بے باکی، بے خوفی اور پر اثر انداز تحریر۔ منٹو نے اپنی تحریروں سے معاشرے کو آئینہ دکھایا ۔ اس لیے باغی ٹھرے ۔ منٹو نے اردو افسانے کو نئی زندگی عطا کی ۔ انہوں نے ساری زندگی ، اپنے کرداروں اور افسانوں میں بانٹ دی ۔ منٹو کی مشہور تخلیقات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، نمرود کی خدائی، سڑک کے کنارے اور دھواں نمایاں ہیں ۔ منٹو نے کیا خوب کہا کہ اگر ان کے افسانے قابل برداشت نہیں تو یہ معاشرہ بھی قابلِ برداشت نہیں ۔ آج منٹو کی پیسنٹھویں برسی منائی جارہی ہے ۔
اردو ادب کا ذکر سعادت حسن منٹو کے بغیر ناممکن ہے ۔ انہوں نے اردو افسانے کو نئی جہت عطا کی ۔
معاشرتی ناانصافی، ظلم اور انسانی جذبات ۔ منٹو کا قلم ان موضوعات پر اٹھا تو شاہکار تخلیق پائے ۔
چھ دہائیوں سے زائد عرصہ بیت گیا ۔ ان کی تحریریں آج بھی سماج کے سامنے آئینہ لیے کھڑی ہیں ۔
عورت بھی منٹو کی تحریروں کا اہم موضوع رہی ۔ وہ برائیوں پر نشتر چلاتے اور معاشرتی اتار چڑھاو کو زیب قرطاس کرتے
ان کی کئی تحریروں میں عورت کی بے بسی اور مرد کی بے حسی نظر آتی ہے ۔
برصغیر کی تقسیم کے واقعات کو بھی انہوں نے اپنی تحریروں کا حصہ بنایا اور ایسا لکھا جسے لکھنے کی جرات منٹو کے علاوہ کسی میں نہ تھی ۔
منٹو کا قصور صرف یہ رہا کہ انہوں نے انسان کو اس کا اصل چہرہ دکھانا چاہا ۔ اس جرم کی پاداش میں انہوں نے مقدمے بھی بھگتے ۔ انہیں فحش نگار بھی کہا گیا ۔
منٹو نے دوسروں کے غم خود کو لگا رکھے تھے اور ساری زندگی آسودگی ان سے دور دور ہی رہی ۔
بیالیس برس کی مختصر زندگی میں انہوں نے ڈھائی سو سے زائد افسانے ، ناول ، ڈرامے ، خاکے اور بیسیوں کالم لکھے ۔
”ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائےاورمنٹونہ مرے”منٹو کے یہ الفاظ خوش فہمی پر منبی نہیں تھے،وقت نے ثابت کر دیا کہ منٹو آج بھی زندہ ہے ۔
لاہور میں آسودہ خاک منٹو نے اپنے کتبے کی تحریر بھی خود لکھی تھی ۔
اے وی پڑھو
اشو لال: تل وطنیوں کا تخلیقی ضمیر||محمد الیاس کبیر
سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان