عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20ویں صدی میں ایک خاتون ایسی تھی جسے دوسری جرمن ایمپائر کا قیصر ولہلم دوم "خطرناک ساحرہ” کہا کرتا تھا اور اسٹالن بھی اسے ” بوڑھی ساحرہ” کہا کرتا تھا – اور سرمایہ داری کے حامی رسالے نے اس کے بارے میں لکھا تھا:
"وہ تو اب عجائب گھر میں سجا کر رکھنے والی شئے ہے جسے اب ہر کوئی بھول چکا ہے "-
سرمایہ داری کی حامی حقوق نسواں کی حامی لبرل عورتیں کوشش تو کرتی ہیں اس کا بھولے سے بھی تذکرہ نہ کریں لیکن مذمت و تمسخر کے راستے ہی سہی وہ اس کا ذکر کہیں نہ کہیں کر ہی بیٹھتی ہیں –
اس عورت سے آخر بادشاہتوں سے لیکر سرمایہ داری کی لبرل فیمنسٹ عورتوں کی اس قدر نفرت کے پیچھے کون سا محرک تھا؟
وہ عورت وہ تھی جو عورتوں کی انقلابی نجات کا نظریہ پیش کرتی تھی اور محنت کش عورتوں کو سرمایہ دارانہ طبقات کی عورتوں سے الگ کرتی تھی –
اس سے سرمایہ داری کے حامی مرد و خواتین فیمنسٹوں کی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ساری زندگی محنت کش عورتوں کو یہ سبق پڑھاتی رہی کہ عورتوں سے روا رکھے جانے والے جبر سے نجات اور اس کا حل صرف اور صرف سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہی ہے – اس کا کہنا تھا کہ محنت کش عورتیں محنت کش مردوں کے شانہ بشانہ عالمی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ایسی انقلابی سوشلسٹ پارٹیوں میں شریک ہوں جن کا مقصد سرمایہ داری کو اکھاڑ کر ایک نئے سوشل آڈر کی تشکیل ہو-
” ہمارا مقصد محنت کش مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ طور پر کھڑے کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان سب کو متحد کر ایک ایسی قوت میں بدلنا چاہیے جو سرمائے کے خلاف محنت کشوں کے مفاد میں کی نمائندگی کرتی ہو”
وہ ساری عمر سرمایہ دارانہ فیمنزم پر سخت اور دو ٹوک تنقید کرتی رہیں جسے وہ
Bourgeois ‘Women’s Rights
کہا کرتی تھیں – اور محنت کش طبقے کی آزادانہ سیاست کی ضرورت کو ہمیشہ برقرار رکھتی رہیں –
انہوں نے دو ٹوک انداز میں ایک جگہ لکھا:
"بورژوا /سرمایہ دار خواتین کی تحریک عورتوں اور مردوں کی مکمل قانونی اور سماجی برابری کا بنیادی مطالبہ اٹھاتی ہے۔ اس کے لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ اس مطالبے کو پورا کرنے سے، بلاامتیاز، تمام خواتین کے لیے یکساں آزادی کی اہمیت ہوگی۔ یہ غلط ہے. وہ اس حقیقت کو نہیں دیکھتے ہیں، یا دیکھنا نہیں چاہتے ہیں کہ جب ایک مکمل سماجی انسانی آزادی پر مبنی یا غلامی پر مبنی سماج کا سوال سامنے آتا ہے تو ناقابل سمجھوتا طبقاتی تضاد جس کی بنیاد سرمایہ دارانہ طریق پیداوار پر ہوتی ہے وہ فیصلہ کن سماجی مظہر ہے جو سرمایہ دارانہ سماج کو تقسیم کردیتا ہے جس میں ایک طرف تو استحصال کرنے والے اور حکمران ہوتے ہیں تو دوسری جانب استحصال کا شکار اور محکوم و مجبور – قانونی دستاویزات میں مرد و عورت کی رسمی برابری استحصال زدہ مجبور و محکوم محنت کش عورتوں کو اتنے ہی کم حقیقی اور سماجی آزادی دلا پاتی ہے جتنی کہ ان کے طبقے کے مردوں کو حاصل ہوتی ہے – حالانکہ محنت کش طبقے کے مردوں کی جنس/جینڈر بھی وہی ہوتی ہے جو سرمایہ دار مردوں کی ہوتی ہے”-
"طبقاتی شعور سے لیس محنت کش طبقہ اپنی صفوں میں سرمایہ داری کے حامی فیمنزم کو جگہ نہیں دیتا- اور وہ طبقاتی جنگ کو کبھی مرد و عورت کے درمیان کشمکش سے نہیں بدلتا”
اس عظیم انقلابی خاتون کامریڈ کا نام کلارا زیٹکن تھا جو 1857ء جی ہاں برطانوی ہندوستان میں جنگ آزادی والے سال میں جرمنی میں پیدا ہوئی اور 1933ء میں ماسکو سوویت یونین میں فوت ہوئیں اور ان کی تجویز پر سوویت یونین اور انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن نے 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانا شروع کیا-
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر