رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں ایک نوجوان ہے جس کے شہر میں تین ریسٹورنٹ ہیں۔ سمارٹ اور سمجھدار نوجوان۔ میں، جنید مہار، سہیل اقبال بھٹی اور زاہد گشکوری کبھی کبھار اُس کے ایف سیون ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے اور گپیں مارنے جاتے ہیں۔ کافی عرصہ سے ہماری یہ روٹین چل رہی ہے۔ ایک دن وہ مجھے پہچان کر میرے پاس آیا اور بتایا کہ اُس کا تعلق کوٹ ادو سے ہے اور وہ سرائیکی ہے۔ اس نوجوان کو دیکھ کر کچھ حیرانی ہوئی کہ اتنی ینگ ایج میں وہ تین ریسٹورنٹس کا مالک ہے اور اچھا خاصا کام چلتا ہے۔ خیر میں نے اُس کی کامیابی کی کہانی سن کر کہا ‘باقی تو خیر ہے آپ نے ایک متھ تو توڑ دی جو ہم سرائیکیوں کے بارے مشہور ہے کہ ‘کم جوان دی موت اے‘۔ اب ہمارے علاقے کے نوجوان دنیا کے ہر خطے میں کام کی تلاش میں نکل گئے ہیں۔ کچھ دن پہلے کراچی کے ہمارے دوست اقبال دیوان بتا رہے تھے کہ دبئی میں میرے گائوں کا ایک نوجوان وہاں ملا‘ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ اسی ہوٹل میں شیف ہے۔ اس نوجوان نے اقبال دیوان کی بھی خدمت کی‘ جب اُسے پتہ چلا کہ وہ میرے مہربان ہیں۔ چلیں میرے گائوں کے اس نوجوان کا شکریہ جس نے دبئی میں میرا نام سن کر اقبال دیوان کا خیال رکھا۔
کل رات سہیل بھٹی، جنید مہار اور دبئی سے آئے ہمارے دوست اختر درانی بھی ساتھ تھے۔ کھانے کا پروگرام بنا تو وہیں چلے گئے کہ وہاں رات دیر تک بیٹھنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ریسٹورنٹ کے مالک کو پتہ چلا تو وہ بھی ہمارے ساتھ آن بیٹھا۔ سلام دعا کے بعد بتانے لگا کہ وہ اب تیسرا ریسٹورنٹ کھول رہا ہے۔ پھر بولا: حالات کس طرف جارہے ہیں۔ پاکستان کا کیا بنے گا؟ صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے۔وہ مجھ سے رائے لینا چاہ رہا تھا۔میں نے کہا: قومی لیول کے حالات کو ایک طرف رکھتے ہیں‘یہ بتاؤ آپ اسلام آباد کب سیٹل ہوئے اور اُس وقت آپ کی اپنی کیا حالت تھی؟ کس طرح کے حالات تھے اور کیا کرتے تھے؟وہ بولا: وہ 2011 ء میں اسلام آباد پڑھنے آیا اور پھر یہیں سیٹل ہوگیا‘ اُس وقت کے حالات بس گزارا ہی تھا۔ میں نے کہا: پھر آج تیرہ برس بعد اسلام آباد میں وہ کیسی زندگی گزار رہا ہے؟ کیا اُس کی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا سب کچھ وہی ہے جو 2011ء میں تھا؟ وہ بولا: بھائی یہ تو کوئی موازنہ نہیں۔میں نے کہا: قومی سطح کے حالات پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے اس میز کے اردگرد بیٹھے لوگوں کی بات کر لیتے ہیں۔ آپ نے صرف تیرہ سال پہلے سوچا تھا کہ ایک دن آپ کے اسلام آباد میں تین بڑے ریسٹورنٹ ہوں گے جہاں پر ستر سے زائد لوگ ملازم ہوں گے؟ وہ بولا :نہیں کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے کہا :اس وقت آپ ستر لڑکوں کو نہیں بلکہ ستر خاندانوں کو اللہ کی مہربانی سے روزگار دے رہے ہو۔ ایک ایک گھر کے پانچ افراد بھی ہوں تو تم اس وقت ساڑھے تین سو سے زائد لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کررہے ہو۔ ان سب کی تنخواہیں، کھانا پینا، رہائش، آرام سکون سب کچھ کا بندوبست کررہے ہو۔ ابھی آپ کچھ مزید پلان بنا کر بیٹھے ہو۔ تین ریسٹورنٹس کا مطلب ہے درجنوں مزید لوگوں سے آپ دیگر اشیاکی خریداری کرتے ہو۔ بکرے سے لے کر نمک مرچ مصالحہ دودھ دہی وغیرہ۔ یہ پیسہ بھی لوگوں کی جیبوں میں جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آپ اکیلے بہت سے لوگوں اور خاندانوں کے لیے وسیلہ بنے ہوئے ہو۔آپ کااپنا کاروبار کیسا جارہا ہے؟ بولا :الحمد للہ اچھا ہے لیکن اب تھوڑا سا دبائو محسوس ہوتا ہے معاشی حالات کی وجہ سے۔میں نے کہا: دنیا کے ہر کاروبار میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی زیادہ پرافٹ تو کبھی کم۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر روز لاکھوں روپے کی سیل ہو‘ اگر کسی دن چند ہزار کم بھی ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بزنس نیچے چلا گیا۔ ہم اسلام آباد کہیں چلے جائیں آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ مارکیٹس میں جائیں تو وہاں گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ نہیں۔ ریسٹورنس میں کھانے کی میزیں خالی نہیں ملتیں۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ ملتے ہیں۔ سڑکوں پر جائیں تواتنی ٹریفک ہے کہ ٹریفک جام ہورہے ہیں۔ اس اسلام آباد میں کبھی ٹریفک جام نہ دیکھا تھا لیکن اب آپ کسی سڑک پر چلے جائیں آپ کو ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک ملے گی۔ میں نے کہا: ناراض نہ ہونا ہمارے کاروباری حضرات کے اندر ایک روایتی ناشکری سرایت کر چکی ہے۔ وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کا کاروبار اچھا جارہا ہے یا وہ منافع کما رہے ہیں۔ ایک انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کاروبار کو نظر نہ لگ جائے۔ پتہ نہیں یہ نظر انڈیا میں امبانی اور امریکہ میں بل گیٹس کو کیوں نہیں لگتی۔ ہمارے ہاں کوئی محلے میں بھی دکان ڈال کر بیٹھا ہو تو رونا ہی رو رہا ہوگا کہ نظر نہ لگ جائے۔ اسے یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر اس نے مان لیا کہ اس کا بزنس چل پڑا ہے تو اسے ٹیکس دینا پڑے گا اور وہ مر جائے گا ٹیکس نہیں دے گا اور رولا ڈالے رکھے گا۔ پھر ایک اور وجہ بھی ہے جو قبلہ جنید مہار کا فرمان کہ جب کوئی بندہ نیا کاروبار شروع کرتا ہے اور آپ اسے ملیں اور پوچھیں گے تو وہ آپ کو بہت پرامید نظر آئے گا۔ وہ کہے گا اللہ بہتری کرے گا۔ وہ محنت کررہا ہے۔ کام چل پڑا ہے۔ لیکن کچھ عرصے بعد وہ آپ کو کہے گا کہ کاروبار میں کچھ نہیں رہا۔ کچھ بچت نہیں ہورہی اور اگر آپ کہیں کہ اگر یہ بات ہے تو چھوڑ کر کوئی اور کام شروع کر دو تو وہ جواب دے گا کہ اب اس عمر میں وہ کیا نیا کام کرے؟ اسے تو اور کسی کاروبار کا تجربہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر اس کا کاروبار مسلسل گھاٹے میں جارہا ہے تو ایک بندہ کب تک اس کا خسارہ برداشت کرے گا؟ اگر وہ مسلسل کئی برسوں سے خسارے کے ساتھ کاروبار چلا رہا ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ اس کا کاروبار اب چلا پڑا ہے۔ جب بھی کوئی کاروباری آپ کو منہ بنا کر کہے کہ یار کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے تو سمجھ لیں وہ لمبا مال کما رہا ہے۔
میں نے کہا: جب بھی تمہیں کو لگے کہ حالات خراب ہیں تو خود کو یاد دلایا کرو کہ 2011ء میں جب تم اسلام آباد آئے تھے تو اس وقت تمہاری کیا حالت تھی اور آج کیا ہے۔وہ فورا ًبولا کہ اُس وقت تو میرے پاس پھٹ پھٹی موٹر سائیکل تھی۔ میں نے کہا: یہی دیکھ لو تم نے ان تیرہ برسوں میں محنت کی ہے‘ جان ماری ہے اور آج ستر ملازم تمہارے ہاں کام کرتے ہیں۔ خدا بھی قرآن میں فرماتا ہے جو جتنی کوشش کرتا ہوں میں اتنا ہی دیتا ہوں۔ اب یہ خدائی اصول ہے جو ہم نہیں سمجھنا چاہتے۔ بغیر کوشش کیے خدا کچھ نہیں دے گا۔ ممکن ہی نہیں جو کوشش کرے اسے خدا اس کا انعام نہ دے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ حرص اور ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جوں جوں وہ پیسہ کماتے جاتے ہیں ان کے اندر ایک حرص اور غیریقینی صورتحال جنم لے لیتی ہے کہ اگر یہ پیسہ چھن گیا یا کم ہوگیا تو ان کا کیا بنے گا۔ ان کے لائف سٹائل کا کیا بنے گا؟ ان کی لگژری لائف کا کیا ہوگا۔ یوں پیسہ ان کی زندگیوں میں سکون لانے کی بجائے مزید بے سکونی لاتا ہے۔ وہ جتنا کما لیں وہ انہیں کم لگتا ہے اس لیے قرآن میں ہے کہ کثرت کی خواہش انہیں قبروں تک لے گئی۔ اسی قرآن میں خدا نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ انسان بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
میں نے کہا: جب آپ اپنے کاروبار کو ڈائون محسوس کرو تو خود کو یاد کرایا کرو کہ 2011ء میں پھٹ پھٹی بائیک پر سوار تھے اور آج تمہارے پاس تین ریسٹورنٹس اور ستر ملازم ہیں پھر بھی تم پریشان ہو۔ خدا کا شکر ادا کیا کرو۔ خدا ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ خدا کو ناشکری پسند نہیں اور ہم انسانوں سے بڑا ناشکرا اور کوئی نہیں ۔
کل رات سہیل بھٹی، جنید مہار اور دبئی سے آئے ہمارے دوست اختر درانی بھی ساتھ تھے۔ کھانے کا پروگرام بنا تو وہیں چلے گئے کہ وہاں رات دیر تک بیٹھنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ریسٹورنٹ کے مالک کو پتہ چلا تو وہ بھی ہمارے ساتھ آن بیٹھا۔ سلام دعا کے بعد بتانے لگا کہ وہ اب تیسرا ریسٹورنٹ کھول رہا ہے۔ پھر بولا: حالات کس طرف جارہے ہیں۔ پاکستان کا کیا بنے گا؟ صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے۔وہ مجھ سے رائے لینا چاہ رہا تھا۔میں نے کہا: قومی لیول کے حالات کو ایک طرف رکھتے ہیں‘یہ بتاؤ آپ اسلام آباد کب سیٹل ہوئے اور اُس وقت آپ کی اپنی کیا حالت تھی؟ کس طرح کے حالات تھے اور کیا کرتے تھے؟وہ بولا: وہ 2011 ء میں اسلام آباد پڑھنے آیا اور پھر یہیں سیٹل ہوگیا‘ اُس وقت کے حالات بس گزارا ہی تھا۔ میں نے کہا: پھر آج تیرہ برس بعد اسلام آباد میں وہ کیسی زندگی گزار رہا ہے؟ کیا اُس کی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا سب کچھ وہی ہے جو 2011ء میں تھا؟ وہ بولا: بھائی یہ تو کوئی موازنہ نہیں۔میں نے کہا: قومی سطح کے حالات پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے اس میز کے اردگرد بیٹھے لوگوں کی بات کر لیتے ہیں۔ آپ نے صرف تیرہ سال پہلے سوچا تھا کہ ایک دن آپ کے اسلام آباد میں تین بڑے ریسٹورنٹ ہوں گے جہاں پر ستر سے زائد لوگ ملازم ہوں گے؟ وہ بولا :نہیں کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے کہا :اس وقت آپ ستر لڑکوں کو نہیں بلکہ ستر خاندانوں کو اللہ کی مہربانی سے روزگار دے رہے ہو۔ ایک ایک گھر کے پانچ افراد بھی ہوں تو تم اس وقت ساڑھے تین سو سے زائد لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کررہے ہو۔ ان سب کی تنخواہیں، کھانا پینا، رہائش، آرام سکون سب کچھ کا بندوبست کررہے ہو۔ ابھی آپ کچھ مزید پلان بنا کر بیٹھے ہو۔ تین ریسٹورنٹس کا مطلب ہے درجنوں مزید لوگوں سے آپ دیگر اشیاکی خریداری کرتے ہو۔ بکرے سے لے کر نمک مرچ مصالحہ دودھ دہی وغیرہ۔ یہ پیسہ بھی لوگوں کی جیبوں میں جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آپ اکیلے بہت سے لوگوں اور خاندانوں کے لیے وسیلہ بنے ہوئے ہو۔آپ کااپنا کاروبار کیسا جارہا ہے؟ بولا :الحمد للہ اچھا ہے لیکن اب تھوڑا سا دبائو محسوس ہوتا ہے معاشی حالات کی وجہ سے۔میں نے کہا: دنیا کے ہر کاروبار میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی زیادہ پرافٹ تو کبھی کم۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر روز لاکھوں روپے کی سیل ہو‘ اگر کسی دن چند ہزار کم بھی ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بزنس نیچے چلا گیا۔ ہم اسلام آباد کہیں چلے جائیں آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ مارکیٹس میں جائیں تو وہاں گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ نہیں۔ ریسٹورنس میں کھانے کی میزیں خالی نہیں ملتیں۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ ملتے ہیں۔ سڑکوں پر جائیں تواتنی ٹریفک ہے کہ ٹریفک جام ہورہے ہیں۔ اس اسلام آباد میں کبھی ٹریفک جام نہ دیکھا تھا لیکن اب آپ کسی سڑک پر چلے جائیں آپ کو ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک ملے گی۔ میں نے کہا: ناراض نہ ہونا ہمارے کاروباری حضرات کے اندر ایک روایتی ناشکری سرایت کر چکی ہے۔ وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کا کاروبار اچھا جارہا ہے یا وہ منافع کما رہے ہیں۔ ایک انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کاروبار کو نظر نہ لگ جائے۔ پتہ نہیں یہ نظر انڈیا میں امبانی اور امریکہ میں بل گیٹس کو کیوں نہیں لگتی۔ ہمارے ہاں کوئی محلے میں بھی دکان ڈال کر بیٹھا ہو تو رونا ہی رو رہا ہوگا کہ نظر نہ لگ جائے۔ اسے یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر اس نے مان لیا کہ اس کا بزنس چل پڑا ہے تو اسے ٹیکس دینا پڑے گا اور وہ مر جائے گا ٹیکس نہیں دے گا اور رولا ڈالے رکھے گا۔ پھر ایک اور وجہ بھی ہے جو قبلہ جنید مہار کا فرمان کہ جب کوئی بندہ نیا کاروبار شروع کرتا ہے اور آپ اسے ملیں اور پوچھیں گے تو وہ آپ کو بہت پرامید نظر آئے گا۔ وہ کہے گا اللہ بہتری کرے گا۔ وہ محنت کررہا ہے۔ کام چل پڑا ہے۔ لیکن کچھ عرصے بعد وہ آپ کو کہے گا کہ کاروبار میں کچھ نہیں رہا۔ کچھ بچت نہیں ہورہی اور اگر آپ کہیں کہ اگر یہ بات ہے تو چھوڑ کر کوئی اور کام شروع کر دو تو وہ جواب دے گا کہ اب اس عمر میں وہ کیا نیا کام کرے؟ اسے تو اور کسی کاروبار کا تجربہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر اس کا کاروبار مسلسل گھاٹے میں جارہا ہے تو ایک بندہ کب تک اس کا خسارہ برداشت کرے گا؟ اگر وہ مسلسل کئی برسوں سے خسارے کے ساتھ کاروبار چلا رہا ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ اس کا کاروبار اب چلا پڑا ہے۔ جب بھی کوئی کاروباری آپ کو منہ بنا کر کہے کہ یار کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے تو سمجھ لیں وہ لمبا مال کما رہا ہے۔
میں نے کہا: جب بھی تمہیں کو لگے کہ حالات خراب ہیں تو خود کو یاد دلایا کرو کہ 2011ء میں جب تم اسلام آباد آئے تھے تو اس وقت تمہاری کیا حالت تھی اور آج کیا ہے۔وہ فورا ًبولا کہ اُس وقت تو میرے پاس پھٹ پھٹی موٹر سائیکل تھی۔ میں نے کہا: یہی دیکھ لو تم نے ان تیرہ برسوں میں محنت کی ہے‘ جان ماری ہے اور آج ستر ملازم تمہارے ہاں کام کرتے ہیں۔ خدا بھی قرآن میں فرماتا ہے جو جتنی کوشش کرتا ہوں میں اتنا ہی دیتا ہوں۔ اب یہ خدائی اصول ہے جو ہم نہیں سمجھنا چاہتے۔ بغیر کوشش کیے خدا کچھ نہیں دے گا۔ ممکن ہی نہیں جو کوشش کرے اسے خدا اس کا انعام نہ دے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ حرص اور ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جوں جوں وہ پیسہ کماتے جاتے ہیں ان کے اندر ایک حرص اور غیریقینی صورتحال جنم لے لیتی ہے کہ اگر یہ پیسہ چھن گیا یا کم ہوگیا تو ان کا کیا بنے گا۔ ان کے لائف سٹائل کا کیا بنے گا؟ ان کی لگژری لائف کا کیا ہوگا۔ یوں پیسہ ان کی زندگیوں میں سکون لانے کی بجائے مزید بے سکونی لاتا ہے۔ وہ جتنا کما لیں وہ انہیں کم لگتا ہے اس لیے قرآن میں ہے کہ کثرت کی خواہش انہیں قبروں تک لے گئی۔ اسی قرآن میں خدا نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ انسان بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
میں نے کہا: جب آپ اپنے کاروبار کو ڈائون محسوس کرو تو خود کو یاد کرایا کرو کہ 2011ء میں پھٹ پھٹی بائیک پر سوار تھے اور آج تمہارے پاس تین ریسٹورنٹس اور ستر ملازم ہیں پھر بھی تم پریشان ہو۔ خدا کا شکر ادا کیا کرو۔ خدا ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ خدا کو ناشکری پسند نہیں اور ہم انسانوں سے بڑا ناشکرا اور کوئی نہیں ۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر