نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ اسمبلی نے ایک انقلابی کو مذہبی مجاھد بنا دیا۔۔۔ سہیل میمن

برٹش لائیبریری کے ریکارڈ کے مطابق ڈھاکہ جیل میں سوریہ بادشاہ کی کھولی میں رکھی صندوق سے 51 کتابیں اور رسالے ملے۔۔

\”\”سندھ اسمبلی نے حال ہی میں مسلم لیگ فنکشنل کی ممبر صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی کے نوٹس نمبر 83 پر ایک قرارداد پاس کی ہے۔ جس میں کہا گیا
ہے کہ ، یہ اسمبلی شہیدِ اسلام پیر صبغت اللہ شاہ کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کی آزادی کے لیے قربان کی۔
سندھ اسمبلی نے اس پاس کردہ قرارداد کے تحت سندھ حکومت کو صوبے میں ہر سال 20 مارچ کو ان کی شہادت کے دن پر عام تعطیل کرنے کی سفارش کی ھے ۔
پیر صبغت اللہ شاہ پیر پگارہ سندھ میں سورہیہ بادشاہ کے نام سے مشہور ہیں۔
حر تحریک پر میری کئی سالوں کی تحقیق کو سامنے رکھ کر جب میں سندھ اسمبلی کی پاس کردہ مذکورہ قرارداد پر نظر ڈالتا ہوں تویہ مجھے سندھ کی تاریخ کے ساتھہ ایک بھونڈا مذاق معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس قرارداد کے پاس کردہ متن میں ایک ایسے انقلابی کو جہادی بنا کر پیش کیا گیا ہے جس کی برطانوی حکومت کے ساتھہ گوریلا جنگ کا بنیادی نعرہ ہی \”وطن یا کفن\” اور آزادی یا موت تھا۔
مجھے سندھ اسمبلی کے اس عمل پر کوئی حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ آج سے 75 سال قبل اسی سندھ اسمبلی نے 20 مارچ 1942 کے دن اسی حر تحریک کے خلاف قانون سازی کرتے ہوئے \” سپریشن آف حر آئوٹریج \” بل پاس کرکے سندھ کے ان علاقوں پر مارشل لا لگوایا تھا جہاں حروں کی گوریلا کارروائیاں جاری تھیں ۔ اسی قانون کے تحت سندھ میں مارشل لا لگایا گیا تھا۔

کمال تو یہ ہے کہ کل جس اسمبلی نے انقلابیوں کو دہشت گرد قرار دیا، آج اسی اسمبلی نے ان کو ہیرو تو مانا مگر اسلامی کرتا شلوار پہنانے کے بعد ۔ یہ بہی تاریخی حقیقت ہے کہ موجودہ اسمبلی میں آج حروں کو سلام پیش کرنے والے ارکان میں سے اسی فیصد ان ہی صاحبوں کی اولاد ہیں جنہوں نے 1942 میں اسی اسمبلی میں ان ہی حروں کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔

برٹش لائیبریری لنڈن میں حر تحریک پر رکھے ہوئے 15 ہزار صفحات میں مجھے ایک بھی جملا ایسا نظر نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ پیرپگارہ صبغت اللہ شاہ سورھیہ بادشاہ نے اسلام کی جنگ لڑی اور وہ شھیدِ اسلام ہیں ۔

وہ ‏سندھ کی اصل روح یعنیٰ صوفی خیال والے ، مذہبی کٹرپن کے سخت خلاف اور ہندو مسلم اتحاد کے سخت حامی تھے۔ یہ بات اور واضع ہوجائے گی اگر ہم \”\”پیرگوٹھ سے نکلنے والی ہفت روزہ پیرگوٹھ گزٹ کا 8 جولائی 1940 کا پرچہ دیکھ لیں۔ جن میں پیر صاحب کے کچھ قول چھپے تھے۔ وہ کہتے ہیں میں تب ہی خوش ہوں گا جب مسجد اور مندر کی بیچ والی دیوار ایک ھو۔

ہر کوئی اپنی اپنی بندگی میں مشغول ہو۔ اچھا تب ہوگا جب وحدت کی روح کو سمجہا جائے گا ( صفحہ نمبر3 ) ۔

پیر پیرپگارہ صبغت اللہ شاہ نے پیر گوٹھ سمیت اپنے اثر والے علائقوں میں گائے کے گوشت پر پابندی لگا دی تھی تاکہ ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس پر پیرگوٹھ گزٹ نے ایڈیٹوریل لکھا تھا کہ جو کام ہندوستان میں گاندھی جی نہ کر سکے وہ پیرپگارہ سورھیہ بادشاہ نے کر دکھایا۔

پیر صاحب کی جدوجہد اگر مذہبی ہوتی تو ان کی مسلم لیگ کے ساتھہ بنتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔

1930 سے 1945 تک سندہ میں مسلم لیگ کے سب سے طاقتور رہنما سائین جی ایم سید تھے۔ وہ اپنی کتاب \”دی کیس آف سندھ \” میں لکہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں پیر صاحب کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دینے گیا ، جو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ سید صاحب ، ھم وطن یا کفن میں سے ایک حاصل کر جائیں گے مگر آپ کی عمر پچھتانے اور کتابیں لکھنے میں گزرے گی۔

پیر صاحب کے ذہن میں جدوجہد کے مقصد کے تعین کے لیئے جو دھندلے خیالات تھے وہ ان کی پہلی دس سالہ جیل کی سزا کاٹنے کے دوران واضع ہوئے جو ان ہوں نے رتنا گری، پونے، ڈھاکہ ، راج شری اور مدنا پور کے جیلوں میں گذاری۔

برٹش لائیبریری کے ریکارڈ کے مطابق ڈھاکہ جیل میں ان کی کھولی میں رکھی صندوق سے 51 کتابیں اور رسالے ملے۔ ان میں مولانا رومی کی مثنوی پر پیر صاحب نے اپنی لکھائی میں لکہا تہا کہ “یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں اپنے وطن پر اپنا سر بہی قربان کردون گا۔

سندہ اسمبلی اگر سندہ کی صحیع تاریخ اپنانے کی ہمت نہیں رکہتی تو کم از کم اس کو مسخ تو نہ کرے۔

About The Author