چین میں کورونا وائرس کے باعث چین سے درآمدات کا بزنس کرنے والے کئی پاکستانیوں کے کاروبار بھی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
چینی حکام نے صوبہ ہوبائی سے ملحقہ علاقوں میں تاحکم ثانی کاروباری مراکز بند رکھنے کا کہہ دیا ہے۔
کئی تاجروں کا چین جانا ملتوی ہوا ہے تو متعدد کے وہاں پر قائم دفاتر میں بھی کام ٹھپ پڑا ہے
ذرائع کے مطابق ایسے ہی ایک تاجر مسعود خان ہیں جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ پہلے ان کا موٹریں بنانے کا کارخانہ چین کے شہر تھائسو میں تھا جسے انہوں نے پاکستان منتقل کیا۔
اب چین سے خام مال منگواتے ہیں اور چینی انجینئرز ان کے پاکستان میں موجود کارخانے میں آکر خدمات انجام دیتے ہیں۔ چین میں ان کا دفتر پورا سال کھلا رہتا ہے اور وہ ہر دوسرے مہینے کچھ عرصے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مسعود خان نے بتایا کہ ’چین میں نئے سال کی چھٹیاں ہونا تھیں اس لیے پندرہ بیس دن پہلے ہی واپس آگیا۔
اگر رک جاتا تو اب تک وہیں پھنسا ہوتا۔ چین کے بیشتر شہروں میں اس وقت کرفیو کا ویسے ہی سماں ہے جیسے کبھی فاٹا میں ہوا کرتا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ روز چینی حکام کی جانب سے فون آیا تھا، انہوں نے وہاں پر دفتر بند رکھنے اور ملازمین کو چھٹیاں دینے کی ہدایت کی ہے۔
میرے کارخانے میں کام کرنے والے کچھ انجینئرز نے واپس جانا تھا اور کچھ نے وہاں سے آنا تھا اب دونوں اپنی اپنی جگہ پھنس گئے ہیں۔
جو یہاں ہیں ان کا کام ختم ہو چکا ہے اور جن سے کام لینا ہے ان کو وہاں سے سفر کرنے کی اجازت نہیں۔‘
ان کے مطابق ’چینی انجینئرز کو بحریہ ٹاون میں ایک فلیٹ میں رہائش دی ہوئی ہے۔
وہاں کی انتظامیہ نے انہیں تنگ کرنا شروع کردیا کہ ٹیسٹ کرائیں اور سکریننگ کرائیں۔ میں نے ان سے سرکاری احکامات دکھانے کو کہا تو کہنے لگے کہ ایسا احتییاطاً کہا ہے۔
چینی واپس جانا چاہ رہے ہیں لیکن ان کے خاندان نے ان کو منع کر دیا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں تو وہاں غذائی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔‘
چودھری آصف محمود بھی ایک تاجر ہیں اور پنجاب کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ چین سے کھلونے اور کراکری کا سامان درآمد کرتے ہیں۔
ان کے بقول وہ سال میں چار بار چین جاتے ہیں او ہر دفعہ ایک مہینہ قیام کرتے ہیں
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ
’ہمیں چین کی سالانہ چھٹیوں کا پتہ تھا اس لیے دو ماہ کی خریداری کر لی تھی۔ اب اگر صورت حال مزید خراب ہوئی اور وائرس پر قابو نہ پایا جا سکا تو درآمدات پر پابندی لگ سکتی ہے۔
مارکیٹ میں اشیا کم ہوں گی جس کے نتیجے میں کاروبار کا نقصان ہوگا اور مہنگائی بڑھے گی۔‘
آصف محمود نے بتایا کہ شیڈول کے مطابق انہیں بھی 21 فروری کو اگلی خریداری کے لیے چین جانا تھا۔
لیکن اب پروگرام صورت حال کی بہتری تک ملتوی کیا ہے۔ امید ہے کہ مارچ میں چین کورونا وائرس پر قابو پا لے گا جس کے بعد ہی جا سکیں گے۔
شوکت سیالوی فینسی لائٹس اور فانوس کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بھی سال میں دو دفعہ چین جاتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ
’ابھی مارچ میں جانے کا پروگرام تھا کہ یہ وبا پھوٹ پڑی۔ اب بندہ رسک تو نہیں لے سکتا۔ فی الحال پہلے سے آئے مال سے ہی کام چلائیں گے۔ اگلے چکر کے لیے ویزہ وائرس کے بعد ہی لگائیں گے۔‘
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ