!
*****
بیٹا جنید،
میں حفیظ ہوں جو تمہاری حفاظت نہ کر سکنے کے جرم میں
شب کے آخری پہروں میں سو نہیں سکتا
سو نہیں سکتا، مر نہیں سکتا، جی نہیں سکتا
تم میرا عکس تھے یا نہیں مگر میری سانس کا رشتہ تم سے استوار تھا
وہ کہتے ہیں کہ پھانسی کا پھندہ بہت سخت ہونا چاہئیے
کہ تم گستاخ تھے، پوچھتے تھے کہ ’’کیوں؟‘‘
یہ رات میرے لئے پہلی رات نہیں، نہ یہ تمہاری آخری رات ہے
وہ باریش منصف کہتا ہے کہ میری انگلیوں کا وہ لمس منسوخ ہو
کہ جس سے
میں نے تمہارے بالوں میں پھیر کر،
انہیں بگاڑ کر تمہیں سکول کو روانہ کیا تھا
علم سیکھنے کو، کہنے کو کہ
’نہیں سر، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا ‘
مگر میں اپنا لمس تمہارے ماتھے سے پونچھ نہیں سکتا
میں مجرم نہیں، تم مجرم نہیں
میں سو نہیں سکتا،
مجھے پتہ ہے تم بھی اپنے کوٹھڑی میں کھردری زمین پہ کروٹیں بدل رہے ہو گے
میرے دل میں تمہارے لئے دعاؤں اور دکھ کا ایک سمندر ہے
جو بے رحم اندھی چٹانوں سے سر پھوڑتا ہے
صورِ اسرافیل کی حاجت ہوتی ہے جب میرے کانوں میں آواز آتی ہے کہ
’’ملزم جنید حفیظ حاضر ہو! ‘‘
چوبدار کو ڈنکا بجانے کی ضرورت نہیں تھی
وہ ملزم جس گنبد میں مقید تھا عدالت نے وہیں با ریش منبرسجایا تھا
منصف کی اُسی آنکھ میں رحم تھا
جو پتھر کی تھی
صحیفوں کے بوسیدہ صفحے اس کی انگلیوں سے جھڑتے رہے
کال کوٹھڑی میں گذرے شب و روز پیروں میں سنپولئے بن کے لپٹنے لگے
مجھے پتہ ہے کہ تب قدم کیوں نہیں اٹھ پاتے
تم سو نہیں سکتے، میں سو نہیں سکتا
تم مر نہیں سکتے، میں مر نہیں سکتا
اک ذرا صبر!
فیصلے سے آج کا دن اس سے بھاری نہیں ہو گا کہ جو
سلاخوں کے پیچھے تمہارے وجود کو پیستا تھا
نہ ہی اس امید سے ہلکا کہ جو ہر صبح بے وجہ دیواروں کے پار
اٹھتے سورج کی روشنی میں
دیوار سے دیوار تک سفر میں پلٹ پلٹ کے آتی تھی
اور اس سے بےخبر رہنا چاہتی تھی کہ
اس سرد کوٹھڑی سے بہت دور،
گرم کمبل لئے مشروب کی چسکیاں لیتے ہوئے
دوستوں اور بہی خواہوں کی بے سود دعائیں
منصف کی پتھرائی ہوئی آنکھ میں بینائی نہیں جگائیں گی
مگر شائد
منصف کی زبان سے گرتا گلوٹین کا پھل ملزم کی گردن کے انچ اوپر آ کر
کبھی تو کھٹک کر منجمد ہو گا!
(شمعون سلیم، ۲۲ دسمبر ۲۰۱۹ء)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر