رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں ذہین اور چالاک لوگ کون ہوتے ہیں؟ مجھے نہیں پتا آ پ کے نزدیک ذہانت کی تعریف کیا ہے۔ یقینا ہر بندے کا سوچنے کا اپناالگ انداز ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو میرے نزدیک وہ انسان زیادہ سمجھدار اور ذہین ہے جو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے‘ لوگ اس کے لیے لڑنے مرنے اور جان دینے پر تُل جائیں‘ وہ انسان اپنے جیسے لوگوں کو استعمال کرنے کا فن جانتا ہو۔
اگرچہ انسان ہزاروں سال سے وطن اور دھرتی سے محبت یا معیشت یا مذہب کے نام پر جانیں دیتے آئے ہیں اور لیتے بھی آئے ہیں لیکن کیا آج کے جدید دور میں بھی یہ ممکن ہے کہ آپ لاکھوں لوگوں کو پیچھے لگا لیں اور وہ آپ کے نام پر مرنے مارنے پر تیار ہو جائیں؟ آج کا جدید انسان بھلا کیسے اپنے جیسے کسی انسان کی باتوں میں آکر خود کو تباہ کرنے پر تل جاتا ہے کہ اب سب کے پاس عقل ہے بلکہ شاید ضرورت سے زیادہ ہے۔حیرت ہوتی ہے لوگوں کو سامنے تباہی نظر آرہی ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی خود کو تباہ کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ واقعی چند ذہین لوگوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ دوسروں کے دل اور دماغ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں اپنے خبطِ عظمت کے چکر میں مرنے پر مجبور کر دیں ؟انسانی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا‘ انہیں استعمال کیا اور بڑی بڑی جنگوں میں دھکیل کر انہیں مروا دیا اور مرنے والوں کو آخری سانسوں تک افسوس یا پچھتاوا تک محسوس نہ ہوا۔لیکن پھر اس دنیا میں ہی ان ذہین اور غیرمعمولی کرداروں سے بھی زیادہ ذہین لوگ پائے جاتے ہیں جو ان لیڈروں کو بھی استعمال کر کے بانس پر چڑھا کر مروا دیتے ہیں۔ بعض ممالک کے سربراہان تک ایسے ہیں جو دوسرے ملکوں کے سربراہوں کو کنٹرول کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے تباہ کرادیتے ہیں۔ جیسے یہ لیڈرز اپنی قوموں کو پتا نہیں چلنے دیتے کہ انہیں استعمال کیا جارہا ہے ویسے ان سے بڑے کھلاڑی عالمی سطح پر ان سے یہی کھیل کھیلتے ہیں۔
یہ باتیں دو مضامین پڑھ کر میرے ذہن میں آرہی ہیں اور میں ان کی گرفت سے نہیں نکل پارہا۔ایک طویل مضمون میں نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا پڑھا ہے جس میں اُس نے اس نئے دور میں امریکہ کے جاسوسی نظام کو جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں اُن پربات کی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس جس طرح دنیا کا رخ بدل رہی ہے اس کا اندازہ ابھی عام انسان کو نہیں ہے۔ اس پر خصوصی بات کی گئی ہے کہ سی آئی اے کیسے اس تھریٹ کو ہینڈل کرے گی۔ اس میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ کہ امریکہ نے اس طویل مضمون کے ذریعے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ اس کے دشمن کون ہیں جن پر سی آئی اے اب مزید کام کرے گی۔ ہمارے جیسے یہی سمجھتے آئے ہیں کہ روس اور امریکہ جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد طویل سرد جنگ لڑی‘ وہ اب بھی نمبر ون دشمن ہوں گے‘ خصوصا ًیوکرین جنگ کے بعد تو سارا فوکس اب روس کے صدر پوتن پر ہے۔ لیکن سی آئی اے چیف کے نزدیک امریکہ کا دشمن نمبر ون چین ہے اور چین کو ہینڈل کرنے کی بھی حکمت عملی اس طویل مضمون میں شیئر کی گئی ہے۔ وجہ چین کی معاشی ترقی ہے۔ شمالی کوریا‘ ایران‘ روس‘ چین اور لاطینی امریکہ اور افریقہ اب ٹارگٹ پر ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس پورے آرٹیکل میں افغانستان کا ذکر تک نہیں۔ کبھی کسی امریکی جنرل یا امریکی جاسوس ادارے کے سربراہ کی بات کا آغاز اور اختتام ہمیشہ افغانستان‘ پاکستان سے شروع ہوتاتھا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان امریکی سی آئی اے کی ترجیح لسٹ میں اس طرح شامل نہیں ہیں جس طرح روس اور چین ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دراصل تو چین ہی ہے۔ امریکی چینی صدر شی جن پنگ سے بہت زیادہ محتاط لگتے ہیں جنہیں وہ ماؤزے تنگ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔
اس آرٹیکل میں ایک اہم بات جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ سی آئی اے ڈائریکٹر کا یوکرین جنگ پر تبصرہ ہے۔ وہ جنگ جو زیلنسکی نے اس لیے لڑی تاکہ وہ یورپی یونین کے نیٹو الائنس کا حصہ بن سکے اور اس چکر میں اپنے لاکھوں شہری اور فوجی مروا دیے۔ یوکرین کی جنگ جلدی ختم ہوتی نہیں لگ رہی۔ ایک دوست سے بات ہورہی تھی کہ یورپی اقوام کو ایک داد دیں کہ وہ بھارت‘ پاکستان کی طرح دس‘ پندرہ دن کی جنگ نہیں لڑتے بلکہ کئی کئی سال لڑتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ پانچ سال جاری رہی تو دوسری سات سال‘ اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔خیر اس مضمون میں سی آئی اے ڈائریکٹر نے یوکرین کے صدر اور اس کے فوجیوں کی بہادری کا خصوصاً ذکر کیا ہے اور ان کے لیے امداد جاری رکھنا اہم قرار دیا ہے۔ اندازہ کریں کہ یوکرین جنگ کی تباہیوں سے دور‘ کسی محفوظ کمرے میں بیٹھ کر یہ چند سطریں کمپیوٹر پر لکھ کر کسی عالمی رسالے کو بھیج دینا کتنا آسان ہے کہ یوکرینی لوگوں نے بہادری کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ہر دفعہ آپ امریکیوں سے یہی سنتے ہوں گے کہ یوکرینی لوگ بہادر ہیں۔ یقینا بہادر ہوں گے لیکن کیا صرف نیٹو میں شامل ہونے کی یہ قیمت ضروری تھی؟ جس نیٹو کی چھتری یوکرین کو چاہئے تھی وہ نیٹو اب اس کے ساتھ کھڑا ہو کر روس سے کیوں نہیں لڑ رہا؟ پوتن یورپ کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے چکا ہے جس وجہ سے سب دبکے بیٹھے ہیں۔
سی آئی اے ڈائریکٹر بار بار زیلنسکی کو تھپکی دے رہا ہے۔ اس طرح یوکرین کے صدر پر ہی ایک کتاب”The Showman‘‘ بارے ایک بُک ریویو پڑھا تو بھی یہی حالت ہوئی کہ کیا زیلنسکی کو جان بوجھ کر بانس پر چڑھایا گیا کہ بیٹا چڑھ جا سولی رام بھلی کرے گا؟ اس کتاب کا مصنف Simon Shuster‘Time کا رپورٹر ہے جو2019ء سے یوکرین کو کور کررہا ہے‘ جب زیلنسکی صدر نہیں بنا تھا۔ اس لیے جب روس نے فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ کیا تو اس کی زیلنسکی تک براہِ راست رسائی تھی۔ اس کتاب میں وہ زیلنسکی کے قصے سناتا ہے کہ کیسے ایک ہینڈسم کامیڈین اب یوکرین وار میں اپنے لوگوں کی قیادت کررہا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ زیلنسکی نے جنگی معاملات اپنے جرنیلوں کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں اور خود یوکرین میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف چیزیں کرتا رہتا ہے۔ اب تو عالمی سطح پر بھی اپنی شخصیت کی کشش کیش کرا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زیلنسکی اپنی شخصیت اور باتوں کی وجہ سے بہت سے ملکوں سے فوجی امداد لے چکا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ زیلنسکی بھی اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا کو بردا شت کرنے کو تیار نہیں۔یوکرین میں یا تو چینل بند ہوچکے ہیں یا صحافی جیل میں ہیں۔ اسی طرح کا سلوک اپوزیشن سیاستدانوں ساتھ کیا گیا ہے۔
زیلنسکی جو مزاحیہ اداکار تھا‘ وہ یوکرین میں بہت پاپولر ہے۔ ہینڈسم بھی بہت ہے۔ یوکرین تباہ اور لاکھوں لوگوں کو ایک احمقانہ جنگ میں مروا کر صحافی دوست سے خود پر کتاب لکھوا کر اب ہینڈسم خوش ہے۔ زیلنسکی کے اپنے بچے محفوظ ہیں۔ بیوی محفوظ ہے۔ کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی کہ یوکرینی لوگوں کے بچے روسی اٹھا کر لے گئے۔ ان کی تعداد بیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اکثریت کے والدین جنگ میں مارے گئے تھے۔ ادھر امریکن زیلنسکی کی بہادری کے گُن گارہے ہیں اور قوم کو بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ جہاں روس کو مزید کمزور کرے گی وہیں امریکن اکانومی کو مضبوط کرے گی اور وار انڈسٹری میں مزید نوکریاں پیدا ہوں گی۔ جبکہ پوتن نے اس جنگ کا فائدہ اٹھا کر خود کو پھر صدر بنوا لیا ہے۔روس اور امریکہ کی برتری کی قیمت اب یوکرین کے بچے ادا کررہے ہیں جن کے والدین نے ایک کامیڈین کو اپنا صدر چن لیا تھا‘کیونکہ وہ ہینڈسم بہت ہے۔۔
اگرچہ انسان ہزاروں سال سے وطن اور دھرتی سے محبت یا معیشت یا مذہب کے نام پر جانیں دیتے آئے ہیں اور لیتے بھی آئے ہیں لیکن کیا آج کے جدید دور میں بھی یہ ممکن ہے کہ آپ لاکھوں لوگوں کو پیچھے لگا لیں اور وہ آپ کے نام پر مرنے مارنے پر تیار ہو جائیں؟ آج کا جدید انسان بھلا کیسے اپنے جیسے کسی انسان کی باتوں میں آکر خود کو تباہ کرنے پر تل جاتا ہے کہ اب سب کے پاس عقل ہے بلکہ شاید ضرورت سے زیادہ ہے۔حیرت ہوتی ہے لوگوں کو سامنے تباہی نظر آرہی ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی خود کو تباہ کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ واقعی چند ذہین لوگوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ دوسروں کے دل اور دماغ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں اپنے خبطِ عظمت کے چکر میں مرنے پر مجبور کر دیں ؟انسانی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا‘ انہیں استعمال کیا اور بڑی بڑی جنگوں میں دھکیل کر انہیں مروا دیا اور مرنے والوں کو آخری سانسوں تک افسوس یا پچھتاوا تک محسوس نہ ہوا۔لیکن پھر اس دنیا میں ہی ان ذہین اور غیرمعمولی کرداروں سے بھی زیادہ ذہین لوگ پائے جاتے ہیں جو ان لیڈروں کو بھی استعمال کر کے بانس پر چڑھا کر مروا دیتے ہیں۔ بعض ممالک کے سربراہان تک ایسے ہیں جو دوسرے ملکوں کے سربراہوں کو کنٹرول کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے تباہ کرادیتے ہیں۔ جیسے یہ لیڈرز اپنی قوموں کو پتا نہیں چلنے دیتے کہ انہیں استعمال کیا جارہا ہے ویسے ان سے بڑے کھلاڑی عالمی سطح پر ان سے یہی کھیل کھیلتے ہیں۔
یہ باتیں دو مضامین پڑھ کر میرے ذہن میں آرہی ہیں اور میں ان کی گرفت سے نہیں نکل پارہا۔ایک طویل مضمون میں نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا پڑھا ہے جس میں اُس نے اس نئے دور میں امریکہ کے جاسوسی نظام کو جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں اُن پربات کی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس جس طرح دنیا کا رخ بدل رہی ہے اس کا اندازہ ابھی عام انسان کو نہیں ہے۔ اس پر خصوصی بات کی گئی ہے کہ سی آئی اے کیسے اس تھریٹ کو ہینڈل کرے گی۔ اس میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ کہ امریکہ نے اس طویل مضمون کے ذریعے پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ اس کے دشمن کون ہیں جن پر سی آئی اے اب مزید کام کرے گی۔ ہمارے جیسے یہی سمجھتے آئے ہیں کہ روس اور امریکہ جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد طویل سرد جنگ لڑی‘ وہ اب بھی نمبر ون دشمن ہوں گے‘ خصوصا ًیوکرین جنگ کے بعد تو سارا فوکس اب روس کے صدر پوتن پر ہے۔ لیکن سی آئی اے چیف کے نزدیک امریکہ کا دشمن نمبر ون چین ہے اور چین کو ہینڈل کرنے کی بھی حکمت عملی اس طویل مضمون میں شیئر کی گئی ہے۔ وجہ چین کی معاشی ترقی ہے۔ شمالی کوریا‘ ایران‘ روس‘ چین اور لاطینی امریکہ اور افریقہ اب ٹارگٹ پر ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس پورے آرٹیکل میں افغانستان کا ذکر تک نہیں۔ کبھی کسی امریکی جنرل یا امریکی جاسوس ادارے کے سربراہ کی بات کا آغاز اور اختتام ہمیشہ افغانستان‘ پاکستان سے شروع ہوتاتھا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان امریکی سی آئی اے کی ترجیح لسٹ میں اس طرح شامل نہیں ہیں جس طرح روس اور چین ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دراصل تو چین ہی ہے۔ امریکی چینی صدر شی جن پنگ سے بہت زیادہ محتاط لگتے ہیں جنہیں وہ ماؤزے تنگ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔
اس آرٹیکل میں ایک اہم بات جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ سی آئی اے ڈائریکٹر کا یوکرین جنگ پر تبصرہ ہے۔ وہ جنگ جو زیلنسکی نے اس لیے لڑی تاکہ وہ یورپی یونین کے نیٹو الائنس کا حصہ بن سکے اور اس چکر میں اپنے لاکھوں شہری اور فوجی مروا دیے۔ یوکرین کی جنگ جلدی ختم ہوتی نہیں لگ رہی۔ ایک دوست سے بات ہورہی تھی کہ یورپی اقوام کو ایک داد دیں کہ وہ بھارت‘ پاکستان کی طرح دس‘ پندرہ دن کی جنگ نہیں لڑتے بلکہ کئی کئی سال لڑتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ پانچ سال جاری رہی تو دوسری سات سال‘ اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔خیر اس مضمون میں سی آئی اے ڈائریکٹر نے یوکرین کے صدر اور اس کے فوجیوں کی بہادری کا خصوصاً ذکر کیا ہے اور ان کے لیے امداد جاری رکھنا اہم قرار دیا ہے۔ اندازہ کریں کہ یوکرین جنگ کی تباہیوں سے دور‘ کسی محفوظ کمرے میں بیٹھ کر یہ چند سطریں کمپیوٹر پر لکھ کر کسی عالمی رسالے کو بھیج دینا کتنا آسان ہے کہ یوکرینی لوگوں نے بہادری کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ہر دفعہ آپ امریکیوں سے یہی سنتے ہوں گے کہ یوکرینی لوگ بہادر ہیں۔ یقینا بہادر ہوں گے لیکن کیا صرف نیٹو میں شامل ہونے کی یہ قیمت ضروری تھی؟ جس نیٹو کی چھتری یوکرین کو چاہئے تھی وہ نیٹو اب اس کے ساتھ کھڑا ہو کر روس سے کیوں نہیں لڑ رہا؟ پوتن یورپ کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے چکا ہے جس وجہ سے سب دبکے بیٹھے ہیں۔
سی آئی اے ڈائریکٹر بار بار زیلنسکی کو تھپکی دے رہا ہے۔ اس طرح یوکرین کے صدر پر ہی ایک کتاب”The Showman‘‘ بارے ایک بُک ریویو پڑھا تو بھی یہی حالت ہوئی کہ کیا زیلنسکی کو جان بوجھ کر بانس پر چڑھایا گیا کہ بیٹا چڑھ جا سولی رام بھلی کرے گا؟ اس کتاب کا مصنف Simon Shuster‘Time کا رپورٹر ہے جو2019ء سے یوکرین کو کور کررہا ہے‘ جب زیلنسکی صدر نہیں بنا تھا۔ اس لیے جب روس نے فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ کیا تو اس کی زیلنسکی تک براہِ راست رسائی تھی۔ اس کتاب میں وہ زیلنسکی کے قصے سناتا ہے کہ کیسے ایک ہینڈسم کامیڈین اب یوکرین وار میں اپنے لوگوں کی قیادت کررہا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ زیلنسکی نے جنگی معاملات اپنے جرنیلوں کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں اور خود یوکرین میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف چیزیں کرتا رہتا ہے۔ اب تو عالمی سطح پر بھی اپنی شخصیت کی کشش کیش کرا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زیلنسکی اپنی شخصیت اور باتوں کی وجہ سے بہت سے ملکوں سے فوجی امداد لے چکا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ زیلنسکی بھی اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا کو بردا شت کرنے کو تیار نہیں۔یوکرین میں یا تو چینل بند ہوچکے ہیں یا صحافی جیل میں ہیں۔ اسی طرح کا سلوک اپوزیشن سیاستدانوں ساتھ کیا گیا ہے۔
زیلنسکی جو مزاحیہ اداکار تھا‘ وہ یوکرین میں بہت پاپولر ہے۔ ہینڈسم بھی بہت ہے۔ یوکرین تباہ اور لاکھوں لوگوں کو ایک احمقانہ جنگ میں مروا کر صحافی دوست سے خود پر کتاب لکھوا کر اب ہینڈسم خوش ہے۔ زیلنسکی کے اپنے بچے محفوظ ہیں۔ بیوی محفوظ ہے۔ کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی کہ یوکرینی لوگوں کے بچے روسی اٹھا کر لے گئے۔ ان کی تعداد بیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اکثریت کے والدین جنگ میں مارے گئے تھے۔ ادھر امریکن زیلنسکی کی بہادری کے گُن گارہے ہیں اور قوم کو بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ جہاں روس کو مزید کمزور کرے گی وہیں امریکن اکانومی کو مضبوط کرے گی اور وار انڈسٹری میں مزید نوکریاں پیدا ہوں گی۔ جبکہ پوتن نے اس جنگ کا فائدہ اٹھا کر خود کو پھر صدر بنوا لیا ہے۔روس اور امریکہ کی برتری کی قیمت اب یوکرین کے بچے ادا کررہے ہیں جن کے والدین نے ایک کامیڈین کو اپنا صدر چن لیا تھا‘کیونکہ وہ ہینڈسم بہت ہے۔۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر