تعلیم یافتہ اور ذہین و فطین اذہان میں مزہب و خدا سے متعلق سوالات اٹھنا نہ نیا ہے اور نہ ہی اتنا غیر مناسب کہ کہا جائے کہ بندہ بہت پڑھ لکھ کر پاگل ہو گیا ہے – سوالات اٹھانے پر بیجا فتوی بازی اور دین سے خروج کے سرٹیفیکیٹ جاری نہیں ہونے چاہئیں – بلکہ ضرورت ہیکہ مزہبی زعماء ایسے سوالات کیلیے پہلے سے تیار ہوں اور نوجوانوں کو جہاں اسلامی استدلال سے متعارف کروائیں وہیں سائنسی طور پر الحاد کی موشگافیوں سے بھی آگاہ کریں – مگر المیہ یہ ہیکہ وارثانِ منبر و محراب اس عصری و دنیاوی تعلیم سے نا بلد ہونے کیوجہ سے تشکیک پر جب جوابات نہیں دے سکتے تو پہلے ہی مرحلے میں بندے کو پڑھا لکھا جاہل ، لبرل ، ملحد اور فاسق قرار دیکر اپنے معتقدین کو ایسے جراثیم سے دور رہنے کی تاکید فرما دیتے ہیں – یوں بندہ جب اکیلا ہو جاتا ہے تو دین سے دوری بڑھتی ہے اور آخرکار ملحدین کے ہاتھوں لگ جاتا ہے جن کیلیے پڑھے لکھے سابق مسلمان لوگ کسی بڑے سرمائے اور خزانے سے کم نہیں – کیونکہ انہی لوگوں کو پھر وہ اسلام کیخلاف بھرپور استعمال کرتے ہیں – یوں اس دعوے میں ہرگز مبالغہ نہیں کہ الحاد کی بڑھوتری میں حاملینِ جبہ و دستار کا خاطرخواہ حصہ ہے –
الحاد کیطرف جانے والوں میں ایسے خوش نصیب بھی ہیں کہ جنہیں واپس اسلام کیطرف پلٹنا نصیب ہوتا ہے – اس سفر کیبعد انکا یقین یوں محکم اور راسخ ہو جاتا ہے کہ روایتی با عمل مسلمانوں کا بھی نہیں ہوتا – چونکہ مولوی کیوجہ سے ہی دین سے نکلتے ہیں ، واپسی پر اسے قابلِ اعتناء سمجھتے ہیں نہ ہی اس کے علم پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ علومِ دینیہ میں اپنی مہارت بڑھاتے ہیں – ایسے لوگوں کو پھر سکون سے بیٹھنا کہاں نصیب ہوتا ہے – غیروں کو اللہ سے متعارف کرانے کے مشن پر ڈٹ جاتے ہیں – یوں انکی مخلصانہ کاوشوں سے جہاں عیسائی اور گورے ملحدین اسلام کا رخ کرتے ہیں وہیں وہ سابقہ مسلمان ملحدین بھی واپس اسلام کو پلٹتے ہیں جنکے شکوک و شبہات کی تشفی کی بجائے انہیں دھتکار دیا گیا تھا –
فیسبک کی دنیا میں ایسے بیشمار نابغوں سے تعارف ہوتا ہے جو دس بارہ سال الحاد کا شکار رہنے کیبعد اب رد الحاد اور حقانیت اسلام پر بہترین کام کر رہے ہیں – اسلام آباد کے ظفر اقبال صاحب تقابل ادیان اور ردِّ عیسائیت پر استاد مانے جاتے ہیں ، وہ بھی انہی میں سے ایک ہیں – دوسری ایسی شخصیت کینیڈا کی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے کم عمر PHD پروفیسر ہیں جنکا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل قصبہ گجرات سے ہے – بچپن میں خطیب کی کسی بات سے کیا بدظن ہوئے کہ انگلینڈ میں اپنی تعلیم کے دوران باقاعدہ الحاد کا حصہ بن گئے – اور پھر یوں رضوان خالد دس بارہ سال اپنے آبائی مزہب و دینِ حق سے دور رہے –
الحاد جیسے مرض کی کوئی دوا پاک و ھند کے علماء کے پاس نہیں کیونکہ انہی سے بگڑ کر ہی تو مریض مرضِ الحاد کا شکار ہوتا ہے – البتہ ترکی اور مصر میں اس پر کافی کام ہو رہا ہے جہاں علماء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ بھرپور عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے – یہی علماء مرض کا پس منظر اور کیفیات جانتے ہیں اور بجا طور پر مسیحائی کر سکتے ہیں – رضوان خالد چوہدری لندن سے ایک مطالعاتی دورے پر مصر کی جامعۃ الازہر گئے تو وہاں ان کا سامنا ایسے ہی ایک عالم سے ہوا جس نے انکے سوالات کی اپنے جوابات سے مکمل تشفی کرائی تو انکا اپنے آبائی مزہب و دین حق کیطرف رجوع ممکن ہوا – یوں وہ پیدائشی مسلمان کی بجائے جانچ پڑتال کر کے شعوری طور پر مشرف با اسلام ہونے والے خوش نصیب مسلمان ہیں – لوٹنے کیبعد قرآن کی تفسیر پر ایسا زبردست کام کر رہے ہیں کہ معروف اسلامی اسکالر طفیل ھاشمی جیسی علمی شخصیت بھی انکی تفہیم و انفرادیت کی قائل ہے –
ڈاکٹر رضوان خالد چودھری آج کے الحاد کو بھی ایک مزہب سمجھتے ہیں کیونکہ ملحدین بھی اہل مزاہب کیطرح الحاد کی باقاعدہ تبلیغ کرتے ہیں اور اب خاص طور پر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر کے الحاد میں شامل کرتے کے ہزار جتن کرتے ہیں – مبلغِ اسلام بن کر ڈاکٹر رضوان خالد فتنہ ارتداد کیخلاف سینہ سپر ہیں اور گاہے بگاہے اپنے ہاتھوں مسلمان ہونے والی نئی شخصیات کا تعارف فیسبک پر کرواتے رہتے ہیں – تعارف کرانے کا مقصد نمود و نمائش کی بجائے متزلزل اذہان کا اللہ کی مدد سے اسلام پر اعتماد بنائے رکھنا ، اسلام کی حقانیت کا اظہار اور نئے لوگوں کو دعوت و تبلیغ کیلئے رضاکارانہ خدمات پر مائل کرنا ہے – کیونکہ اب صرف غیر مسلموں کو تبلیغ کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ تشکیک زدہ مسلمانوں اور ملحد بن جانے والے سابق مسلمانوں کو واپس لوٹانے جیسے نئے فرائض بھی دورِ جدید کی تبلیغ کا حصہ ہیں –
پچھلے دنوں پاکستان آنے سے قبل ڈاکٹر رضوان خالد ایک معمر کینیڈین بڑھئی کو قرآن کا ترجمہ دیکر آئے تھے – واپسی پر بغیر کسی تامل و حجت اس نے خود اسلام قبول کیا اور مسلمان ہونے کے ٹھیک چار دن بعد فوت ہو گیا – اب اس کی بیوی اور بچے بھی اسلام کو جاننا چاہتے ہیں اور انہوں نے خالد چوہدری کو وقت دینے کی درخواست کی ہے – اس کے علاوہ PHD کی ایک ایران نژاد مسلمان طالبہ جو سالہا سال سے الحاد کا شکار تھی اور مزہب نام کی چیز پر بات کیلیے بھی روادار نہ تھی ، کا ڈاکٹر رضوان کے سائنسی استدلال کے نتیجے میں اسلام کیطرف لوٹنے کے بارے میں راقم سمیت بہت لوگ انکی پوسٹوں کے زریعے آگاہی حاصل کر رہے تھے – اصنامِ الحاد کو یوں پاش پاش ہوتا دیکھ کر قارئین پر اسلام کی برھانیت آشکار ہوئی ، اللہ پر یقین محکم ہوا اور متزلزل ایمان پختہ ہوئے –
ایسے ہی فیصل آباد یونیورسٹی کی کمپیوٹر سائنس کی فریش گریجویٹ طالبہ جسے خالق و مخلوق کے مابین محبت و عداوت کے رشتے ، آزمائش اور تقدیر سے متعلق الجھنیں تشکیک میں مبتلا کر گئی تھیں ، نے بھی بھی ڈاکٹر رضوان خالد کی پوسٹوں سے خاطر خواہ اثر لینے کیبعد ان سے رابطہ کیا اور اپنے شکوک و شبہات اور الجھنیں بتائیں – اور یوں تسلی بخش جوابات پاتے ہی بچی واپس اسلام کیطرف لوٹنے پر بخوشی رضامند ہو گئی – اسکی مکمل زہن سازی کیبعد جب کلمہ پڑھانے کا مرحلہ آیا تو چوہدری صاحب نے راقم سے رابطہ کیا اور یہ فریضہ سونپنے سے قبل توضیح پیش کی کہ یہ سعادت و اعزاز سب کے حصے میں آنا چاہیے تاکہ لوگ دعوت و تبلیغ کے اس عظیم مشن کو اپنا کر اسلام کی خدمت کے جزبات سے سرشار ہوں – بات مناسب لگی ، اعزاز و سعادت پر مبنی اس فریضے کو بجا لانے کیلیے طالبہ سے فون پر رابطہ کیا – الحمدللہ ، ماشاء اللہ ، اسلام کی آغوش میں داخل ہو کر ، خدا کی محبت واپس پا کر وہ خوش و خرم تھی اور اس نے بیشمار دعائیں دیں – واقعتاً یہ ایک نیا تجربہ تھا جو یورپ میں طویل قیام کے دوران کتنے ہی مخلصانہ مباحث اور قائل کرنے کے لاکھوں جتن کے باوجود کبھی نصیب نہیں ہوا تھا – قارئین سے التماس ہیکہ اس طالبہ کیلیے دعا کریں – اللہ اسے اپنی سچی محبت اور راسخ ایمان و سکون کی دولت سے مالا مال کرے ، اپنے دین پہ استقامت دیکر اس کو اسلام کی داعیہ بنائے – آمین ثم آمین –
ان تمام واقعات کے دوران پیش آئے سوالات ، شکوک و شبہات ، الجھنوں اور ان سب کے مدلل و منطقی جوابات جس سائنسی استدلال کیساتھ پیش ہوئے ، اس پر ایک کتابچہ مرتب کرنے کا مشورہ راقم نے دیا ہے جسے رضوان خالد نے نہ صرف قبول کیا بلکہ مختلف زبانوں میں تراجم بھی کرانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے – انہیں ایک دیرینہ مسئلے کیطرف متوجہ کیا تھا جس کا زکر انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں یوں کیا ہے : "خواجہ حبیب صاحب نے مجھے کال کی ، وہ بہت غمزدہ تھے اُنکا کہنا تھا میں عُلماء سے میٹنگز میں اس بات پر کُڑھتا ہُوں کہ الحاد ایک خوفناک سیلاب کی طرح ہماری طرف بڑھ رہا ہے لیکن ہم اُسکے علمی مقابلے جدید اور مدلل طریقے اختیار کرنے کی بجائے روائتی اور سخت گیر فتوٰی روش اپنا کر اُلٹا الحاد کا فائدہ اور اسلام کا نقصان کر رہے ہیں۔”
سچ ہے ، مدارس صرف مسالک کی تعلیم اور دفاعِ مسلک تک محدود ہو کر دفاع اسلام اور ردِّ الحاد جیسے بنیادی فرائض پر خاطر خواہ کام نہیں کر پا رہے – اس مقصد کیلیے مدارس کے طلباء کو دینی تعلیم سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ عصری و سائنسی تعلیم سے بھی کما حقہ آراستہ کرنا پڑے گا – اس زکر کیبعد انہوں نے اسکے حل کیلیے اجتماعی اقدامات اٹھانے کا عزم کیا – وہ اجتماعی ٹیم ورک کیلیے دیگر احباب کو بھی حصہ ڈالنے کی دعوت دیں گے – ارباب مدارس سے بھی درخواست ہیکہ اسلام کو درپیش اس حقیقی و اندرونی چیلنج سے نبٹنے کیلیے جامعات کے طلباء اور فارغ التحصیل افراد کیساتھ علمی تعامل قائم کریں – اللہ ہمیں اجتماعی کام کے زریعے اس فتنے کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ہمت و شوق عطا کرے ، آمین –
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ