رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ آیا عمران خان حکومت کو امریکہ نے گرایا تھا یا پھر قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر پارلیمنٹ کے اندر سے ہی تبدیلی لائی گئی تھی؟
اُدھر امریکی سفارتکار ڈونلڈ لُو امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو گئے ہیں۔ اُن سے اس معاملے پر طویل سوال و جواب ہوئے۔ اس سارے عمل کو پوری دنیا میں براہِ راست دکھایا گیا۔ امریکیوں کی ایک خوبی کی تو داد دیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں کھل کر کرتے ہیں اور پوری دنیا کو دکھاتے بھی ہیں۔ اس معاملے میں امریکی شرمانے یا چھپانے کے قائل نہیں ہیں۔ ویسے بھی اب تو ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے لہٰذا کچھ چھپانا بھی چاہیں تو آپ نہیں چھپا سکتے۔ لیکن امریکیوں نے تو اپنے صدر بل کلنٹن کے خلاف مونیکا لیونسکی سکینڈل کے بعد ہونے والی پارلیمانی کارروائی کو سی این این کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا تھا۔ اگر امریکی اپنے صدر کو ایکسپوز ہوتا دکھا سکتے ہیں تو پھر کسی کو بھی رعایت نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد بھی کئی اہم اور حساس معاملات پر اسی طرح لائیو بریفنگز دکھائی گئی ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے کہ امریکی اتنی ہمت کہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہی سب سے بڑا احتساب ہے کہ ٹاپ پر بیٹھے حکمران کو پتا ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی غلطی کا مرتکب ہوا تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ جو جتنے بڑے عہدے پر بیٹھا ہو گا اس کا اتنا ہی کڑا احتساب ہوگا۔ اگر اوپر بیٹھا حکمران بھی عام لوگوں والی حرکتیں کرتا ہے تو پھر وہ تخت سے نیچے اُترے اور عام زندگی انجوائے کرے۔ پھر اسے کسی قسم کا پروٹوکول‘ مراعات یا پاورز نہیں دی جا سکتیں۔ وہاں سویلین حکمران ہوں یا فوجی جنرلز‘ سی آئی اے یا ایف بی آئی کے سربراہان ہوں‘ وہ کتابیں لکھتے ہیں جن میں پوشیدہ حقائق عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ایک ہی طریقہ کار ہے کہ سب کچھ چھپا دو۔ کوئی بات باہر نہ نکلنے دو۔ حکمران ہوں یا سرکاری افسران‘ کوئی کتاب نہیں لکھیں گے‘ نہ وہ اہم معاملات پر کبھی زبان کھولیں گے۔ اسامہ بن لادن والا معاملہ دیکھ لیں اس پر امریکی صدر براک اوباما سے لے کر وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور سی آئی اے چیف لیون پینٹا تک نے کھل کر لکھا۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور آپریشن کیسے کیا گیا۔ لیکن پاکستان میں اس آپریشن کے حوالے سے تب کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا تک کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ اگر وہ حقائق سے پردہ اٹھاتے تو دنیا کو پتا چلتا ہے کہ ایک سچ امریکیوں کا تھا تو ایک سچ پاکستانیوں کا بھی تھا۔ اب وہی سچ مان لیا گیا ہے جو امریکیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ اگر صدر زرداری‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے امریکی صدر‘ وزیر خارجہ اور سی آئی اے چیف کی کتب کا مطالعہ کیا ہوتا تو شاید وہ خود پر قابو نہ رکھ پاتے اور جوابی کتاب ضرور لکھتے کیونکہ جو کچھ ان کتابوں میں ان تینوں پاکستانی حکام بارے لکھا گیا تھا‘ وہ خوش آئند نہیں تھا۔
میرے دوست نے ایک دفعہ ہنستے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ پیارے بھائی آپ ان امریکیوں کی کتابیں نہ پڑھا کریں‘ اور اگر پڑھتے ہیں تو ان پر لکھا نہ کریں۔ خود کو کیوں مشکل میں ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنا سچ کون برداشت کرتا ہے۔ میں نے کہا: لیکن امریکیوں کا لکھا ہوا سچ تو سب برداشت کرتے ہیں۔ وہ بولے کہ ان کا کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا‘ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر کچھ بگاڑنا ہو تو اپنے ہی لوگوں کا بگاڑا جا سکتا ہے۔ ابھی دیکھ لیں کہ ڈونلڈ لُو کے کمیٹی کے سامنے طویل بیان سے سب پارٹیاں خوش ہیں۔ پاکستان میں سب ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ دیکھا ڈونلڈ لُو نے ہمارے مؤقف کی تائید کر دی ہے۔ اگر آپ ٹویٹر پر جائیں تو ہر پارٹی کے حامیوں نے ڈونلڈ لُو کے اپنی اپنی مرضی کے کلپس لگائے ہوئے ہیں جس سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ لُو نے ہمیں سچا ثابت کر دیا۔ اب بھلا بتائیں کہ ایک ہی مسئلے پر تین چار مختلف پارٹیاں‘ جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں‘ وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہیں کہ ہم سچے ثابت ہو گئے؟
اس پر میں نے ایک ٹویٹ کیا کہ ڈونلد لُو نے کانگریس کمیٹی کے سامنے پاکستانیوں کے ساتھ وہی کام کیا ہے جو ہمارے علاقوں میں سرائیکی پیر کرتے ہیں۔ جو بھی سائل ان کی چوکھٹ پر اولاد کیلئے جاتا ہے تو وہ ا س کو بیٹا پیدا ہونے کی دعا؍ خوشخبری سنا کر گھر بھیجتے ہیں۔ سب کو خوش کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈونلڈ لُو نے بھی اپنے طویل بیان میں مقتدرہ‘ شہباز حکومت اور عمران خان کو کچھ نہ کچھ دے کر خوش کر دیا ہے۔ اب پاکستان میں ان تینوں کیمپوں کے حامی اپنی اپنی مرضی کے کلپ ٹویٹ کررہے ہیں کہ ہم جیت گئے۔ تینوں کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ لُو نے ہمیں سچا ثابت کر دیا۔ یہی ایک سفارتکار کی کامیابی ہے کہ سب اس کی کڑوی گولیاں میٹھی سمجھ کر نگل جائیں۔ اُلٹا شکریہ بھی ادا کریں۔
شہباز شریف حکومت ڈونلڈ لُو سے یہ سن کر خوش ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی تمام تر لابنگ اور مہم کے باوجود امریکی حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرے گی۔ مطلب انہوں نے شہباز شریف کو انتخابی دھاندلی کے الزامات کے باوجود وزیراعظم مان لیا ہے۔ یہ عمران خان اور ان کے حامیوں کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ وہ امریکیوں سے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ان ”دھاندلی زدہ‘‘ انتخابات کو مسترد کر دیں گے۔ اور بات یہاں تک نہیں رُکے گی بلکہ آئی ایم ایف کو بھی کہیں گے کہ اگر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو ان کی اگلی قسط نہ دیں اور یوں ملکی معیشت برباد ہونے کے امکانات بڑھتے دیکھ کر پاکستانی حکومت راضی ہو جائے گی۔
امریکی سفارتکار نے سب کچھ اس کے اُلٹ کہا ہے کہ پاکستان ان کے لیے کتنا اہم ہے۔ ساتھ میں جس سائفر ایشو پر عمران خان دو سال سے بیانیہ بنائے ہوئے تھے‘ اس کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ سائفر ایک جھوٹ ہے۔ انہوں نے عمران خان حکومت ہٹانے کیلئے پاکستانی سفیر کو کبھی کچھ نہیں کہا تھا۔ یوں یہ ایک نکتہ ہی شہباز شریف حکومت کیلئے کافی ہے۔ عمران خان اور ان کے حامی اب جو مرضی کہتے رہیں‘ شہباز شریف نے امریکیوں سے جو سرٹیفکیٹ لینا تھا‘ وہ لے لیا ہے۔ مقتدرہ اس بات پر خوش اور مطمئن ہے کہ اس کے حوالے سے اس بڑے فورم پر ایسا کچھ نہیں کہا گیا جو اس کیلئے پشیمانی کا سبب بنتا۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ پاکستانی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور اس کے ساتھ امریکہ کے پرانے روایتی تعلقات ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے حامی بھی بہت خوش ہیں کہ ان کی محنت‘ لابنگ اور ڈالرز رنگ لائے ہیں۔ عمران خان کے حامی اسے اپنی بڑی فتح سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ امریکہ کی کانگریس کمیٹی کے لیول تک لے گئے ہیں جہاں کانگریس مین نے اپنے سوالات سے ڈونلد لُو کو مجبور کر دیا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کو تسلیم کریں اور بتائیں کہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں کیسے عمران خان کی پارٹی کو ہرانے اور اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ ایک کانگریس مین نے یہاں تک کہا کہ امریکی سفیر کو جیل جا کر عمران خان سے ملاقات کرنی چاہیے۔ یوں ڈونلڈ لُو کی گفتگو کے اس حصے کو پی ٹی آئی کے دوست ٹویٹ کرکے اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
میں امریکی ڈپلومیٹ ڈونلڈ لُو کو داد دے رہا ہوں جس نے ایک ہی بریفنگ میں شہباز شریف‘ عمران خان اور مقتدرہ کے حامیوں کو خوش کر دیا ہے جو نعرے مار رہے ہیں کہ ویکھیا! ساڈا پہلوان جِت گیا اے۔ ڈپلومیسی اور کسے کہتے ہیں؟
اُدھر امریکی سفارتکار ڈونلڈ لُو امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو گئے ہیں۔ اُن سے اس معاملے پر طویل سوال و جواب ہوئے۔ اس سارے عمل کو پوری دنیا میں براہِ راست دکھایا گیا۔ امریکیوں کی ایک خوبی کی تو داد دیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں کھل کر کرتے ہیں اور پوری دنیا کو دکھاتے بھی ہیں۔ اس معاملے میں امریکی شرمانے یا چھپانے کے قائل نہیں ہیں۔ ویسے بھی اب تو ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے لہٰذا کچھ چھپانا بھی چاہیں تو آپ نہیں چھپا سکتے۔ لیکن امریکیوں نے تو اپنے صدر بل کلنٹن کے خلاف مونیکا لیونسکی سکینڈل کے بعد ہونے والی پارلیمانی کارروائی کو سی این این کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا تھا۔ اگر امریکی اپنے صدر کو ایکسپوز ہوتا دکھا سکتے ہیں تو پھر کسی کو بھی رعایت نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد بھی کئی اہم اور حساس معاملات پر اسی طرح لائیو بریفنگز دکھائی گئی ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے کہ امریکی اتنی ہمت کہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہی سب سے بڑا احتساب ہے کہ ٹاپ پر بیٹھے حکمران کو پتا ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی غلطی کا مرتکب ہوا تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ جو جتنے بڑے عہدے پر بیٹھا ہو گا اس کا اتنا ہی کڑا احتساب ہوگا۔ اگر اوپر بیٹھا حکمران بھی عام لوگوں والی حرکتیں کرتا ہے تو پھر وہ تخت سے نیچے اُترے اور عام زندگی انجوائے کرے۔ پھر اسے کسی قسم کا پروٹوکول‘ مراعات یا پاورز نہیں دی جا سکتیں۔ وہاں سویلین حکمران ہوں یا فوجی جنرلز‘ سی آئی اے یا ایف بی آئی کے سربراہان ہوں‘ وہ کتابیں لکھتے ہیں جن میں پوشیدہ حقائق عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ایک ہی طریقہ کار ہے کہ سب کچھ چھپا دو۔ کوئی بات باہر نہ نکلنے دو۔ حکمران ہوں یا سرکاری افسران‘ کوئی کتاب نہیں لکھیں گے‘ نہ وہ اہم معاملات پر کبھی زبان کھولیں گے۔ اسامہ بن لادن والا معاملہ دیکھ لیں اس پر امریکی صدر براک اوباما سے لے کر وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور سی آئی اے چیف لیون پینٹا تک نے کھل کر لکھا۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور آپریشن کیسے کیا گیا۔ لیکن پاکستان میں اس آپریشن کے حوالے سے تب کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا تک کسی نے کچھ نہیں لکھا۔ اگر وہ حقائق سے پردہ اٹھاتے تو دنیا کو پتا چلتا ہے کہ ایک سچ امریکیوں کا تھا تو ایک سچ پاکستانیوں کا بھی تھا۔ اب وہی سچ مان لیا گیا ہے جو امریکیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ اگر صدر زرداری‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے امریکی صدر‘ وزیر خارجہ اور سی آئی اے چیف کی کتب کا مطالعہ کیا ہوتا تو شاید وہ خود پر قابو نہ رکھ پاتے اور جوابی کتاب ضرور لکھتے کیونکہ جو کچھ ان کتابوں میں ان تینوں پاکستانی حکام بارے لکھا گیا تھا‘ وہ خوش آئند نہیں تھا۔
میرے دوست نے ایک دفعہ ہنستے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ پیارے بھائی آپ ان امریکیوں کی کتابیں نہ پڑھا کریں‘ اور اگر پڑھتے ہیں تو ان پر لکھا نہ کریں۔ خود کو کیوں مشکل میں ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنا سچ کون برداشت کرتا ہے۔ میں نے کہا: لیکن امریکیوں کا لکھا ہوا سچ تو سب برداشت کرتے ہیں۔ وہ بولے کہ ان کا کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا‘ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر کچھ بگاڑنا ہو تو اپنے ہی لوگوں کا بگاڑا جا سکتا ہے۔ ابھی دیکھ لیں کہ ڈونلڈ لُو کے کمیٹی کے سامنے طویل بیان سے سب پارٹیاں خوش ہیں۔ پاکستان میں سب ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ دیکھا ڈونلڈ لُو نے ہمارے مؤقف کی تائید کر دی ہے۔ اگر آپ ٹویٹر پر جائیں تو ہر پارٹی کے حامیوں نے ڈونلڈ لُو کے اپنی اپنی مرضی کے کلپس لگائے ہوئے ہیں جس سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ لُو نے ہمیں سچا ثابت کر دیا۔ اب بھلا بتائیں کہ ایک ہی مسئلے پر تین چار مختلف پارٹیاں‘ جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں‘ وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہیں کہ ہم سچے ثابت ہو گئے؟
اس پر میں نے ایک ٹویٹ کیا کہ ڈونلد لُو نے کانگریس کمیٹی کے سامنے پاکستانیوں کے ساتھ وہی کام کیا ہے جو ہمارے علاقوں میں سرائیکی پیر کرتے ہیں۔ جو بھی سائل ان کی چوکھٹ پر اولاد کیلئے جاتا ہے تو وہ ا س کو بیٹا پیدا ہونے کی دعا؍ خوشخبری سنا کر گھر بھیجتے ہیں۔ سب کو خوش کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈونلڈ لُو نے بھی اپنے طویل بیان میں مقتدرہ‘ شہباز حکومت اور عمران خان کو کچھ نہ کچھ دے کر خوش کر دیا ہے۔ اب پاکستان میں ان تینوں کیمپوں کے حامی اپنی اپنی مرضی کے کلپ ٹویٹ کررہے ہیں کہ ہم جیت گئے۔ تینوں کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ لُو نے ہمیں سچا ثابت کر دیا۔ یہی ایک سفارتکار کی کامیابی ہے کہ سب اس کی کڑوی گولیاں میٹھی سمجھ کر نگل جائیں۔ اُلٹا شکریہ بھی ادا کریں۔
شہباز شریف حکومت ڈونلڈ لُو سے یہ سن کر خوش ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی تمام تر لابنگ اور مہم کے باوجود امریکی حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ کام کرے گی۔ مطلب انہوں نے شہباز شریف کو انتخابی دھاندلی کے الزامات کے باوجود وزیراعظم مان لیا ہے۔ یہ عمران خان اور ان کے حامیوں کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے کیونکہ وہ امریکیوں سے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ان ”دھاندلی زدہ‘‘ انتخابات کو مسترد کر دیں گے۔ اور بات یہاں تک نہیں رُکے گی بلکہ آئی ایم ایف کو بھی کہیں گے کہ اگر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو ان کی اگلی قسط نہ دیں اور یوں ملکی معیشت برباد ہونے کے امکانات بڑھتے دیکھ کر پاکستانی حکومت راضی ہو جائے گی۔
امریکی سفارتکار نے سب کچھ اس کے اُلٹ کہا ہے کہ پاکستان ان کے لیے کتنا اہم ہے۔ ساتھ میں جس سائفر ایشو پر عمران خان دو سال سے بیانیہ بنائے ہوئے تھے‘ اس کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ سائفر ایک جھوٹ ہے۔ انہوں نے عمران خان حکومت ہٹانے کیلئے پاکستانی سفیر کو کبھی کچھ نہیں کہا تھا۔ یوں یہ ایک نکتہ ہی شہباز شریف حکومت کیلئے کافی ہے۔ عمران خان اور ان کے حامی اب جو مرضی کہتے رہیں‘ شہباز شریف نے امریکیوں سے جو سرٹیفکیٹ لینا تھا‘ وہ لے لیا ہے۔ مقتدرہ اس بات پر خوش اور مطمئن ہے کہ اس کے حوالے سے اس بڑے فورم پر ایسا کچھ نہیں کہا گیا جو اس کیلئے پشیمانی کا سبب بنتا۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ پاکستانی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور اس کے ساتھ امریکہ کے پرانے روایتی تعلقات ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے حامی بھی بہت خوش ہیں کہ ان کی محنت‘ لابنگ اور ڈالرز رنگ لائے ہیں۔ عمران خان کے حامی اسے اپنی بڑی فتح سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ امریکہ کی کانگریس کمیٹی کے لیول تک لے گئے ہیں جہاں کانگریس مین نے اپنے سوالات سے ڈونلد لُو کو مجبور کر دیا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کو تسلیم کریں اور بتائیں کہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں کیسے عمران خان کی پارٹی کو ہرانے اور اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ ایک کانگریس مین نے یہاں تک کہا کہ امریکی سفیر کو جیل جا کر عمران خان سے ملاقات کرنی چاہیے۔ یوں ڈونلڈ لُو کی گفتگو کے اس حصے کو پی ٹی آئی کے دوست ٹویٹ کرکے اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
میں امریکی ڈپلومیٹ ڈونلڈ لُو کو داد دے رہا ہوں جس نے ایک ہی بریفنگ میں شہباز شریف‘ عمران خان اور مقتدرہ کے حامیوں کو خوش کر دیا ہے جو نعرے مار رہے ہیں کہ ویکھیا! ساڈا پہلوان جِت گیا اے۔ ڈپلومیسی اور کسے کہتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر