منی لانڈرنگ اور دہشگردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناکافی سمجھتے فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس نے فروری تک پاکستان کو گرے لسٹ میں بدستور موجود رکھنے کا فیصلہ سنایا تو پاکستانی حکومت نے اسے اپنی فتح قرار دیا اور ہندوستان کی ناکامی کیونکہ ہندوستان چاہتا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرا کر اس پر متعدد پابندیاں لگوا سکے۔
یقینی طور پر یہ ہندوستان کی شکست تھی لیکن پاکستان کے لئے بھی یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں تھی کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کا ممبر نہیں ہے لیکن ایف اے ٹی ایف میں شامل ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں سے پہلے سے معاشی بحران کا شکار ملک سیریس قسم کے معاشی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔
امید یہ کی جاری تھی کہ پاکستان اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لے گا لیکن صرف ایک واقعہ سے ہی حکومت کی سنجیدگی کا سارا بھرم ملیامیٹ ہو گیا ۔
اس ایک واقعے سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستانی ریاست منی لانڈرنگ کے عمل کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو کہ بہت خطرناک ہے ان ایکسپلینڈ ویلتھ قوانین کے تحت جب برطانوی اداروں نے ملک ریاض اور ان کے خاندان سے تصفیے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 19 کروڑ پاؤنڈ یا 38 ارب روپے حاصل کیے اور اس رقم کو پاکستان کے حوالے کرنے کا اعلان ہوا تو اس اطلاع نے جہاں حکومتی حلقوں میں ایک سناٹے کی کیفیت پیدا کر دی وہیں عوامی حلقوں نے اس خبر کو دلچسپی سے سنا اور اسے خوش آئند قرار دیا۔
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن جب ملک ریاض نے کہا کہ پیسہ اس کی سپریم کورٹ کے ساتھ 460 ارب کی سیٹلمنٹ میں جائے گا اور اس بات کی حکومتی حلقوں نے تصدیق بھی کر دی تو تب سے عوامی حلقے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے نتیجے میں ملنے والی یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہو کیونکہ اس کا سپریم کورٹ کی سیٹلمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اب حکومت کی جانب سے اس اقدام کو جسٹیفائی کرنے کی وجہ سامنے نہیں آ رہی کہ آخر اس رقم کا سیٹلمنٹ سے کیا تعلق ہے ؟منی لانڈرنگ جرم ہے تو رقم ملک ریاض کی کیسے ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ یہ رقم کسی اور معاملے میں ملک ریاض کے کھاتے میں ڈال دی جائے۔
حکومت کا یہ اقدام دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے کافی ہے کہ ہماری حکومت منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور حکومتی سطح پر منی لانڈرنگ کو اتنا بڑا جرم تصور نہیں کرتی جتنا بڑا جرم ایف اے ٹی ایف کے ممبر ممالک سمجھتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے اس عمل سے ہندوستان کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا مزید موقع مل جائے گا اور ممکن ہے کہ فروری کے اجلاس میں وہ اس مسئلے کو ایف اے ٹی ایف کے فورم پر اٹھائے۔
حکومت کو چاہیے کہ حالات و واقعات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس رقم کو قومی خزانے میں جمع کرے اور ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان بھی منی لانڈرنگ کو اتنا بڑا مسئلہ سمجھتا ہے جتنا برا باقی دنیا سمجھتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر