے ہیں۔
زندگی کی تمام حقیقتیں۔تلخیاں۔شیرینیاں ایک آئینے کی طرح ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ ہم تاریخ کے واقعاتی سٹیج پر موجود ہیں ۔یہاں ہم نے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور یہی تاریخ بنے گا۔ اس وقت سوال یہ نہیں کہ ہم کن مشکلات سے گزر رہے ہیں۔
کیونکہ یہ سب ہمارے کنٹرول میں نہیں۔اس وقت اہم بات یہ ہے کہ ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا رد عمل دکھاتے ہیں۔ آج ہم ایک دوراہے پر حیران و پریشان کھڑے ہیں ۔
کچھ لوگ ان مشکلات کو عذاب۔آزمائیش اور بدقسمتی تصور کر رہے ہیں حالانکہ یہ سمجھنے کی غلطی ہے کیونکہ یہ آپ کے عزم کا امتحان ہو رہا ہے اور آپ کو پہلے سے بڑا منصب دینے کا پرچہ شروع ہے ۔ یہ منصب کسی صورت آسانیوں اور راحت میں عطا نہیں کیا جاتا۔دشواریاں آپ کو اعلی ترین انسانی قدروں سے آشنا کرتی ہیں آپ کے اندر سوز و درد پیدا کر کے آپ کو منزل سے ہمکنار کرتی ہیں۔
مشکلات کو عبور کرنے کا ولولہ اور جذبہ ہی وہ اثاثہ ہے جو آپ کو بلند ترین انسانوں میں شامل کرتا ہے اور آپ تاریخ خواں کے مقابلے میں تاریخ ساز بن جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم جاری تھی جب برطانیہ کے پانچ لاکھ فوجی ڈنکرک کے مقام پر پھنس گیے۔جنگ کے دنوں میں پانچ لاکھ فوج کو نکالنا بہت مشکل کام تھا اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے قوم سے اپیل کی کی جن لوگوں کے پاس کشتیاں اور سٹیمر ہیں وہ خود اپنی کشتیاں لے کر ایک مقررہ مقام پر پہنچ جائیں تاکہ فوج نکالی جا سکے۔پھر دنیا نے دیکھا کوئی برطانیہ کا ایسا باشندہ نہیں تھا جس نے اس حکم کی تعمیل نہ کی ہو اور بلند کردار کا ثبوت دیا۔
آج پاکستان پر اللہ کا کرم ہے غلے کی کوئی قلت کا سامنا نہیں ہے۔گندم کی فصل بھی اچھی ہے اور کٹنا شروع ہو گئی ہے حکومت کے پاس وافر ذخائیر موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگ پوری دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والوں میں شامل ہیں۔
آپ نے اپنے اردگرد کے پچاس گھروں میں پانچ دس گھروں کا خیال رکھنا ہے ۔حکومت کو بھی نشاندھی کرنی ہے وہ بھی پہنچ رہی ہے بس امتحان یہ ہے کہ صبر۔ڈسپلن۔ایثار سے کام لینا ہے اور اللہ پر توکل اور مکمل بھروسہ رکھنا ہے۔
اللہ نےہر مشکل کے بعد آسانی کا وعدہ کر رکھا ہے بس اللہ کی نصرت کا یکجہتی سے انتظار کرنا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کے رہتا ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا مرحلہ ماحول کے چیلنج سے ظہور میں آتا ہے اور زیادہ چیلنج غریب قوموں اور افراد کو اس لیے درپیش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قدرت سے کمال و زوال کا سلسلہ الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
جب کوئی قوم عروج پر پہنچ کر اخلاقی قدریں کھو دیتی ہے اور عیش و عشرت اور ظلم و جبر میں مدھوش ہو جاتی ہے تو اللہ کمزور قوموں کو کھڑا کر کے سیادت عطا کر دیتا ہے۔ قران میں بھی یہ قانون اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ۔۔۔ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے اذن سے بڑی جماعتوں پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔البقرہ 249.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر