عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کٹوتیاں: حکمران طبقے کی غیر معقول اپروچ یا سرمایہ داری بحران کا ناگزیر نتیجہ؟
پاکستان کے فنانس بیوروکریٹس نے 7 ماہ میں پاکستان کے کل قرضے میں 40 کھرب روپے کا اضافہ کیا اور اسحاق ڈار کی ٹیم نے بجٹ خسارے کا جو ہدف رکھا خسارہ اس سے کہیں 40 فیصد زائد ہوگیا-
جبکہ نگران حکومت نے ترقیاتی فنڈ میں 5 فیصد کا کٹ لگایا تو اس کے بعد اس نے ششماہی پاکستانی معشیت کی جی ڈی پی کی گروتھ کے اعداد وشمار ہی ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی یہ بتایا کہ رواں مالیاتی سال کے 7 ماہ کا قرضہ گزشتہ مالیاتی سال سے کسقدر زیادہ ہے؟
جبکہ رواں مالیاتی سال کے 7 ماہ میں نہ تو 16 ماہی پی ڈی ایم حکومت اور نہ ہی اگست 2023ء تا فروری 2024 ء تک نگران حکومت پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگز کو منفی سے مثبت کرانے میں کامیاب ہوئیں جس کے سبب دونوں حکومتی سیٹ اپ کو نہ تو غیر ملکی کمرشل بینکوں نے کوئی قرضہ دیا نہ ہی یورو بانڈ اور سکوک بانڈ کسی نے خریدے یوں بجٹ میں جو ان دو زرایع سے 6 ارب ڈالر کی رقم خزانے میں لانے کی امید جو لگائی کئی تھی وہ غلط ثابت ہوئی ۔
دونوں حکومتیں اپنے غیرترقیاتی اخراجات پر قابو نہ پاسکیں الٹا اس میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا-
اب کیا ثبوت رہ جاتا ہے اس بات کی صداقت کا:
"صحت، تعلیم، اور ديکر بنیادی ضروریات کے شعبوں مں کی جانے والی کٹوتیاں حکمرانوں کی مرضی نہیں بلکہ یہ ان کے طبقاتی بقاء کی لڑائی کا ناگزیر نتیجہ ہیں جو حکمران طبقہ پوری طاقت سے لڑتا ہے۔ کٹوتیاں سرمایہ داری بحران کا ناکزیر نتیجہ ہیں یہ حکمران طبقے کی مجموعی یا ان کے کسی ایک فرد کی غیر معقول سوچ کا نتیجہ نہیں ہیں-"( واوین کی عبارت پارس جان کی کتاب ‘روح عصر اور لینن ازم’ کے صفحہ 48 تا 49 سے ماخوذ ہے)
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ