ایبولہ وائرس کی وباء: ائیرپورٹ کے اندرداخل ہوتے ہی بین الاقوامی پرواز کے مسافروں کو وزارتِ صحت کی طرف سے فارم پُر کرنے کیلئے دئیے گئے جس میں ایبولہ وائرس کے متعلق ہدایات درج تھیں۔
تمام مسافروں کو فارم پُرکر کے تصدیق کروانا تھی کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے کسی افریقی ملک نہیں گئے تبھی ان کی جان خلاصی ہونا تھی، دیگر صورت میںوہاں پرموجود میڈیکل ٹیم مسافروں کے ایمرجنسی چیک اپ کیلئے تیار کھڑی تھی ۔
دراصل اُن دنوں پوری دنیا میں ایبولہ نامی وائرس کی ہاہاکار مچی ہوئی تھی اورچند ماہ قبل پھوٹنے والا یہ موذی مرض اکتوبر2014 ءتک صرف براعظم افریقہ کے ایک ہزار سے زائد انسانوں کی قیمتی جانیں لے چکا تھا۔
ایبولہ وائرس کافارم بانٹنے والے نوجوان سے اس بیماری کے بارے میں مزید پوچھنے پر پتہ چلا کہ اگست کے مہینے میں لائبیریا سے دِلی آنے والی ایک فلائٹ میں چھ مشکوک مسافروں کو دیگر مسافروں سے الگ کرکے جب ان کو جانچاگیا تو وہ سب اس موذی وائرس سے متاثرہ نکلے جنہیں فوراً ہسپتال لے جا کر احتیاطی ٹیکے لگائے گئے اور کڑی نگرانی میں علاج شروع ہوا۔
اِس ایک واقعے کے بعد سے وزارتِ صحت نے مسافروں کی صحت کی جانچ کے لیے ایئرپورٹوں پر ہی میڈیکل ٹیمیں تعینات کر رکھی تھیں۔ دلی،حیدرآباد اور ممبئی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے ا لر ٹ کر دئیے گئے تھے اور متاثرہ افریقی ممالک سے لوٹنے والوں کے لیے ایئر پورٹس پر خصوصی امیگریشن کا ؤنٹر بنائے گئے تھے جہا ں تھرمل ا سکینرز کے ذریعے مسافروں کے جسم کادرجہ حرارت جانچا جاتا اور اگر کسی مسافر میں ایبولہ وائرس کی علامات پائی جاتیں تو اُنہیں براہِ راست اسپتال بھیج دیا جاتاتھا ۔
بغیر رُکے ایک ہی سانس میں بولنے کے بعد اس لڑکے نے مجھ سے اکٹھے دو سوال پوچھ لیے ۔بھائی صاحب آپ دلی میں کہاں رہتے ہیں اور کیا آپ چار پانچ ماہ پہلے کسی افریقی ملک تو نہیں گئے تھے،ساتھ ہی اُس نے دو تین افریقی ممالک کے نام بھی گنوادئیے ۔
نہ میں کبھی نائجیریا گیا ،نہ لائبیریا ،نہ گیانا اور نہ ہی میں دلی کا باسی ہوں۔اچھا۔ اب حیران ہونے کی باری اُس کی تھی۔تو پھر آپ کہاں سے ٹپکے ہیں؟۔ میں پاکستانی ہوں اور اِس وقت آسٹریلیا سے آرہا ہوں ۔
اچھا اچھا آپ پاکستانی ہیں ، تب تو آپ کے پاس پولیوکا کلیئرنس سر ٹیفکیٹ بھی ہونا چاہیے ۔ وہ کیا ہوتا ہے جی؟ پاکستان سے آنے والے مسافروں کیلئے لازمی ہے کہ وہ پولیو کلیرنس سرٹیفکیٹ اپنے ساتھ لائیں اور ائیرپورٹ پر جمع کروائیں ۔
بھائی وہ غالباً ان لوگوں کیلئے ہوگا جو پاکستان سے سفر کریں، میں نے آپ کو پہلے بتادیا کہ میں آسٹریلیا سے سیدھا یہاں آ رہا ہوں۔ اچھا ۔۔ہاں تب کوئی دِقت نہیں۔ بڑی مشکلوں سے اس باتونی لڑکے سے جان چھڑواکر میڈیکل فارم پُر کیا اور اسے پاسپورٹ کے بیچ رکھ کر اِمیگریشن کاﺅ نٹر کی طرف چل پڑا ۔
میرے کاﺅنٹر تک پہنچنے سے قبل تین لائنیں بن چکی تھیں اور کاﺅنٹر پر تعینات عملہ مسافروں کے سفری دستاویزات کی چیکنگ میں مصروف تھا ۔ میں نے وقت گزاری کیلئے جیب سے موبائل فون نکال کر جیسے ہی ائیرپورٹ کے وائی فائی سے جوڑا، وٹس ایپ پر ملک راجکمارکاپیغام موصو ل ہوا کہ:” وہ کسی ورکشاپ کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں ، آج رات دس بجے کی فلائٹ سے واپس دلی پہنچ رہے ہیں لہٰذا چنتا کی کوئی بات نہیں کیونکہ انہوں نے میرا کمرہ پرنس ہوٹل قرول باغ میں بُک کروا دیا ہے، ساتھ ہی ہوٹل کے استقبالیہ کا نمبر بھی بھیج دیا “۔
میری لائن والے کاﺅنٹر پر ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا جو دستاویزات اسکین کرنے کے ساتھ ساتھ چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگاکر ایک ہلکی سی چسکی بھرتااور دوبارہ اپنے کام میں جت جاتا ۔
میری باری آنے پر اس نے سب سے پہلے ایبولہ میڈیکل فارم پر اپنے سائن کرکے فارم ایک خانے میں رکھا اور پھر میرے پاسپورٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
پاسپورٹ کو بغور دیکھنے کے بعد بڑے سکون سے اندر چسپاں تصویر کا میرے چہرے کے ساتھ موازنہ کیا، ویزے کو آنکھ بھر کر دیکھا اور مہر لگانے سے پہلے دو سوالات کرکے مجھ سے تصدیق مانگی ۔سڈنی سے آرہے ہو ؟۔
میرے اثبات میں سر ہلانے پردوسرا سوال ، دلی میں کس کے ہاں رہو گے؟” ڈاکٹر راجکمار نے پرنس ہوٹل قرول باغ میں میراکمرہ بک کروایا ہے،وہ میانوالی نگر دلی میں رہتے ہیں“ ۔
یہ سنتے ہی ا س شخص نے پاسپورٹ پر مہر لگا کر مجھے دلی دیکھنے کا پروانہ جاری کر دیا۔اس سارے عمل میں کوئی دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے۔
دِلی ائرپورٹ کا ایجوکیٹیڈ، مہذب اور مستعد عملہ دیکھ کر زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ انتظامی امور پر بیٹھے یہ لوگ بغیر کسی تفریق کے مہارت اور اخلاق کے ساتھ اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔وہاں کچھ بھی ایسا محسوس نہ ہوا کہ کسی نے مسافروں کو بے جاہ پریشان و ہراساں کیا ہو، کسی امیگریشن افسر نے چائے پانی کے نام پر رشوت لینے کی کوشش کی ہو،کسی نے ڈالر مانگے ہوں یا کوئی بدتمیزی کی ہو۔
ان کا پروفیشنل ازم بتاتا تھا کہ یہ سب لوگ یہاں کی کانگریس یا بھارتی جنتاپارٹی کے بھگتوں کی بجائے خصوصاً میرٹ، قابلیت اور پیشہ وارانہ تربیت کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں ۔
امیگریشن سے چھٹکارا پاتے ہی قریب لگی ٹرالیوںکی قطارسے ایک ٹرالی نکالی اور اپنا سامان اٹھانے کیلئے گھومتی بیلٹ کے سامنے آن کھڑاہوا۔گھومتی پٹی کو دیکھتے ہی میرا ذہن فلیش بیک میں چلا گیا ۔
مجھے 1997 ءسے 2014ءکے دوران صرف جناح ٹرمینل کراچی کو چھوڑ کر لاہور، اسلام آباد ، پشاور، دوبئی، ہانگ کانگ، جدہ، دَمام، خوبر، تہران،سنگاپور،بنکاک اور انڈونیشینز ائیر پورٹس پر اترنے کا موقع ملا۔ اگرچہ ہمارے پاکستانی ایئرپورٹس پر بھی مسافروں کیلئے سہولیات موجود ہیں مگر بدقسمتی سے دنیا کے سارے انٹرنیشنل ائیرپورٹس کے مقابلے میںہمارے ائیرپورٹس سفری سہولیات اور انتظامی امور میں کہیں پیچھے ہیں حتیٰ کہ ہمسایہ ملک کے ائیرپورٹس بھی ہمیں کب کا لتاڑ کر آگے نکل چکے ۔
ہماری اس قومی تنزلی کے پیچھے کئی اسباب ہوں گے ۔ پہلی بات کہ دلی ایئرپورٹ پر دنیا بھر کے طیارے اترتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کئی یورپین ممالک سمیت آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسے ملکوں کی پروازوں کے پہیے پاک سرزمین کو نہیں چھو پاتے جبکہ دلی ایئرپورٹ کا پروفیشنل عملہ سرکاری تنخواہ کے عوض آپ کی مشکلات حل کرنے کیلئے ہر دم الرٹ کھڑا ہے۔یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اسلام آباد اور لاہور کے ائیر پورٹس کے مناظر چلنے لگے ۔
یہ جنوری2001ءکی ایک دھندلی صبح تھی۔ دوبئی سے پشاور آنے والی ایمرٹس ائیرلائن کی فلائیٹ دھند کے سبب اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتاری گئی ۔ مجھ جیسے تن تنہاکے پاس کل ملا کر سامان کا ایک بیگ اور ایک عدد چھوٹا ہینڈ کیری تھا جس کے اندر ساڑھے تین سو درہم کا ایک وی سی پی بند تھا۔
ہینڈ کیری کو اسکین کرنے کے بعد کھولا گیاتو کسٹم آفیسر نے انتہائی رعونت سے کہا ۔آپ کے بیگ میں وی سی آر موجودہے۔ان کا جملہ کچھ ایسا طنزیہ تھا جیسے میں کوئی ڈرگ اسمگل کرتے پکڑا گیا ہوں۔جناب یہ وی سی آر نہیں وی سی پی ہے جسے میں اپنے ذاتی استعمال کیلئے یہاں لایا ہوں ۔خریداری کی رسید دکھائیے ۔
جلدی سے رسید نکال کر اس کے ہاتھوں میں تھمائی ، جسے دیکھنے کے بعدسرد لہجے میں حکم ملا ۔وی سی پی پر فوری کسٹم ڈیوٹی ادا کیجئے ۔ قائد اعظم کی ایک بڑی تصویر کے نیچے کھڑے ایماندار کسٹم ڈیوٹی افسر سے پوچھا کتنی ڈیوٹی ؟ پانچ ہزار روپے۔ جناب پورا وی سی پی پانچ ہزار روپے سے زیادہ مالیت کا نہیں اور آپ مجھ سے اس کے عوض پانچ ہزارروپے کسٹم ڈیوٹی کا تقاضہ کر رہے ہیں ۔
ٹھیک ہے مت بھرئیے کسٹم ، وی سی پی کسٹم آفس میںجمع کروا دیجئے ۔ اسلام آباد جیسا انجان شہر نہ جان نہ پہچان اور نہ ہی کوئی مدد گار۔ قائد اعظم بھی خاموشی سے اپنے شہریوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر چپ سادھے فریم کے اندر کھڑے مسکرا رہے تھے، کسی ایماندار آرٹسٹ نے ان کی تصویر کو ہلکی سی مسکان کے ساتھ تخلیق کیا تھا۔زندگی میں پہلی بار تین ہزار روپے رشوت دینے کے بعد جب رسید کا تقاضا کیا تو آگے سے کیا خوبصورت جواب آیا ۔ اچھا جی۔۔ تو آپ کو رسید بھی چاہیے ، ٹھیک ہے پھر پانچ ہزار بھرئیے اوررسید لے لیجئے ۔ میں ہونقوں کا سا منہ بنائے بے نظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پرچار حرف بھیجتا باہرنکل آیا ۔
جولائی 2007 ءبنکاک سے آنے والی تھائی ایئرلائن کی پرواز لاہور پہنچتی ہے۔ امیگریشن سے نکلنے کے بعد میں سامان کی چلتی پٹی کے سامنے بیوی اور بچے کو کھڑا کرکے خالی ٹرالی ڈھونڈنے نکل پڑتا ہوں او ر ایک ٹہلتے پورٹر سے پوچھتا ہوں ۔
بھائی صاحب ٹرالی کہاں سے ملے گی؟یہ سنتے ہی دو پورٹرز یکایک ٹرالی لئے میری طرف لپکتے ہیں۔ میں ان سے استدعا کرتا ہوں،جناب مجھے صرف ٹرالی چاہیے۔
ٹرالی ایویں نیں ملنی ، اَسی تواڈا سمان چکاں گے(ٹرالی ایسے نہیں ملتی، ہم آپ کا سامان اٹھائیں گے) ۔ دونوں پورٹرز مجھے گھیر کر چلتی پٹی کے قریب لے جاتے ہیں اور میری نشاندہی پر ٹرالیوں میں سامان رکھ کر ایک پورٹر مجھ سے پوچھتاہے۔ تسی سمان گرین چینل نوں لے جانڑے یا فیر اسکین کروانڑے ؟(آپ نے سامان گرین چینل سے لے جانا ہے یا پھر اسکین کروانا ہے؟) ۔بھائی گرین چینل سے گزار دو۔ گرین چینل کی رسیدبنواکر ایک ہزار روپیہ لیا جاتا ہے اور پھر باہر آکر دونوں دو دو ہزار روپوں کا الگ سے تقاضا کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں یا تو آپ چار ہزار دیجئے یا پھر کچھ ڈالر دے دیجئے ہم دونوں آپس میں بانٹ لیں گے ۔
یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط 2)۔۔۔غلام عباس سیال
میں اگرچہ مول تول کے معاملے میں نِرا اناڑی ثابت ہوا ہوں،مگر ائیرپورٹ پر آئے عزیز رشتے دار بڑے احسن طریقے سے کچھ دے دلوا کر اُن دونوں پورٹروں سے میری جان خلاصی کروادیتے ہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(42)||نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(41)||نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(40)||نذیر لغاری