کورونا کی وبا کیا آئی، اپنے ساتھ یکمشت خطرات، تنھائی، ملائوں کے مشورے، اور ھم پاکستانیوں کے لیے بے سروسامانی کی حالت لیکر آئی۔ سجیلے جوانوں نے وطن کو ویسے بھی سال کا کوئی دن سکون، امن، پیار اور زندگی کے قریب رہنے نہیں دیا۔ اب تو وبا کے دن ہیں، اب تو دوری کے دن ہیں مگر جب جب امن، پیار اور ملن کے دن قریب آتے تو سجیلے جوان اپنے جنگی گھوڑے سنوار کر کسی نا کسی محاذ پر جنگی خطرات کا ماحول بنا لیتے، اور پھر بڑا عرصہ قوم کو ذھنی طور پر اسی جنگی کیفیت میں مبتلا رکھتے۔ یاد کرو گذرے ایک سال کے دن۔
اب جو ملک میں وبا آئی ہے تو پتا چلا ہے، 22 کروڑ کی آبادی میں کسی مریض کے سانسوں کو قائم رکھنے کے لیے پورے ملک میں وینٹیلیٹرز کی تعداد دو ھزار سے بھی کم ہے، ان میں بھی پورے فعال نہیں۔
اسپتالوں کی تعداد بھی تقریبن پانچ ھزار سے زیادہ نہیں۔ ایسے ہی مایوس کن اعداد و شمار بنیادی صحت مراکز اور ڈسپینسریز کے سامنے آئے ہیں۔ حکومت سے لیکر حزب اختلاف والوں کو اب پتا چلا ہے ملک میں زندگی بچانے اور سانسوں کو قائم رکھنے کے لیے ھمارے پاس کچھ نہیں تقریبن ہاتھ خالی ہیں۔
اس ملک میں لوگوں کو شاید اسی وجہ سے زندگی سے ڈرایا جاتا رہا ہے اور زندگی سے ڈرانے والوں کو وبا کے ان دنوں میں بھی اپنی ہجومی تبلیغ جاری رکھنے کا راستا دیا ہوا ہے۔
زندگی اور پھیپھڑے بچانے کی تیاری کروانے کے بجائے آج بھی آخرت کی تیاری کروائی جا رہی ہے۔ اس طرح یہاں موت کا چورن خوب بکا ہے اور زندگی سے موت کے عذاب کے نام پر ڈرایا گیا ہے، دور رکھا گیا ہے۔ ہر وقت جنگی گھوڑے تیار رکھے گئے ہیں، ان کو باندنے کی بات کم ہی ہوتی ہے۔ جو سال کے سب دن عوام کو جنگ اور آخرت کی تیاری میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں، اب دیکھ لیں یہ غریب لوگوں کا ملک ہے پندرہ دن کا لاک ڈائون اور کرفیو برداشت کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتا، وہاں آپ سالوں سے جنگ کا چورن بیچے جا رہے ہو۔ جنگیں غربت اور موت لاتی ہیں اور امن خوشحالی اور زندگی لاتا ہے۔ وبا کے دنوں آئی مشکلات سے سیکھو۔ آئو، زندگی کی بات کرو، زندگی کے لیے اور زندگی بچانے کے لیے سامان کٹھا کرو۔
صحت کا تحفظ وطن عزیز کے ممنوع موضوعات میں سے ایک رہا ہے۔ کورونا نے آکر اس موضوع پر بات چیت کے بند دروازے کھلوائے ہیں، ورنہ وینٹیلیٹرس بھی کیا کوئی ضرورت کی چیز تھی؟ صوبہ سندھ کی سات کروڑ آبادی کے لیے سندہ بھر میں کل 800 سئو وینٹیلیٹرس ہیں، جن میں سے فعال صرف 700 سے ہیں۔ ان میں سے بچوں کے کتنے ھسپتال ہیں اور ان میں سے کتنے ھسپتالوں میں وینٹیلیٹرس کی سھولت موجود ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو مکمل نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ ہی ایک بڑی وجہ ہے پاکستان میں نو عمر بچوں کے اموات میں تیزی کی۔
یہ فقیر 02 نومبر 2013 کو اپنے نو ماہ کے سروش حیدر کو حیدرآباد سے لیکر کراچی تک کے سرکاری و خانگی ھسپتالوں میں وینٹیلیٹر نا ملنے کی وجہ سے پوری رات دوستوں یاروں کو مدد کے لیے ستاتا رہا پھر جاکر اگلے دن محکمہ صحت سندہ کے ڈپٹی سیکریٹری اور مھربان دوست سید امداد علی شاھ کی آمد سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ھیلتھ، کراچی میں وینٹیلیٹر ملا۔ وزیر اعظم پاکستان کے خاص معاون ڈاکٹر ظفر مرزا سے لیکر سندہ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو خانگی ھسپتالوں سے وینٹیلیٹر کا ایک دن کا ذرا خرچہ تو معلوم کر لیں پتا چل جائیگا عوام کے ساتھ اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔
ترجیحات کیا ہونی چاہیں تھی اور اب کیا ہیں۔ خانگی ھسپتال والے بچوں کے وینٹیلیٹر کا ایک دن کا خرچہ 45000 ھزار روپے لیتے ہیں۔ میرا سروش سات دن وینٹیلیٹر پر تھا اور 10 نومبر کو ان کی پیاری آنکہیں اور سانسیں بند ہوگئی۔ اپنے پیاروں کو ھسپتالوں میں سھولیات نا ملنے کی وجہ سے جو تڑپتے دیکھتے ہیں، ان کو جنگ کے لیے اکسانے والے گانے نہیں اس ملک میں وینٹیلیٹرس چاہیں جناب!
لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالبِ علم ہے۔ پڑھنا، سیاحت کرنا اور لکھنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر